ہماچل کے ضلع سرمور میں ائمہ کرام کے تربیتی پروگرام کا انعقاد کیاگیا
مسروالا/جالندھر (مظہر ): مسلم معاشرے میں امامت ایک معزز اور قابل احترام منصب ہے اور اس پر فائز رہنے والے لوگوں کو عام وخاص ہر طبقے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ جب دنیا کے بیشتر خطوں میں سیاسی وسماجی اور تہذیبی اور علمی اعتبار سے مسلمانوں کا غلبہ تھا اور مسلم تہذیب دنیا کی مقبول ترین تہذیب تھی اس وقت امام کا مرتبہ اس اعتبار سے غیر معمولی تھا کہ وہ نہ صرف پنج وقتہ ، جمعہ و عیدین اور جنازے کی نمازوں میں مسلمانوں کے پیشوا ہوتے، بلکہ اس کے ساتھ لوگ اپنے روز مرہ مسائل و مشکلات کے حل کیلئے بھی انہی سے رجوع کیا کرتے تھے۔ ماضی میں دین و دنیا کے کئی اہم کارنامے انجام دینے والے افراد مساجد کے منبروں سے ہی وابستہ تھے۔
ان خیالات کا اظہار ہماچل پردیش کے ضلع سرمور میںائمہ مساجد کے درمیان تربیتی مجلس سے مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش کے ناظم حضرت مولانا کبیر الدین فاران مظاہری نے کیا۔ انہوں نے کہاکہ اگر مدرسین اور ائمہ کرام کی واجبی حقوق ادا نہیں کئے گئے تو قرآن وحدیث پڑھانے والے مسجدوں کے امام اور نکاح و جنازے پڑھانے والے ڈھونڈنے سے نہیں مل سکیںگئے۔
مولانا کبیر الدین فاران مظاہری نے کہاکہ اسلام کے تمام اعمال میں سب سے اہم اور مقدس نماز ہے جو نماز جماعت کیساتھ امام کی اقتداء میں ادا کی جائے اس کا اجر وثواب 27گنا ہوجا تا ہے ۔ جس کیلئے امام کی ضرورت ہوتی ہے امامت بلا شبہ ایک عظیم الشان دینی منصب اور اہم ذمہ داری ہے اللہ نے اس منصب کی امت مسلمہ میں بڑی قدر و منزلت عطا فرمائی ہے اس لئے بھی کہ یہ ایک طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت ہے اس کا اظہار ضلع سرمور کے تقریبا ً ٣٥ مساجد کے ائمہ کرام کے درمیان ایک تربیتی مجلس میں مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش کے ناظم حضرت مولانا کبیر الدین فاران مظاہری کر رہے تھے ۔
مجلس میں خطاب کے دوران مولانا فاران نے کہا کہ امامت کیلئے کو ن شخص موزوں ہو کتب احادیث وفقہ میں اس کی تشریح موجود ہے۔ لکھا ہے کہ امام ایسے شخص کو ہونا چاہئے جس کو رسول اکرم ۖ سے نسبتاً زیادہ قرب ہو ۔ قرآن پاک سے جن کو شغف ہو اس کی دعوت و تبلیغ اور اس کے احکام کو سمجھتا ہو یعنی سنت وشریعت کے علم اور عمل میں دوسرے سے ممتا زہو ۔ حضرت امام مسلم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہو،اگر اس میں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمی امامت کرے جو شریعت وسنت کا زیادہ علم رکھتا ہو ۔
مولانا فاران نے خطاب میں کہا کہ حضرات ائمہ ٔ کرام اپنے مقتدیوں کی نماز کا ضامن اور اللہ اور مقتدیوں کے درمیان قوی واسطہ ہیں اس لئے حضرات ائمہ کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ مقتدیوں کے بارے میں واقف ہوں کہ انہیں نماز اور اس سے متعلق مسائل سے واقفیت ہے یا نہیں؟ اسی طرح ان کے منصب کی ذمہ داریوں میںیہ بھی ہے کہ محلہ اور پڑوس میں دینی حالات کیا ہیں؟لوگوں کے عقائد اور مسلک کیا ہیں ؟ کس کس راہ سے اہل ایمان پر دجال اور گمراہ لوگ ڈاکے ڈال رہے ہیں، اس پر بھی گہری نظر رکھیں۔اس اہم مجلس کے ذریعہ مولانا فاران نے امت سے اپیل کی ہے کہ وہ ائمہ کرام کی عظمت کو صحیح طور پر جانیں اور ان کی ضروریات زندگی کی بھی سچائی سے فکر کریں ۔