مفتی محمد ثنأ الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
فیفا ورلڈ کپ کی دھوم اس وقت پوری دنیا میں ہے، اس کے قبل بھی فیفا کے ورلڈ کپ کا انعقاد ہوتا رہاہے، اور کھیل کے شوقین لوگوں کی دلچسپیوں کی وجہ سے اس کھیل نے مقبولیت کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے، لیکن اس بار اس کھیل کے ساتھ اور بھی کئی ایسی چیزیں جڑ گئی ہیں، جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالیا۔
فیفا(FIFA)فرنچ زبان کے لفظ Fédération Internationale de Football Association کا مخفف ہے ، جس کا مطلب ہے”انٹرنیشنل فیڈریشن آف فٹ بال ایسوسی ایشن “ یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے، اس کا آغاز ۰۳۹۱ءمیں ہوا، اور اس کے ذریعہ ہر چار سال پرعالمی فٹ بال کپ کے لیے بین الاقوامی مقابلہ ہوا کرتا ہے، ۲۴۹۱ءاور ۶۴۹۱ءمیں دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے اس کھیل کا انعقاد نہیں کیا جا سکا تھا۔
اس عالمی فٹ بال مقابلہ کے لیے میزبانی کا شرف بھی ہر کسی کو نہیں حاصل ہوتا، فیفا نے اس کے لیے ایک معیار مقرر کر رکھا ہے ، اس معیار کو پورا کرنے کے بعد بھی ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے، اوراس میں کامیابی کے بعد اگلے میزبان ملک کا اعلان کیا جاتا ہے، قطر پہلا اسلامی ملک ہے جس کو ۲۲۰۲ءکی فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا موقع ملا ہے۔ قطر ایک چھوٹا ملک ہے، اس کا رقبہ صرف ۶۸۵۱۱ مربع کیلو میٹر اور آبادی تیس (۰۳)لاکھ سے بھی کم ہے۔ ۰۱۰۲ءمیں فیفا کی مجلس منتظمہ نے امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا کے مقابلے قطر کو چودہ میں سے آٹھ ووٹ دے کر میزبانی کا اعلان کیا تھا اور قطر نے اسے قبول کر لیا تھا۔
اس مقابلہ میں شرکت کے لیے کسی بھی ملک کی ٹیم کو کوالی فائی کرنا ضروری ہے ،قطر کی فٹ بال ٹیم نے کبھی کوالی فائی نہیں کیا تھا، اس طرح اسے کبھی بھی ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع نہیں ملا تھا، اس بار چوں کہ وہ خود میزان ہے، اس لیے فیفا کے ضابطہ کے مطابق اسے کوالی فائی کی قید سے مستثنیٰ رکھا گیا اور اس نے پہلی بار پہلے دن ہی مقابلہ میں شرکت کیا، لیکن اس کوایکواڈور سے شکست ملی اور مقابلاتی دوڑ سے باہر ہو گیا، جس کا افسوس قطریوں کو ہوا، لیکن جب سعودی عرب کی ٹیم نے کئی بار کی چمپین ارجنٹائنا کو شکست سے دو چار کر دیا تو پوری عرب دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، سعودی عرب کی یہ ایسی جیت تھی، جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
قطر کی ٹیم مقابلہ میں ہار گئی، لیکن وہاں کی حکومت نے اس بین الاقوامی کھیل کا دعوتی رخ دینے میں کامیابی حاصل کر لی اور اس کی وجہ سے قطر عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بن گیا، خصوصا ایسے وقت میں جب سعودی عرب میں اسلامی اقدار دھیرے دھیرے ختم کیے جا رہے ہیں، قطر نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
قطر نے اپنا بڑا سرمایہ فیفا ورلڈ کپ کے معیار کے مطابق اسٹیڈیم، ہوٹل، سڑک وغیرہ کی تعمیر پر لگایا، ہزاروں کی تعداد میں مزدور کئی ممالک سے لائے گئے اور انہیں کام پر لگایا گیا، جنگی پیمانے پر اس کام کی انجام دہی میں کئی مزدوروں کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا، لیکن قطر نے اپنا تعمیراتی کام جاری رکھا اور وقت سے پہلے ساری تیاریاں مکمل کر لیں اور جائزہ ٹیم نے اس کے حسن انتظام پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
مغربی ممالک نے جب پہلی بار قطر کو فیفا کی میزبانی بخشی تو ان کی ترجیحات یہ تھی کہ پوری دنیا کے شائقین جب اپنی تہذیب وکلچر کے ساتھ وہاں پہونچیں گے تو قطر کی تہذیب خاصی متاثر ہوگی اور وہاں مغربی تہذیب افکار وخیالات کے نفوذ کے دروازے کھلیں گے، لیکن قطر میں شیخ تمیم کی حکومت نے اس موقع کا استعمال اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے کرنے کی کامیاب منصوبہ بندی کی، اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اٹھائیس دن کے کھیل کے لیے اپنا دین ومذہب نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہم اسلامی تہذیب وثقافت سے کوئی سمجھوتہ کریںگے، اس فیصلہ کے نتیجے میں قطر نے اعلان کیا کہ یہاں ہم جنسی سے جڑے لوگ اور تنظیموں کا داخلہ ممنوع ہوگا، اس نے اس جہاز کو بھی اپنے ملک سے واپس کر دیا جس پر ایل جی پی ٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا، اس نے طے کیا کہ فیفا ورلڈ کپ کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے ہوگا اور اس کے لیے اس نے ایک ایسے قاری غانم المفتاح کا انتخاب کیا جو کمر سے نیچے معذور تھا، اسے فیفا عالمی کپ کے ایمسیڈرکے طور پر متعارف کرایا گیا،اس طرح ہم جنسی کے مقابلے قطر نے معذوروں کو آگے بڑھانے کا کام کیا جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔اس نے دعوتی کاموں کے لیے ہندوستان سے باہر جلا وطنی کی زندگی گذاررہے ڈاکٹر ذاکر نائک کو بھی قطر بلا لیا، اسٹیڈیم میں شراب لے جانے، پینے، عریاں کپڑے پہن کر داخل ہونے پر بھی پابندی لگائی، اسٹیڈیم کے قریب نمازوں کی جماعت کا اہتمام کروایا، پوری دنیا سے آئے مہمانوں کے درمیان اسلام کے تعارف کے لیے ڈاکٹر ذاکر نائک کے خطابات رکھے، دعوت وتبلیغ سے وابستہ افراد کو اس کام پر لگا دیا، اسٹیڈیم، سرکاری راہداری، سڑکوں اور مختلف مقامات پر اسلامی تعلیمات کے بڑے بڑے بورڈ ، ہوڈنگ اور اسٹیکر س لگائے گیے ، عربی کے ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ دیا گیا تاکہ غیر ملکی لوگ اس کو سمجھ سکیں، با خبر ذرائع کے مطابق ان تمام طریقہ کار کو بروئے کار لانے کی وجہ سے سینکڑوں لوگ مشرف باسلام ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اسے کہتے ہیں ایمانی فراست کے ساتھ مواقع کا صحیح دعوتی استعمال۔ مغرب کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ قطر اس عالمی کپ مقابلہ میں یہ سب کر گذرےگا، اس لیے اب فیفا کی مجلس منتظمہ اور اس کے ذمہ دار کو اس کا افسوس ہے ،جس کا اظہار صدر نے ایک انٹرویو میں کر بھی دیا ہے۔