آگرہ ۔ مسجد نہر والی کے خطیب محمد اقبال نے آج اپنے خطبہ جمعہ میں لوگوں کی “ مدد” پر فوکس کیا، انھوں نے کہا آج ہمارا مزاج بہت بدل گیا ہے ، ہم انتظار کرتے ہیں کہ کوئی “مرے “ تو ہم اس کے گھر کی مدد کریں ، میّت کو کاندھا دینا ثواب کا کام ہے لیکن کیا کبھی زندہ کو بھی “کاندھا” دیا ؟ کبھی زندہ کو یہ سوچ کر “ مدد “ کی ہوتی کہ یہ بندہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاے، کیا کبھی ہم میں سے کسی ایک نے ایسا کیا ہے ؟ اگر “ یس” تو وہ قابل مبارک باد ہے نہیں تو ہم مرنے کا ہی انتظار کرتے ہیں ۔ آج کل عمرے کا بہت رواج ہے کئی کئی مرتبہ عمرے کاسفر ہو رہا ہے ، رمضان میں تو ایک طرح سے “ ہوڑ ” لگ جاتی ہے ، رمضان میں عمرے کا ثواب ہے ، اس سے انکار نہیں ، لیکن آپ کے رشتے میں یا آپ کے نزدیک میں ایک شخص “ محتاجی” کی زندگی جی رہا ہے ، کیا آپ نے احساس کیا ؟ بار بار عمرے کا سفر کرنے والو ! اپنے بھائیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرو !! رمضان میں زکوٰۃ لینے والوں کی ” لائن “ کو کم کرو ، یہ بھی بہت بڑا ثواب ہے۔ ایک بات کان کھول کر سن لیں ، اگر آپ کا پڑوسی دیوبندی ، بریلوی ، شیعہ یا غیر مسلم ہی ہے تو اس کا جواب اللہ کے یہاں وہ خود دے گا ، لیکن اگر وہ تنگ دست ، قرض دار اور پریشان ہے تو اس کا جواب آپ کو دینا ہوگا ۔ شادیوں میں آنکھ بند کرکے پیسہ لٹایا جا رہا ہے ، اس پر بہت سوچنے کی ضرورت ہے ، اگر آپ کسی کو پریشان دیکھ کرخوشی محسوس کرتے ہیں تو سمجھ لو کہ آپ بھی لائن میں لگے ہیں ، اللہ کے بندو ! مومن وہ ہے جو دوسرے کی پریشانی دیکھ کر پریشان ہو جاے ، اور جو کچھ اس سے ہو سکتا ہے اس کی مدد کے لیے آگے آے ۔ میری آپ سب سے درخواست ہے اس رمضان کو اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھتے ہوئے اس مرتبہ کسی ایک کو تو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں ، معلوم نہیں وہ ہی ہماری “ نجات “ کا ذریعہ بن جاے ، اللہ کے واسطے اس طرف سوچیں ، اللہ ہم سب کے لیے آسانی فرماے، آمین۔