अन्य

ذکرخیرحضرت مولاناسیّدشاہ علی ارشدشرفی مدظلہٗ

                بہارکی سرزمین ذرخیز ضرور ہے مگراپنی شہرت و وسعت سے کافی دورہے، اس کی واضح مثال حضرت مخدومِ جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ہیںجوشیخ الاسلام والمسلمین کی حیثیت رکھتے ہیں، علما ان کے قدرداں تھےتو صوفیہ ان پر فدا مگر بہار واہلِ بہار کی بد نصیبی ہے کہ جو عزت و شہرت حضرت مخدوم کو حاصل ہونی چاہئے تھی وہ اب تک نہ ہوسکی، اگرحضرت مخدوم کا مَولدومسکن یا آستانۂ معلیٰ کسی دوسری ریاست میں ہوتاتوشاید اس کی حقیقت کچھ اور ہوتی،بہار کی زمین ہمیشہ لعل و گہر پیدا کرتی رہی ہےمگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اہلِ بہارنےانہیںلعل وگہرکوپسِ پشت ڈالنےکاکام کیاہےاور یہ صرف حضرت مخدومِ جہاں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ دوسرےصوفیا،علما،شعرا،ادبا،صلحا،نقبا،فقہا،شہدا،عَربا،فصحا،سیاسی ،سماجی و مذہبی رہنماکے ساتھ بھی یہی ہوا۔

                تذکرۂ معاصرین کی یہ پانچویں قسط حضرت مخدومِ جہاں کے خانوادہ کے ایک برگزیدہ علمی شخصیت اور ان کی تصنیفات کے عظیم مترجم مرشدِگرامی حضرت مولانا ڈاکٹر سیّدشاہ علی ارشدشرفی زاداللہ برکاتہٗ و عظمتہٗکے عنوان سے منسوب ہے۔

                مولاناعلی ارشد شرفی کا شمار صوبۂ بہار کی چندممتازترین علمی شخصیات میںہوتا ہے وہ اپنی قابلیت اور وسعتِ علمی کی بنا پر تمام مکتبِ فکر میں جانے جاتے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہلِ علم ان سے واقف ہیں توعوام الناس ان سے نہ آشنا۔

                واضح ہوکہ مولانا علی ارشدمشہور عالمِ دین حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی فردوسی جنہیں ماہرِمخدومیات بھی کہا جاتا ہے کہ بڑے صاحبزادے اور جانشین ہیں،آپ اپنے نانیہال خانقاہ معظم کےحجرہ سے جنوب کی طرف حضرت شاہ نجم الدین فردوسی کے مکان میں ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۳۷۱ھ موافق یکم مئی ۱۹۵۲ اتوارکوپید اہوئےاور خانوادہ کے پاکیزہ بزرگوں کے سایہ میں پلے بڑھے، اپنے والد کے علاوہ اپنے دادا محترم حضرت شاہ ابراہیم حسین فردوسی سے کافی قریب تھے،تعلیم کا آغازبھی دادا کے ذریعہ سے کیا ،کہتے ہیں کہ عربی اور فارسی کی مستند کتابیں اپنے دادا اور والدِماجد سے پڑھی مزید تعلیم کی خاطر مدرسہ عزیزیہ(بہارشریف)سے وسطانیہ تافاضل کے امتحان دئے اور عصری تعلیم پٹنہ کالجیٹ اسکول سےمیٹرک،نالندہ کالج سے انٹرس سے بی،اے آنرس تک،پٹنہ یونیورسیٹی سے فارسی میں ایم،اےکیااورپی،ایچ،ڈی کا مقالہ بعنوان ’’حیات و آثارجنابحضور حضرت سیّدشاہ امین احمد فردوسی ثباتؔ بہاری‘‘تحریرکیااس کے علاوہ ایک اورتحقیقی مقالہ’’بہارشریف کے فارسی گو صوفی شعرا‘‘بھی پڑھنے کی چیز ہےیہ دونوں مقالے اب تک غیرمطبوعہ ہے۔

