उत्तर प्रदेशउर्दू

انقلابی گاؤں بسودھ

 

پہلی ملک گیر جنگ آزادی کے اوراق گردانی کرنے پر عظیم انقلابی شخصیات کے ناموں کے ساتھ ان مقامات کے نا م بھی سامنے آتے ہیں جنہوں نے برطانوی نوآبادیاتی نظام سے بازیابی حاصل کرنے کے لیے اہم کردار کیا،ایسا ہی ایک مقام ہے انقلابی موضع بسودھ جسے میرٹھ کا جلیاں والا باغ کہنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ باغپت ضلع وجود میں آنے سے قبل بسود ھ ضلع میرٹھ کا ہی حصّہ تھا، مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے دلّی میں چلنے والی انقلابی تحریک میں بسود ھ کا بھی اہم کردار ہے۔
قابل ذکر بات ہے کہ بلوچ پورہ کے اللہ دیا،باغپت کے مہتا ب خان اور تھانے دار وزیر خاں انقلابی تحریک کے سخت گیر حامی تھے۔ جنہوں نے دلّی میں عنان حکومت سنبھالنے کے بعد مغل بادشاہ سلامت سے بجرول کے بابا شاہ مل جاٹ کو متعارف کراتے ہوئے کہاکہ انقلابیوں کے لیے یہ بہت معاون ثابت ہونگے۔ لہٰذ ان لوگوں کی حمایت پر شاہ مل کو انقلابیوں کا صوبہ دار مقرر کردیا۔شاہ مل کی رہنمائی میں انقلابیوں نے انگریزوں کے اطلاعاتی مواصلات سسٹم کوٹھپ کرنے کے ساتھ ساتھ علاقہ کوغلّے کی منڈی میں تبدیل کرکے دلی رسد پہنچانے کی حکمت عملی وضع کی۔ جغر افیہ نقطہ نظر سے بسودھ کو رسد اکٹھا کرنے کی سب سے موضوع جگہ تسلیم کی گئی،لہٰذا نواحی دیہاتوں سے خوردونوش دستیاب کرکے بسودھ کی جامع مسجد کے احاطہ میں جمع کیا جاتاتھا، اور حسب ضرورت دلی روانہ کیا جاتا،علاوہ ازیں جوانقلابی سردھنہ سے مغربی جمنانہرسے گزر کر دلّی پہنچتے تھے، ان کابھی ساکنان بسود ھ ہر ممکن سہولت، کھانے پینے اورٹھہرانے کا خاص ا نتظا م کرتے تھے۔قرب وجوار کے انقلابی رہنما ؤں کی بھی بسودھ میں خفیہ میٹنگیں ہوتی رہتی تھیں۔اس وقت میرٹھ کا کلکٹررسوائے زمانہ رابرٹ ڈنلپ تھا،جس نے اپنے مخبروں کا چپہ چپہ پر بجال بچھا رکھا تھا،جو بسود ھ کی ہر سرگرمی کے بارے میں متواتر اطلاعات پہنچا رہے تھے۔ جیسے ہی اسے اپنے بہی خواہ ڈولہ کے نول سنگھ راجپوت سے معلوم ہوا کہ بسودھ کی جامع مسجدمیں 8000 /من خو ردنی اشیاکاذخیرہ ہے اورا س کے نیچے گولہ بارود بھی چھپا ہواہے جو دلّی بھیجاجاناہے۔ اس کے علاوہ ڈنلپ کویہ خبر بھی ملی کہ شاہ مل اور اس کے ساتھی بسودھ میں مقیم ہیں اور اگلے روز دولہ پر یلغار کرنے والے ہیں۔ اس نے فوراً ہیڈ کوارٹر سے اجازت لے کرپہلی مرتبہ صرف گوری پلٹن کرنل سرولسن کی قیادت میں 50 /گھوڑسوار،40/کنگ رائل رائفلس سپاہی،دوتوپیں،20/سلخ پوش موسیقی کار اور 27/ نجیب سے لیس انگریزی فوج بسودھ بھیجی۔جس نے 16/جولائی 1857ء کورات 2/بجے میرٹھ سے چل کر ڈوڈاہیڈا ہنڈن ندی پر بسیر ا کیا۔ انگریزی خیر خواہ چودھری نول سنگھ راجپوت نے انگریزی سپاہ کی رہنمائی کی۔