उर्दू

یوم شہادت 16/مئی1858ء کے موقع پر خصوصی پیش کش

گمنام مجاہد آزادی:شہیدچودھری محمد علی خاں

پہلی ملک گیر جنگ آزادی1857ء میں حراول دستہ کا کردار ادا کرنے والے انقلابیوں پربعض مورخین انگشت نمائی کرتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کی ریاستیں غضب کرلیں تھیں یا ان کا دین ومذہب خطرے میں تھایا ان کا وظیفہ بند کرد یا تھا۔جس کے ردعمل میں انہوں نے فرنگیوں کے خلاف بڑھ چڑھ کرحصہ لیا تھا،لیکن اس تحریک میں ایسے بھی مجاہد ین شامل تھے جو تمام آسلائش سے لبریز پرسکون زندگی گزاررہے تھے لیکن جیسے ہی مادرہند کو انگریزی خونی آشام پنجوں سے چھڑانے کی جدوجہد کا آغاز ہوا تووہ فوراً اس میں کود پڑے ایسے ہی عظیم جانباز کا نام شہید چودھری محمد علی خاں ہے۔ جنہوں نے مادرہند کی آزادی کی خاطر اپنی جان ومال،متعلقین اور تعیشات کوقربان کردیا اور جابر انگریز وں کے آگے سر خم کے بجائے جام شہادت نوش کرلیا،چودھری صاحب کے ساتھ ساتھ عزیزواقارب حمایت علی خاں،ولایت علی خاں،ناصر علی اورمظہر علی خاں و غیرہ کو بھی موت کی سزا دے دی گئی۔