                حکیم شاہ قسیم الدین شرفی بہترین عالمِ دین تھے وہ فارسی زبان کے بلند مینار کہے جاتے تھے، مولانا کو یہ زبان وراثت میں ملی ہے، دور دور سے فارسی کے شائق آج بھی ان کے پاس زبان سیکھنے آتے ہیں، طلبہ کی تعدادیقیناًہزاروں میںہے،مولانابنیادی طور پر استاد ہیں، صغریٰ ہائی اسکول (بہار شریف)میں۱۹۷۸سے ۲۰۱۲تک عربی،فارسی اور اردوکے استادرہے،نیز گلزارِابرہیم میںایک عرصہ تک اردو اور فارسی پڑھاتےرہے،اب چندسالوں سے ضعف و نقاہت کی بناپر یہ سلسلہ چھوٹ گیا ہے۔

                مولانا کو بیعت اپنے داداحضرت شاہ محمد ابراہیم حسین فردوسی سے سلسلۂ فردوسیہ میں ہے،داداکے علاوہ والدِماجدسے کل سلاسل کی اجازت و خلافت بھی حاصل ہے،والدکی رحلت کے بعد۱۵؍جون ۱۹۹۳کوآپ سجادگی پرجلوہ افروز ہوئے،۱۹۹۸میں حج کیااور دومرتبہ عمرہ و زیارت کے شرف سے مشرف ہوئے،اب سلسلۂ فردوسیہ شرفیہ میں آپ کی ذات یگانۂ عصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

                مولانا پدری اور مادری ہردوجانب سےحضرت وحیدالدین چلہ کش کی اولادہیں، آپ کے دادا شاہ ابراہیم حسین،حضرت شاہ علی ارشدکے نبیرہ ہیں اور نانا شاہ نجم الدین، جنابحضور شاہ امین احمدکے نبیرہ ہیںاور مولانا کا نکاح بھی حضرت شاہ محمد سجاد فردوسی کی چھوٹی صاحبزادی بی بی معینہ سے ہواجن سے تین صاحبزادی اور ایک صاحبزادے جناب سیّدشاہ احمد غزالی فردوسی ہیں،یہ اپنے بزرگوں کی روش پر قائم ہیں اور اس خدمت میں اپنے والدکے شانہ بشانہ ہیں،مولانا نےاپنا جانشین آپ کومنتخب کردیاہےزاداللہ عظمۃ،الغرض مولاناکا نانیہال وسسرال دونوںخانقاہ معظم ہوا،اب آپ کا پدری نسب درج کیاجاتاہے۔

                محمد علی ارشد بن قسیم الدین بن ابراہیم حسین بن علی مظہر بن علی ارشد بن واحد علی بن احمد علی بن غلام غوث بن غلام مرتضیٰ بن مصطفیٰ بن نظام الدین بن قطب الدین بن مصطفیٰ بن دیوان علی بن احمد بن محمد اخوندبن محمد جلال الدین بن محمد بھیک بن اما م الدین بن علیم الدین بن بی بی بارکہ بنت ذکی الدین بن مخدوم جہاںالخ۔

                مادری نسب اس طرح ہے۔

                محمد علی ارشد بن بی بی شرفیہ بنت نجم الدین بن برہان الدین بن امین احمد بن امیرالدین بن ولی اللہ بن علیم الدین بن بدیع الدین بن وجیہہ الدین بن ذکی الدین بن عبدالسلام بن دیوان علی الخ۔                       (اشرف الانساب،ص۷)

                مولانا ایک باذوق انسان ہیں، ادبی و فنی صلاحیت کے حامل ہیں، ان کے اسلوب و بیان میں سادگی و صفائی کی صفت پائی جاتی ہے،ان کی شخصیت ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں،مرنجا ں مرنج، گفتگو میں متانت و سنجیدگی،عمدہ اَخلاق ،نیک نیت و رویہ، اخلاص و محبت اوراچھی سوچ و فکرکے مالک ہیں،ہر طبقہ اور ہر مکتبِ فکر سےتعلق رکھنے والاآدمی ان سے محبت کرتا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک پر شفقت و محبت نچھاور کرتے ہیں، ان کی محفل میں ہمیشہ سادہ چائےگرم رہتی ہے،اب حضرت مخدومِ جہاں و دیگر فردوسی مشائخ کی کتابوں کے اردوتراجم میں زیادہ وقت گزرتا ہے۔

