دوسرے دن اردو میں آن لائن ٹیچنگ اور علما و اردو ادب پر مذاکرے، کتاب میلے میں شائقین کی جوق درجوق آمد
ممبئی :قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام چھبیسواں اردو کتاب میلہ نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور بڑی تعداد میں شائقین میلے میں آکر اپنی پسندیدہ کتابیں خرید رہے ہیں۔آج میلے کے دوسرے دن دو اہم پروگراموں کا بھی انعقاد عمل میں آیا جن میں سے ایک’آن لائن ٹیچنگ اور اردو ذریعۂ تعلیم‘ کے عنوان سے تھا اور اس کا اہتمام کونسل و انجمن اسلام کے تعاون سے آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن نے کیا تھا۔ پروگرام کے آغاز میں آئیٹا کے صدر سید شریف نے آئیٹا کی کارگزاری پیش کی جبکہ ہیڈماسٹرز اسوسی ایشن کے سربراہ عبدالرحمن نے مہمانوں کا استقبال کیا ۔ اس کے بعد ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے ریسرچر صداقت فقیہ ملا نے ٹکنالوجی مربوط تعلیم و تعلم امکانات اور زاویے کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ صدی میں ہم ٹکنالوجی سے گھرے ہوئے ہیں ،ایسے میں یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم ٹکنالوجی کو تعلیم و تعلم کے لیے مثبت طریقے سے کیسے استعمال کرسکتے ہیں، اس حوالے سے انھوں نے مختلف کارگر طریقوں کی نشان دہی بھی کی۔رئیس ہائی اسکول اینڈ جونئر کالج کے پرنسپل ضیاء الرحمن نے اپنی تقریر میں آن لائن تعلیم کے سلسلے میں کچھ اصولی باتوں پر توجہ دلائی اور خصوصا اردو زبان میں آن لائن تعلیم کی گزشتہ پچیسسالہ تاریخ اور موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالی۔انھوں نے ٹکنالوجی کے استعمال کے ساتھ جدید طریقۂ تدریس کو اپنانے پر زور دیا۔آئن لائن ٹیچنگ میں تناؤ پر قابو پانے کے طریقوں پر ڈاکٹر آصف صدیقی نے گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ سٹریس کو کم کرنے کے لیے روزانہ ورزش کا معمول ہونا چاہیے اور اپنے آپ کو جسمانی سرگرمیوں میں بھی مشغول رکھنا چاہیے۔مہاراشٹر سرکار کے محکمہ تعلیم میں اعلیٰ افسر بھنڈارے جی نے بھی اس موقعے پر اظہار خیال کیا اور نئی نسل کے لیے کتابوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے والدین اور سرپرستوں سے کہا کہ بچوں کو اپنی نگرانی میں جدید ٹکنالوجی کے استعمال کا طریقہ سکھائیں۔
پروگرام کی صدارت کر رہے انڈین سینٹر آف اسلامک فائنانس دہلی کے جنرل سکریٹری ایچ عبدالرقیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں نفع بخش علوم کے حصول کا ہر طریقہ اپنانا چاہیے اور دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔اس موقعے پر مہاراشٹر کے مختلف اسکولوں کے تیس سے زائد اساتذہ کو کورونا اور لاک ڈاؤن کے دوران جدید ٹکنالوجی استعمال کرکے تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دینے پر مہمانوں کے ذریعے اعزاز سے بھی نوازا گیا،اس مجلس کی نظامت فہیم مومن نے کی۔
دوسرا سیشن ’علما کا اردو ادب‘ کے عنوان سے منعقد ہوا جس کا اہتمام ممبئی کے معروف تعلیمی ادارہ مرکز المعارف نے کیا تھا۔ اس سیشن کی نظامت مفتی جسیم الدین قاسمی نے کی ۔مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے مولانا برہان الدین قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں جہاں عصری دانش گاہوں کے تعلیم یافتہ ادیبوں اور شاعروں کا کردار ہے، وہیں مدارس کے فضلا نے بھی اردو ادب کی اہم خدمات انجام دی ہیں، انھوں نے اس حوالے سے درجنوں ایسے علما کا ذکر کیا جنھوں نے اردو ادب میں اپنی تصانیف کے ذریعے قابل قدر اضافہ کیا ہے۔مولانا انیس اشرفی نے کہا کہ اردو کی پرورش اور اس کی نشوونما میں سب سے زیادہ حصہ علما کا ہے یا جن دوسرے لوگوں نے اس زبان کی خدمت کی ہے ان کا بھی کسی نہ کسی حوالے سے علما یا مدارس سے رابطہ رہا ہے۔
مولانا نظام الدین قمرالدین نے کہا کہ اردو کے تحفظ اور فروغ میں علما کی حصے داری کے تعلق سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان حضرات نے وقت آنے پر اردو میں لکھنے پڑھنے کو دینی فریضہ جانا ہے،جس کی وجہ سے آج ہندوستان میں اردو زبان زندہ ہے ۔مولانا عبدالمعید مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان کی علمی و عملی تشکیل میں علما کا ہاتھ رہا ہے، لسانیات، قواعد، نظم و نثر کی اصناف ، عروض و آہنگ حتی کہ اس کے تلفظ و املا کو طے کرنے میں بھی علما کی کوششیں شامل ہیں ۔ مولانا سید روح ظفر نے اپنے خطاب میں کہا کہ علما اور اردو ادب ایک نہایت وسیع موضوع ہے ،جس کا مختصر وقت میں کما حقہ احاطہ نہیں کیا جا سکتا، ہمارے علما نے دین کے تحفظ کے مقصد سے ایک بہت بڑا تحریری اور تصنیفی سرمایہ اردو میں مہیا کیا ہے، جس سے یقینا اردو زبان کا بھی فروغ ہورہا ہے۔مولانا عبدالقدوس شاکر حکیمی نے کہا کہ اردو کی ابتدا سے ہی علما اس زبان کی خدمت کر رہے ہیں اور آج بھی ان کا کردار اس حوالے سے نہایت روشن ہے۔مولانا حکیم محمود دریابادی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی بنیادوں میں علما کی مخلصانہ کاوشیں شامل ہیں، جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے مختلف مسالک کے علما کے ذریعے لکھی گئی اردو کتابوں کا ذکر کیا جن کا اردو ادب و تنقید میں آج بھی اہم مقام ہے۔ انھوں نے قومی اردو کونسل اور میلے کے دگر منتظمین کا شکریہ بھی ادا کیا کہ ایسے اہم موضوع پر مذاکرے کا انعقاد کیا جسے عموما نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس موقعے پر بڑی تعداد میں ممبئی کے اہل علم موجود رہے اور کچھ لوگوں نے پروگرام کے تعلق سے اپنے تاثرات بھی پیش کیے۔مولاناعتیق الرحمن قاسمی کے اظہار تشکر پر اس محفل مذاکرہ کا اختتام عمل میں آیا۔
آج کے تیسرے پروگرام میں کردار آرٹ اکیڈمی نے معروف شاعر ساحر لدھیانوی کی زندگی پر مبنی داستانِ ساحر پیش کی،جسے سامعین نے خوب پسند کیا۔اس کے اسکرپٹ ڈزائنر ،ہدایت کار اور داستان گو اقبال نیازی تھے۔