چودھری محمد علی خان کے جد امجد یوسف علی سلطان محمود یا مسعود کی فوج کے ہمراہ ہند میں واردہوئے، جو شاہی فوج کے جنرل تھے،جنہیں شجاعت اور عزم کی بدولت چودھری کے خطاب سے سرفرازکیا گیا۔چودھری محمد علی خاں تحصیل سہاور(ضلع ایٹہ اب کاس گنج) کے مختار اور بڑے زمیندار تھے۔ جن کے تعلقہ کالگان 15000/روپیہ سالانہ تھاجو اس عہدمیں کافی بڑی رقم تھی۔ چودھری محمد علی خاں حلیم،رحم دل،انصاف پسند زہد،تقوٰ ی اورسخاوت کے پیکر تھے۔ ان کے والدکانام خواجہ علی خاں تھا، ان کی ابتدائی تعلیم مروجہ دستور کے مطابق ہوئی جواردو فارسی اور قرآن مجیدپر مشتمل تھی، ان کے خطوط جو اب ایشیاٹک لائبریری میں موجود ہیں ان کی اعلیٰ صلاحتوں کے گواہ ہیں۔
1802ء میں ایٹہ اور قرب وجوار پر ایسٹ انڈیاکمپنی کا مسخر ہوگیا تو انگریز حکام کا اکثروبیشتر علاقہ میں آمد ورفت کا سلسلہ ہوگیا جو چودھری صاحب کے خوش اخلاق اور ذکاوت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، لہٰذ ا انگریز ی افسران سے گہرے رشتہ قائم ہوگئے جوان سے ا نتظامی اور قانونی امور پر وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال اورخط وکتابت کر تے رہتے تھے۔چودھری صاحب رفاء عام کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے چودھری صاحب کی حیثیت انگریزوں اورسہاور کے باشندوں کے درمیان پل کی تھی،لیکن جیسے ہی 1857ء کی جنگ آزادی کابگل بجا،چودھری محمد علی خاں نے بھی انگریزحکام سے اپنے دیرنیہ رشتوں کو درکنا رکر نواب تفضل علی خاں کی آواز پہ لبیک کہہ کر جدوجہد آزادی کی عنان سنبھال لی اور نو اب تفضل علی خاں کے ساتھ مل کر انگریزوں کی نیندیں حرام کردیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی پور ا فرخ آباد اور گردو پیش کے تمام اضلا ع انگریزی غلامی کے خلاف برسرپیکار ہوگئے اور ضلع ایٹہ کے علی گنج،کاس گنج،پٹیالی اور سہاور بھی انگریزی عمل داری سے جو لائی1857ء تا دسمبر1857ء آزاد رہیں۔قابل ذکر امر ہے کہ جب4/ جون1857ء کو انگریزافسران فلیپس،ہال اوربراملے جائے پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے تو چودھری محمد علی کی حویلی پر بھی دستک دی لیکن انہوں نے کسی طرح کی اعانت کرنے سے انکار کردیا لیکن اس کے باوجود فلیپس ان کی صلہ رحمی اور انسانی ہمدردی کا قائل ہو ئے بغیر نہیں رہ پایا۔ وہ لکھتاہے کہ:
ہم نے چوہدری محمد علی خان کی تعلقہ سہاور کی طرف مارچ کیا،جہاں مسٹر ہال پہلے مقیم تھے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ان کا استقبال بہت ہی خوشگوار تھا لیکن میں اس پناہ گاہ کے لیے ان کا مقروض ہوں جنہوں نے میرے خادموں اور کچھ جائیداد کو کئی مہینوں تک رکھا۔
چودھری صاحب نے اس پر آشوب حالات میں بڑی دانشمندی اوراعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تعلقہ کے تمام دیہات میں خوشحالی،امن وقانون اور ملکی نظام نسبتاً ملحق علاقوں سے بہتر رہا، سہاور کا بازار ایک لمحہ کے لئے بند نہیں ہوا، حسب معمول تاجرو ں نے اپنی دوکانیں کھولیں۔ اردگرد کی ریاستوں کی بھی بھرپور معاونت کی۔
دسمبر 1857 ء میں نواب فرخ آباد کی فوجوں اور انگریزی لشکر میں گھمسان لڑائی ہوئی مگر غداروں کی بدولت بازی انگریزوں نے ماری۔ حالات کے مدنظر 29/ جنوری1858ء کو نواب تفصل خاں اور بعض سرداروں نے اچانک ہتھیار ڈال دئیے لیکن چودھری محمد علی خاں نے سپر اندازی سے انکار کردیا،لہٰذ ا چودھری محمد علی خاں کے ساتھ قریبی اعزاء کو بھی جس انگریزی عتاب کا شکار ہونا پڑا،اس کی داستان رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔انگریزی کرنل سیٹن چو دھری محمد علی خاں کی گڑھی کے صدر دروازے کے بند پھاٹک کو ہاتھیوں سے توڑواکر اندر داخل ہوا اور انہیں حراست میں لے کر بریلی جیل بھیج دیا۔انگریز افسران نے ان کے اٹھارہ سالہ اکلوتے فرزند چودھری نور اللہ کو گرفتار کرنے کی انتھک کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ انگریز سپاہی ان کے عزیز قمر علی خاں کے گھر میں خانہ تلاشی کے بہانے سے داخل ہوئے تو ہیبت زدہ قمر علی اٹاری پر کپاس کے بوروں میں گھس گئے تو جابر سپاہیوں نے بوروں کو نذرآتش کردیامحمد قمر علی خاں اس میں جل کر شہید ہوگئے۔ ان کے بھائی ناصر علی خاں جو نامہ بر کی ذمہ داری بخوبی انجام دیتے تھے، وہ چودھری صاحب کا خط لیکر نواب تفضل حسین خاں کے پاس شمس آبادگئے تھے، جنہیں راستے میں ہی محصور کرنے کی کوشش کی گئی، انگریز سپاہیوں نے ان کی گھوڑی کوگھیرکر گولیوں سے نا صر علی خاں کوز خمی کردیا جو بچاتے بچاتے گھر پہنچے جن کی تلاش میں انگریزی سپاہ وہا ں پھی پہنچ گئیں تو ان کے نوجوان لخت جگر مظہر علی خاں نے انہیں روکنے کی کوشش کی توسپاہیوں نے اسے اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔ زخمی ناصر علی جس کا صدمہ برداشت نہ کرسکے اور کچھ دیر بعد انہوں نے بھی داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ان کے دو بھتیجے حمایت علی خاں اور ولایت علی کو گرفتار کرکے بریلی بھیج دیا۔جہاں ان کی شناختی پریڈ کرائی گئی۔حسب روایت چودھری محمد علی پر اسپیشل کمشنر کلاسیٹ وارن کی عدالت میں فرضی بغاوت کامقدمہ چلایاگیا۔سرکاری وکیل نے ان دستاویزات کو بطور استغاثہ پیش کیا جو انہوں نے نوا ب تفضل علی خاں، نواب ولی داد خاں، اسماعیل خاں اورعظیم الدین فرخ آبادکو خود لکھے تھے۔بعد ازیں جے۔سی۔ ولسن۔کمشنر کی عدالت میں بھی سر کاری وکیل نے دہلی جاکر بہادرشاہ ظفرؔ کو مبارک باد دینے کاالزام ان کے اوپر عائد کیا، جس کی پاداش میں انہیں سزائے موت اور تمام جائداد بحق سرکار ضبطی کاحکم صادر کردیا۔جس پر عمل کرتے ہوئے16/مئی 1858ء کو چودھری محمد علی خاں کوبریلی جیل میں گولی مار کرشہید کردیا گیا۔
محمد علی خاں اور ان کے تما م اعزا ء ا قربا نے برطانوی غلامی سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لیے جو جان ومال کی قربانیاں پیش کی وہ تاریخ ہند میں سنہرے الفاظ سے لکھنے کے قابل ہیں۔

ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی(علیگ)

shahid.alig4u@gmail.com