उर्दू

یوم عرفہ اور سنڈے مارکیٹ،خریداری محدود،اقتصادی بدحالی بنیادی وجہ

قوت خریداری کی سکت نہ ہونے کے باعث پیسوں کی گردش کم،حکومتی سطح پر اس کی طرف دیکھنے کی ضرورت

سرینگر / کے پی ایس
یوم عرفہ پر لوگ حسب استطاعت سے زیادہ خریداری کرتے تھے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے اقتصادی بدحالی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خریداری کم ہوگئی ہے جس کا ا ثر براہ راست تاجروں پر پڑتا ہے حالانکہ عیدوں پریہاں شہروں،قصبوں اور دیہی علاقوں کے بازاروں میں رش ہوا کرتا تھا۔آج یعنی ہفتہ کو یوم عرفہ پر بازاروں میں لوگوں کی گہما گہمی تھی لیکن خریداری کے حوالے سے بازاروں میں موجود دکاندار اور ریڈی والے کافی مایوس دکھائی دے رہے تھے۔اس دوران کشمیر پریس سروس کے نمائندہ نے کئی راہگیروں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ بازاروں میں خریداری کی غرض سے کم لیکن تماشا دیکھنے کیلئے زیادہ توجہ کے ساتھ آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ضرورت کی چیزیں بازاروں میں دستیاب ہیں لیکن ان کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ وہ ان چیزوں کی خریدارای کرسکیں۔اس طرح سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اور قوت خریداری میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔جبکہ ریڈی والوں سے پوچھا گیا کہ اس مبارک موقعہ جس پر ان کی نظریں سال بھر سے رہتی ہیں کیا کمایا یا کیسی خریداری رہی؟ تو ان کا واضح جواب یہ تھاجو لوگ یہاں سے گذرتے ہیں لیکن وہ خریدار نہیں بلکہ وہ ہماری بے کاری کے تماشائی ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ ان کے پاس دستیاب چیزوں کودیکھتے ہیں لیکن خریدتے نہیں ہیں۔انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں وہ آج مشکل سے اپنی یا اپنے اہل وعیال کو روزی روٹی فراہم کرسکتے ہیں۔ادھر جب بیکری والوں،نانوانیوں سے بات کی تو بیشتر بکری فروشوں اور نانوانیوں نیے صاف کہہ دیا کہ انہوں نے حسب روایت اپنی دکانوں پر بیکری یا روٹی دستیاب رکھی تھی لیکن خریداری اتنی کم تھی کہ نصف سے زیادہ تیار شدہ مال دکانوں میں رہ گیا اورکہا چونکہ آجکل شدت گرمی کی وجہ سے روٹی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی ہے اس طرح ان کو نفع کے بجائے خسارہ کا ہی سامنا کرنا پڑرہا ہے اورکہا کہ اگر ایسے ہی حالات رہے تو ان کو اپنے کاروبار سے دستبردارہونے پڑے گا اور ان کیلئے اس کے بغیر روزگار کا کوئی وسیلہ ہی نہیں ہے۔اسی طرح جب دودھ فروشوں،قصابوں،کریانہ مرچنٹس اوردیگر کاروباریوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی انہی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔اب اس صورتحال میں تاجروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے انتظامیہ سے اژپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی سبیل تلاش کریں جس سے اقتصادی بحالی ممکن بن سکے اور ہر کوئی آرام دہ زندگی گذار سکے اور لوگوں کیلئے بھی یہ لازمی بن گیا ہے کہ وہ قناعت پسندی کا مظاہرہ کریں۔فضول خرچی سے بچیں تاکہ ہمارا مستقبل کسی حد تک آرام دہ ثابت ہوسکے۔