अन्य

ملت اسلامیہ ہند اب مزید ‘لائحہ عمل’ پر کانفرنسوں اور سمینار کی متحمل نہیں ہے

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا دو روزہ اجلاس نئی دہلی کے انڈیااسلامک کلچرل سینٹر اور انڈیا انٹرنیشنل سینٹرمیں 20 اور 21 مئی کو منعقد ہوا  ، اجلاس کا مرکزی موضوع تھا ‘ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا لائحہ عمل ‘ ۔ کانفرنس کے اختتام پر 10 نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ” ان سنگین اور دشوار گزار حالات میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اپنے تاریخی اعلامیہ کے ذریعے ملک و ملت کو واضح پیغام دینا چاہتی ہے ‘ ۔ ظاہر ہے یہ موضوع نیا نہیں ہے ، میں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آزاد ہندوستان میں پہلے روز سے ہی یہ موضوع ہمارے علماء ، دانشوروں ، سیاست دانوں اور صحافیوں کے درمیان زیر بحث ہے ۔ آج جب ہم آزادی کی 75 ویں سال گرہ منا رہے ہیں ، تب بھی یہ موضوع زیر بحث ہے ۔ اس دوران ملک کے معاشی ، سیاسی، سماجی ،تعلیمی حالات تو بدلے ، لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے حالات میں وہ تبدیلی نہ آسکی جس کا خواب جمعیت علماء ہند کے اکابرین ، مولانا ابوالکلام آزاد اوران کے ساتھیوں نے دیکھا تھا ۔

 بہت جلد آزادی کے محض 17 سال بعد ہی آزاد ہندوستان کے سیاستدانوں کا مسلم اقلیتوں سے کیا گیا وعدہ ٹوٹ گیا چنانچہ زخم خوردہ ہندوستانی مسلمانوں نے مسائل سے مقابلہ کرنے کے لیے باہم مشاورت کا ایک پلیٹ فارم  1964 میں تشکیل دیا جس کا نام ‘آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت’ رکھا گیا ۔ ریاست سے لیکر ضلعی سطح تک کا نیٹ  ورک  تشکیل دینے کی بات کی گئی ، بتایا جاتا ہے کہ مشاورت نے بڑی سرگرمی سے لگ بھگ سبھی فرنٹ پر کام شروع کیا تھا لیکن یہ سرگرمی دیرپا ثابت نہ ہوئی  یہ کوشش داخلی اور خارجی سیاست کا مستقل شکار ہوتی رہی ۔

سہ روزہ دعوت میں ملازمت کے دوران آزادی کے ٹھیک 5 سال بعد  1953 سے جاری اخبار ‘سہ روزہ دعوت’ کی پرانی فائلوں کو مجھے بارہا دیکھنے کا موقع ملا ، آپ یہ دیکھ کر  حیران رہ جائیں گے کہ  ‘ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا لائحہ عمل ‘ موضوع تب بھی اسی شدت سے زیر بحث تھا ‘سہ روزہ دعوت’ کے کالموں ،اداریوں ، اوراخبارمیں شائع پریس ریلیزکی سرخیوں میں اکثر اسی پر بات ہوتی تھی ۔ پھر آخر کیا وجہ رہی کہ ‘مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی’ ، نتیجے کیوں نہیں آئے؟ اس صورت حال کا ا صل ذمہ دار کون ہے ؟ اگر اقدامت کیے گئے تو نتائج کیوں نہیں آئے؟

میں اپنے محدود علم کی روشنی میں جب ماضی کی کوششوں کا تجزیہ کرتا ہوں تو یہ بات بہت واضح نظر آتی ہے کہ ہماری بنیادی کمزوری یہ رہی کہ ہم ہمیشہ ہنگامی حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اٹھے اور حالات کے کروٹ لیتے ہی ہم نے بھی لمبی سانس لی اور پھر سو گئے ۔ ہم نے کبھی کوئی مستقل ورکنگ پلان  اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ، یہ صورت حال آج تک جاری ہے۔ اگر سبھی ملی جماعتیں آئندہ دس برس تک کوئی کانفرنس ،سمینار میٹنگ نہ کریں تب بھی ہر ایک کے پاس ان کی اپنی کانفرنسوں میں پاس کردہ  ایسےدرجنوں اعلامیے ہوں گے جن پر کام شروع کر سکتی ہیں ۔

رہی بات مشاورت کی تو موجودہ صدر نوید حامد متعدد بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ‘ مشاورت کی رکن  تنظیمیں اس کی کمزوری بھی ہیں اور یہی اس کی مظبوطی بھی ہیں ‘ ۔  موصوف سے جب جب مشاورت کے ورکنگ پلان پر بات ہوئی مالی دشواری افرادی قلت کا ذکرکرتے ہیں ۔ ان کی تشویش بجا ہے ،  22 مئی کو جاری کردہ اعلامیہ کے سبھی  نکات پر مستقل کام کرنے کے لیے دفتر سے لیکر میدان تک افرادی اور مالی دونوں قوت درکار ہے اور یہ دونوں مشاورت کے پاس نظر نہیں آتی ۔ اس کی رکن تنظیمیں اگر واقعی سنجیدہ ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ مشاورت سرگرمی سے اعلامیہ پر کام کرے تو انہیں چاہیے تو اپنے اپنے حصے کا مستقل  تعاون پیش کریں اگر دو دو ملازمین کا بوجھ ہی اٹھالیں تو مشاورت کےلیے بہت آسان ہوجائے، اگر یہ ممکن نہیں ، تو اعلامیے کے نکات پر اپنے اپنے حلقوں میں خود ہی کام شروع کر دیں اور اس کی پیش رفت رپورٹ سے مشاورت کو ماہانہ اپڈیٹ کریں اور مشاورت سبھی رکن تنظیموں کے مشورے سے اپنے دفتر میں  کم ازکم ایک ‘نگرانی اور کارروائی’ سیل بنائے ۔

وقت کا تقاضا  یہ بھی ہے کہ  مشاورت حکومت سے مسلم مسائل پر گفتگو کا خاکہ تیارکرے ۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کرے ۔  ہندوستانی مسلمانوں کی عملی سرپرستی اور رہنمائی کرے انہیں یہ بتائے کہ وہ اس بدلے ہوئے سیاسی حالات میں کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔ خدا کا شکرہے کہ ابھی مسلم تنظیموں کے درمیان تعاون اس حد تک  تو ہے کہ اگر کسی ایشو پر کوئی تنطیم ، مظاہرہ ،سمپوزیم ،سمینار اور کانفرنس کا انعقاد کرے تو زیادہ ترتنظیمیں یا افراد ایک دوسرے کے ساتھ  اسٹیج شیئر کرلیتے ہیں  لیکن یہ کافی نہیں ہے جب تک اسٹیج پر دکھائی دینے والا رہنماوں کا یہ اتحاد عوامی اتحاد میں تبدیل نہیں ہوگا مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔ اتحاد بین المسلمین میں یقین رکھنے والوں کو عملا یہ کام کرنا ہوگا ۔ ملت اسلامیہ ہند اب مزید ‘لائحہ عمل’ پر کانفرنسوں اور سمینار کی متحمل نہیں ہے  ۔ کہنے کا مطلب بہت واضح ہے کہ ایک دوسرے کو کوسنے کا وقت اب ختم ہوا ،سب ملکر کام کریں اور کام سے ہی حالات بدلیں گے ،کسی کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے ، اندھیروں کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا ، ہر فرد اور تنظیم  اپنے حصے کا دیپ جلائے ۔

اشرف علی بستوی

نوٹ : مضمون نگار ایشیا ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں