उर्दू

ہلدوانی فسادمعاملہ

گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لئے جمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد شروع
20نوجوانوں کی ضمانت کی عرضداشت پر اتراکھنڈہائی کورٹ میں بحث،ریاستی حکومت سے تین ہفتوں کے اندرجواب طلب
ہلدوانی متاثرین کوانصاف دلانے کے لئے جمعیۃعلماء ہند آخری حدتک جدوجہدکرے گی:مولانا ارشدمدنی

اپنے اسکول اورعبادت گاہ کو بچانے کے لئے احتجاج کرنے والے دہشت گردکیسے ہوسکتے ہیں: مولانا ارشدمدنی

نئی دہلی  
ہلدوانی فسادکو لیکر پولس زیادتی کا شکار20مسلم نوجوانوں کی ضمانت کی عرضی پر گزشتہ روز اتراکھنڈہائی کورٹ (نینی تال)میں سماعت عمل میں آئی جس کے بعد ہائی کورٹ کی دورکنی بینچ نے اسے سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو تین ہفتوں کے اندرجواب داخل کرنے کا حکم دیا اورمعاملہ کی سماعت 4جولائی تک کے لئے ملتوی کردی،جسٹس منوج کمارتیواری اورجسٹس پنکج پروہت پر مشتمل دورکنی بینچ کے روبروجمعیۃعلماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ کی سینئر ایڈوکیٹ نتیارامن کرشنن نے مدلل بحث کرتے ہوئے بتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے 90دن کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی عدالت میں چارشیٹ نہیں داخل کی اور ملزمین وان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر عدالت سے مزید 28دنوں کی مہلت طلب کرلی جوقانوناغلط ہے لہذا کریمنل پروسیجرکورٹ کی دفعہ 167اور یواے پی اے قانون کی دفعہ 43ڈی (2)کے تحت ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظورکی جائے، جس پر سرکاری وکیل نے ضمانت کی عرضی پر اعتراض داخل کرنے کے لئے وقت طلب کیا واضح ہوکہ جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیارامن کرشنن کے ہمراہ ایڈوکیٹ مجاہداحمد، ایڈوکیٹ نیتن تیواری، ایڈوکیٹ منیش پانڈے، ایڈوکیٹ وجے پانڈے ودیگر پیش ہوئے جبکہ اتراکھنڈحکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جے ایس ورک اورایڈوکیٹ آرکے جوشی پیش ہوئے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ 90دن کی مقررہ مدت گزرجانے کے بعد چارج شیٹ داخل نہ کرنا یہ بتاتاہے کہ پولس قانون وانصاف کو بالائے طاق رکھ کر جانبدارای کا مظاہرہ کررہی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات تویہ ہے کہ ملزمین اوران کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر حیلوں بہانوں سے عدالت کے ذریعہ مزید 28دنوں کی مہلت طلب کرلی گئی، انہوں نے کہا کہ پولس اورتفتیشی اداروں کے تعصب اورجانبداری کا یہ کوئی پہلامعاملہ نہیں ہے مسلمانوں سے جڑے زیادہ ترمعاملوں میں تقریبا ہر ریاست کی پولس کارویہ یکساں ہوتاہے، قانون کے مطابق 90دن کے اندرچارج شیٹ داخل کردی جانی چاہئے تاکہ ملزم بنایا گیا شخص اپنی رہائی کے لئے قانونی عمل شروع کرسکے، لیکن یہ کس قدرافسوسناک بات ہے کہ اس ہدایت پر عمل نہیں کیاجاتا، مولانا مدنی نے کہا کہ تفتیشی ایجنسیوں اورپولس کا یہ طرزعمل انسانی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس سے انصاف کے حصول میں تاخیر ہوجاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ان گرفتارشدگان میں 7خواتین بھی شامل ہیں، اوران سب پر یواے پی اے قانون کا اطلاق کردیا گیا ہے، ایسے میں ایک بڑاسوال یہ ہے کہ اپنے اسکول اوراپنی عبادت گاہ کو بچانے کے لئے احتجاج کرنے والے کیا دہشت گردہوسکتے ہیں؟ جب کہ پولس کی بلاجواز فائرنگ سے جو 7بے گناہ مارے گئے ان کے بارے میں مکمل خاموشی ہے گویا پولس اورحکومت کی نظرمیں انسانی زندگیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اس معاملہ پر انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراداوراداروں کی خاموشی بھی ایک بڑاسوال ہے  ہمیں عدالتوں سے انصاف مل رہاہے ابھی پچھلے دنوں اترپردیش اے ٹی ایس کی جانب سے متعینہ مدت کے اندرچارج شیٹ نہیں داخل کرنے پر لکھنوہائی کورٹ نے 11مسلمانوں کو ضمانت دیدی،اس فیصلہ کی بنیادپر ہمیں یقین ہے کہ اتراکھنڈہائی کورٹ سے ان ملزمین کو اورہلدوانی متاثرین کو بھی انصاف ملے گا، انشاء اللہ۔مولانا مدنی نے ملک کے تمام انصاف پسندوں سے سوال کیا کہ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف ظلم واستبداد اورناانصافی کا یہ خطرناک سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ اگر ہیں توپھر ان کے ساتھ اس طرح کا سوتیلارویہ اپنا کر ان پرانصاف کے دروازہ بندکردینے کی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں؟ اورہر بار جمعیۃعلماء ہند کو انصاف کے لئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبورکیوں ہونا پڑتاہے؟ ایک بڑالمحہ فکریہ ہے اس پر سب کو سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔  
 اسی درمیان جمعیۃعلماء ضلع نینی تال کے ایک وفدنے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی اورقانونی مشیر شاہد ندیم ایڈوکیٹ سے نئی دہلی میں ملاقات کی اور مقدمہ کی تازہ صورتحال کی تفصیل دی، وفدمیں مولانا مقیم قاسمی صدرجمعیۃعلماء نینی تال، مولانا محمد قاسم قاسمی سکریٹری،مولانا محمد عاصم قاسمی صدرجمعیۃعلماء ہلدوانی اورمولانامحمد سلمان ندوی سکریٹری شامل تھے، واضح رہے کہ اس معاملہ میں 101لوگوں کو ملزم بنایاگیاہے، جن میں 7خواتین بھی شامل ہیں، جمعیۃعلماء 65ملزمین کو قانونی امدادفراہم کررہی ہے جبکہ 69ملزمین کے گھریلواخراجات بھی گرفتاری سے لیکر اب تک برداشت کررہی ہے، اخراجات میں راشن، بچوں کی فیس، ادویات مکان کا کرایہ وغیرہ شامل ہیں، فسادمیں زخمی ہوئے 15ملزمین کے علاج کا مکمل خرچ بھی مقامی جمعیۃعلماء نے برداشت کیا، ملزمین کی پیروی کے علاوہ ان کے اہل خانہ کی دادرسی بھی مفتی لقمان، مولانا یونس، عبدالحسیب،مولانا فرقان ودیگر صاحبان کررہے ہیں، ایڈوکیٹ مجاہداحمد نے بتایاکہ ملزم بنائی گئی خواتین سمیت دیگرملزمین کی ضمانت کی عرضیاں بھی چند روزمیں نچلی عدالت میں داخل کردی جائیں گی، اس کے ساتھ نچلی عدالت میں پولس کی گولی سے 7مسلم نوجوانوں کی ہلاکت پر رپورٹ طلب کرنے کی گزارش کی گئی، جس پر عدالت نے پولس سے رپورٹ طلب کی ہے، اس معاملہ میں پولس انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے ملزمین کو ضمانت سے محروم رکھنے کے لئے ان کے خلاف یواے پی اے یعنی دہشت گردی کے قانون کا اطلاق کیاہے۔