उर्दू

ہجومی تشدد معاملہ:



ہجومی تشدد کے خلاف پارلیمنٹ میں سخت قانون لایا جائے
اب وقت آگیا ہے کہ سیکولر پارٹیاں پارلیمنٹ میں قانونی سازی کے لیے پرزور آوازاٹھائیں:مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی،صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے چھتیس گڑھ میں ہوئے ماب لنچنگ کے واقعے پر اپنے گہرے دکھ اور سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہرچند کہ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں ملک کے عوام کی اکثریت نے فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کو مسترد کردیا ہے مگر اس کے باوجود پچھلے کچھ برسوں سے فرقہ پرستوں نے لوگوں کے دلوں دماغ میں منافرت کا جو زہر بھرا ہے وہ پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے۔ چھتیس گڑھ کا یہ واقعہ اس کا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر شرپسند عناصر نے درندگی اور حیوانیت کا مظاہرہ کرکے انسانیت کے دامن کو داغ دار کردیا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود اس طرح کے افسوسناک واقعات کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔ جبکہ 17جولائی 2018 کو اس طرح کے واقعات پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔عدالت نے اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے مرکز کو الگ سے ایک قانون بنانے کی ہدایت کی تھی۔ اب اگر اس کے بعد بھی اس طرح کے انسانیت سوز واقعات رونما ہورہے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ جولوگ ایسا کررہے ہیں، انہیں قانون کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اگر پکڑے بھی گئے تو ان کا کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی پارلیمنٹ میں الگ سے کوئی قانون نہیں لایا گیا۔ چند ریاستوں کو چھوڑ کر کسی نے بھی ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی نہیں کی۔
قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور کے قریب آرنگ نامی مقام پر شرپسند عناصر کی ایک گروپ نے جانوروں سے لدے ہوئے ایک ٹرک کو روک لیا، اور ڈرائیور سمیت دیگر دو نوجوانوں کو اس طرح پیٹا گیا کہ انہوں نے دم توڑ دیا۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے سہارنپور،اور شاملی اضلاع سے ہے۔ان میں سے ایک کی موقع پر ہی موت ہوگئی تھی جبکہ دوسرے نے اسپتال پہنچتے ہی دم توڑ دیا تھا۔ ان کے نام چاند میاں اور گڈو خان ہے۔ جبکہ تیسرے نوجوان صدام خان کی بھی بعد میں علاج کے دوران موت ہوگئی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہجومی تشدد ملی نہیں، ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں اس کے خلاف کھل کر میدان میں آئیں،اور ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ تازہ واقعے سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ہجومی تشدد کو روکنے کے لئے نہ تو مرکز سنجیدہ ہے اور نہ ہی ریاستیں۔ بدلی ہوئی سیاسی صورتحال میں اس کے خلاف پوری مضبوطی کے ساتھ سیکولر پارٹیوں کو آواز اٹھانی چاہئے، آخر اس طرح کب تک مٹھی بھر لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر ایک خاص فرقے کو اپنی حیوانیت کا شکار بناتے رہیں گے؟انہوں نے آگے کہا کہ اخباری رپورٹوں کے مطابق ٹرک پر بھینسیں لدی ہوئی تھیں۔ جب کہ بھینسوں کی خرید وفروخت تو ممنوع نہیں ہے، پھر فرقہ پرست عناصر نے ایسا کیوں کیا؟اس کا جواب بہت آسان ہے، مذہب اور منافرت کی بنیاد پر۔
مولانا مدنی نے بقرعید کے موقع پر اڑیسہ کے بالاسور میں ہونے والے واقعہ پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہیں ، کیونکہ ان کے خلاف کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کے خلاف یہ سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہورہا ہے ایسا کرنے والوں کی گردنوں پر قانون کے ہاتھ نہیں پہنچ پاتے۔ ایک طرف تو محض شک کی بنیاد پر گھروں پر بلڈوزر چلوادیا جاتا ہے وہیں دوسری طرف انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔ آج کے نئے ہندوستان کی یہ ایک سچی او ربھیانک تصویر ہے۔ انھوں نے کہا کہ چھتیس گڑھ واقعے میں میری معلومات کے مطابق اب تک کسی گرفتاری کا نہ ہونا یہ بتاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کے نزدیک مسلمانوں کے جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے۔اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں اس بربریت اور حیوانیت کے خلاف نہ صرف پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں بلکہ سخت قانون لانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔جمعیۃ علما ہند یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسے لوگوں کو عدالت سے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ دوسرے لوگ اس سے کچھ عبرت حاصل کرسکیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو قتل گری کا یہ سلسلہ اسی طرح ملک بھر میں جاری رہے گا۔
فضل الرحمن قاسمی
پریس سکریٹری جمعیۃ علماء ہند