دارالعلوم الخیریہ میںمولاناکی حیات وخدمات کے عنوان تعزیتی سیمینار کا انعقاد
سہارنپور/جالندھر 22جون (مظہر): بانی دارالعلوم الخیریہ و مدرسہ مظاہر علوم کے سابق استاذ تفسیر وحدیث اور مشہورمفسر قرآن مولانا نثار احمدمظاہری کی حیات و خدمات کے عنوان سے دارالعلوم الخیریہ میں تعزیتی سیمینار کا انعقاد ہوا ، جس میں عظیم نامور شخصیات کے علاوہ محققین مقالہ نگار اور دانشور حضرات نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض مولانا وصی سلیمان ندوی ایڈیٹر ماہنامہ ارمغان و مفتی حفظ الرحمن ندوی نے مشترکہ طور پر انجام دیئے۔ سیمینار کی صدارت مولانا محمد ہاشم مہتمم جامعہ کاشف العلوم چھٹمل پور نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر عاشق ملت مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی قومی صدرِ آل انڈیا ملی کونسل نے سیمینار کو زینت بخشی۔
اس پروقار تقریب میں مولانا کی خوبصورت و سادہ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے سیمینار کی مقصدیت اور غرض و غایت پر تفصیلی گفتگو کی گئی، ساتھ ہی سیمینار کی افادیت اور مولانا کی زندگی کے روشن نقوش سے نمایاں ہونے والے اثرات و پیغامات کی جانب بھی نشاندہی کی گئی۔ مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی آدمی کا تذکرہ کبھی تو ذات کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی وصف کے اعتبار سے تذکرہ ہوتا ہے اور آدمی فضائل و خصوصیات و درجات میں ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے ۔جس طرح انبیا علیہم السلام کہ وہ انبیا ہونے کی حیثیت سے تو سب برابر ہیں لیکن اوصاف و کمالات اور فضائل و درجات میں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں، یہی درجات و مراتب انسانوں میں بھی ہوتے ہیں ۔
مولانا نثار احمد نور اللہ مرقدہ میں بھی کچھ ایسی صفات تھیں جو انکو دوسرے علما ء سے ممتاز بناتی ہیں اور مولانا کی سب سے اہم صفت یہ تھی کہ وہ اللہ رب العزت کے کلام کی تفسیر اور وضاحت عوام و خواص کے سامنے بڑے ہی سہل و سادہ انداز میں بیان کرتے تھے۔یقینا وہ ایک مایہ ناز عالم دین، باکمال استاذ کے ساتھ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے،ان کی طبیعت دنیا سے متوحش اور آخرت کی طرف راغب رہتی تھی۔ بزرگانِ دین اور صوفیا کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان سے تعلق رکھنے میں انہیں سکون ملتا تھا۔ آپ نے تفسیر قرآن کریم کے ذریعے ملت کی بے پناہ خدمت کی ، جسکی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہیں شہرت کی بلندی عطا کی تھی۔انکی وفات علمی ودینی حلقہ کیلئے ایک بہت بڑاخسارہ ہے۔بعد ازاں مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی نے مولانا نثار کے فرزند قاری عبدالرحمن سلمہ کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کو مولانا مرحوم کا جانشین مقرر کیا اور ان کے سر پر دستار باندھی ۔
اس موقع پر ساتھ میں مولانا ہاشم ، مولانا ظہور احمد قاسمی،مولانا آصف ندوی، مولانا انعام اللہ قاسمی، مولانا عبدالمالک مغیثی، مولانا ناظم قاسمی، مولانا حبیب اللہ قاسمی، مفتی حفظ الرحمن ندوی، مدرسہ فیض العلوم بوڑیہ سے مفتی ناصر الدین مظاہری، مولانا محمد احمد شہر قاضی دہرہ دون،عمران مسعود، مولانا رسال الدین حقانی، قاضی ندیم اختر، مولانا فروزمظاھری، الحاج فضل الرحمن نانکہ، مفتی راشد ندوی، مفتی ناصر ایوب ندوی، مولانا برہان ، مولانا شاہد مظاہری، ،مولانا عبدالخالق مغیثی، مفتی عطا الرحمن قاسمی، قاری جنید ، مولانا عامر ، مولانا عبدالحسیب، فتح محمد ندوی، حاجی ریاض الحسن، جلال الدین صدیقی، حاجی فرید، بھاء فضل الرحمن، اور مفتی احترام وغیرہ موجود رہے۔