                حضرت مخدومِ جہاں کے علمی کارناموںکادائرہ اتنا وسیع وعریض ہےکہ پچھلے آٹھ دہائیوں سے مخدوم کی تصنیفات، ملفوظات و مکتوبات، ادعیات و وظائف اور سلسلۂ فردوسیہ کا  ایک بڑا ذخیرہ  حضرت شاہ محمد ابراہیم حسین فردوسی اوران کے اخلاف خوش دلی کے ساتھ انجام دے رہےہیں،آج دنیا بھر میں مخدومِ جہاں اور ان کےسلسلے کی زیادہ تر کتابیں اسی خانوادے کی محنت و مشقت کا ثمرہ ہےکہ اردو زبان میں ترجمہ ہوکر منصۂ ظہور میں آسکی۔

                حضرت شاہ ابراہیم حسین فردوسی اور ان کے بعد ان کےدونوں لائق فرزندپروفیسرشاہ نعیم الدین فردوسی اورحکیم  شاہ قسیم الدین شرفی نے مکتوبات صدی /دو صدی کا ترجمہ کیا جس کی خاصی شہرت ہوئی، اب مولانااس خدمت کونہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں،عمر کے اس پڑاوپربھی پہنچ کرتقابلِِ نسخہ،ترجمہ،تحقیق اورنظرِثانی تک خود ہی انجام دیتے ہیں،مخدومِ جہاں سے ان کو ایسی انسیت ہے کہ خود ان کاتحقیقی مقالہ اب تک غیر مطبوعہ ہے، میں نے بارہاان سے دریافت کیا کہ اسے شائع کرادیں تواپنے والدِماجد کے اس قول کو دھراتے ہیں کہ

                ’’اگر میری کتاب شائع ہوگی تو مصنف کی دنیا میں بس ایک نام کا اضافہ ہوگا اورمخدوم کی کسی کتاب کا ترجمہ ہوکر عوام وخواص تک پہنچے گی تو مخدوم کے غلاموں میں سرخروئی عطا ہوگی‘‘

                اس جملے کے بعد اب کوئی جملہ لکھناباقی نہیں رہتا ، دو درجن سے زیادہ ترجمہ منصۂ ظہور پر آچکا ہے۔

                حکیم شاہ قسیم الدین شرفی کا ترجمہ کردہ مکتوباتِ دوصدی،جوابی مکتوب، عقیدۂ شرفی،شرح آداب المریدین،فوائدالمریدین،معدن المعانی(ملفوظات)، مونس المریدین(ملفوظات)اور پروفیسرشاہ نعیم الدین فردوسی کا ترجمہ کردہ مکتوبات صدی اور مناقب الاصفیا بھی منظرِعام پر آچکاہے۔

                وہیںمولانا نےمخدوم کے مکتوبات بست و ہشت،فوائدرکنی،ارشادالسالکین،ارشادالطالبین،فوائدالمریدین،ملفوظ الصفر(ملفوظات)،خوان پُرنعمت(ملفوظات)،اورادِ خوردکے علاوہ مخدوم حسین بلخی کے مکتوبات،اوراد دہ فصلی، گنجِ لایخفیٰ(ملفوظات)،حضرت احمد بلخی لنگرِدریاکاملفوظ مونس القلوب،خواجہ نجیب الدین فردوسی کا وصیت نامہ،حضرت احمدچرم پوش کا ملفوظ ضیاؤالقلوب،شیخ آموں فردوسی کا ملفوظ تحقیقات المعانی،مطلوب المبارک،امام زاہدی کی تفسیرسورۂ فاتحہ،نجم الدین کبریٰ کی الاصول العشرہ،امام احمدغزالی کی عینیہ یا تازیانۂ سلوک کے علاوہ شرف الانساب تک شائع ہوکرمقبول انام ہے۔

                اس کے علاوہ مضامین و مقالات معارف (اعظم گڑھ)،غازی(کلکتہ) اور تعمیرِحیات(لکھنؤ)وغیرہ میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔

                اسی طرح مولانا کے برادرِاصغرعابدعلی شرفی نے بھی گنجینۂ فردوس،شرف البیاض وغیرہ ترتیب دے چکےہیں اور مزید اس سلسلے میں مصروف ہیں۔

                راقم کی نظر میں اب بھی لطائف المعانی،گلِ فردوس،مخزن الانساب،بہار شریف کے فارسی گو صوفی شعرا (تحقیقی مقالہ)،حیات و آثار جنابحضور شاہ امین احمد فردوسی(تحقیقی مقالہ)،مزاراتِ بہار شریف،رفیق الحج،بیاض قسیمؔ،شاہ قسیم الدین احمد سوال و جواب کے آئینہ میںتشنعٔ طبع ہے۔

                مندرجہ بالاعلمی کاموں کے علاوہ مولانااور اُن کے اسلاف و اخلاف نے حضرت مخدومِ جہاں،حضرت مولانا مظفرشمس بلخی،حضرت مخدوم حسین بلخی نوشۂ توحید،حضرت مخدوم حسن بلخی دائم جشن،حضرت شعیب فردوسی، حضرت احمد بلخی لنگر دریا،حضرت شیخ آموںفردوسی ،جناب حضور شا ہ امین احمد فردوسی و دیگر اکابرصوفیائے کرام کے مخطوطات و مطبوعات کی تحصیل و تحفیظ میں بھی اپنی قیمتی زندگی وقف کردی اور قیمتی وراثت کو محفوظ کرنا اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنایا جو آج سلسلۂ فردوسیہ کی عظیم خدمات سمجھی جا رہی ہیں۔

                واضح ہو کہ مولانانے نہ صرف سلسلۂ فردوسیہ کے بزرگوں کے علمی کاموں کی حفاظت کی بلکہ دیگر صوفیاجیسے حضرت نجم الدین کبریٰ ، حضرت عین القضاۃ ہمدانی، حضرت امام احمد غزالی اور حضرت احمدچرم پوش وغیرہ کے علمی و روحانی سرمائے کو بھی لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

                یقیناً یہ ایک بڑا کارنامہ ہے جو مولانانےتنِِ تنہاکر دکھلایا، اتنے بڑے کارنامے کو آپ نے اس قدر آسانی کے ساتھ حل کرلیاکہ اس کی روشن مثال آپ ہیں، عام طورپر دو تین کتابوں کا مترجم عہدِحاضرمیں فخروانبساط محسوس کرتے ہوئے اس کی تشہیر میں کچھ ایسا کوشاں و سرگرداں ہوجاتاہے کہ جیسےاس نے کوئی سلطنت فتح کرلی ہولیکن حضرت والاکی ذات تودیکھئے متذکرہ کتابوں کے بعد دوسری کتابیں فہرست میں ہے مگر وہی خاکساری و انکساری، عاجزی وفروتنی جو آباو اجداد میں تھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، یہ معقولہ بچپن سے ہی سنتا آرہا ہوں کہ ’’پھلدار درخت ہمیشہ جھکے ہوئے ملتے ہیں‘‘میں نے بزرگوں سے سناہے کہ جتنا علم حاصل کروگےاتناتمہارے اندرجھکنے کا مادہ پیداہوگا،یقناً اہلِ علم حضرات خاکساری میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں،نام و نمود، عیش و عشرت، عروج و اعتلا سے کافی دور ہوتے ہیں، مریدان و معتقدان مختلف ریاست میں پھیلے ہوئے ہیں، چند صاحبان خلافت سےبھی مشرف ہیں،بہارشریف میں آپ کا کتب خانہ مختلف موضوعات کے لئے مشہور ہے ، شہر کے صاحبانِ علم اکثراستفادہ کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں جن میںمطبوعات کے علاوہ مخطوطات کی بھی طویل فہرست ہے۔

                مولانا کا شعری ذوق بھی لاجواب ہے، سیکڑوں اشعار انہیں آج بھی یاد ہیں،اردو اور فارسی کے اشعار سناتے ہیں اور پھراس کی کیفیت بھی بیان کرتےہیں، شاہ اکبرؔداناپوری اور شادؔ عظیم آبادی کےاشعار میں نےخود ان سےسنے ہیں،حضرت شاہ اکبرؔداناپوری کے دیوان تجلیاتِ عشق پرتحقیقی و تفصیلی مقالہ آپ کاشائع ہوچکاہے۔

                ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘کے تحت مولانا کی ایک غزل کے چند اشعار لکھ دیتاہوں۔

                                کرتے رہے ستم پہ ستم تم اسی طرح                     آئے گی یاد تم کو ہماری بری طرح

                                چاہو تو دے کے دیکھ لو دل غیر کو مرے           لیکن نہ پا سکوگے کسی کو مری طرح

                                چکر لگائے ہم نے بھی سارے جہان کے                              لیکن ملا کہیں بھی نہ ہم کو تری طرح

مولانا سیّدشاہ محمد ریَّان ابوالعُلائی

خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ

شاہ ٹولی،داناپور،پٹنہ(بہار)