اس حملہ کی جانکاری پہلے ہی بسود ھ کے باشندوں کو خفیہ ذرائع سے مل چکی تھی۔ اس لیے انہوں نے تمام خواتین اوربچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا۔ شاہ مل وران کے ساتھی رات کے اندھیرے میں ہی یہاں سے نکل گئے،لیکن انقلابیوں کے جانے کے بعد ساکنان بسودھ نے ہمت نہ ہاری بلکہ اپنی استعاعت کے مطابق انگریزی لشکر کامقابلہ کرنے کا قصد کیا۔ علی الصباح17/ جولائی کویہ فوج ڈولہ گاؤں پہنچ کرمشرقی جمنانہرکے کنارے چلتے ہوئے بسود ھ پہنچی، جہاں جاتے ہی سیدھے جامع مسجد پر حملہ کردیا،یہاں موجود لوگوں نے لاٹھی،ڈنڈے، بلم اور فروسوں سے را سخی کے ساتھ مقابلہ کیا۔جامع مسجد کی سیدھی لڑائی میں بڑی تعداد میں مرد اوردلّی سے آئے دو غازی لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ مسجد میں اناج کے زبردست ذخیرے کو ضبط کرلیا۔ یہ ذخیرہ اتنا تھا کہ فوج کی تمام لاریاں اس کا فقط ایک ہی حصہ ڈھوسکتی تھیں۔غلہّ کو انگریزوں نے نذرآتش کرنے کی کوشش بھی کی مگرنمی ہونے کی وجہ سے وہ آگ نہ پکڑ سکا۔ انگریزی ٹکڑی کینن کی کمان میں دس گھوڑسوار چھوڑ کر بسودھ سے باہر نکل گئی۔بسود ھ کے لوگوں نے جب اپنے عزیزو اقارب کی نعشوں کو دیکھا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور انتقام کی آگ میں جھلس کر کینن سمت دس گھوڑسوار کو موت کی نیند سلا دیا، اس واقعہ کی اطلا ع ملتے ہی واپس جارہی گورہ پلٹن نے قصاص لینے کے لیے دوبارہ آکر حملہ بول دیا۔ بسودھ کے بہادر جوانوں نے پیٹھ نہ دکھاکر10/ گھنٹے طویل مقابلہ آرائی کی۔ درندہ صفت فرنگیوں نے تالاب میں چھپی خواتین اورمعصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا اورانہیں وہیں گولیوں سے بھون دیاجو آج بھی خونی تالاب کے نام سے مشہورہے۔ پورے گاؤں پر اپنا قہر برپاکر اس کوتحس نحس کردیا، دوسر ی مرحلہ کی لڑائی میں 180/ جانبازشہید ہوئے۔ انگریزوں کاجورو جفا یہیں نہیں تھما بلکہ بسودھ کو آگ لگا کراپنا انتقامی جوش ٹھنڈاکیا۔ انگریزوں نے ایک نام لیو ا وپانی دیوا بھی نہ چھوڑا۔ اس دلگذاز منظر کے بارے میں ضلع مجسٹریٹ ڈنلپ لکھتا ہے کہ:
”وہ تمام اشخاض جو ہتھیار اٹھانے کے قابل تھے انہیں گولی مارد ی گئی یا قتل کردیا گیاصرف پندرہ آدمی ہی باقی بچے تھے جنہیں ملٹری کمانڈنٹ کے حکم سے
شام کے وقت برگد کے پیڑ پر پھانسی دے دی گئی۔“
انگریز ی جیش بربریت کا مظاہر ہ کرکے ڈولہ گاؤں چلی گئی۔شہیدوں کا بسود ھ کی بہادر عورتوں نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاؤں کے تالاب میں اجتماعی سپرد خاک کیا۔ انگریزوں نے بسودھ میں کچھ عرصہ تک لوگوں کی پکڑ پکر کر کولہو میں بھی پلوانے کا کام رواں رکھا۔انگریزوں سے غداری کے سبب گاؤں والوں کی تمام املاک بحق سرکار ضبط کرلی گئی اور بطور انعام اپنے مخبروں میں بانٹ دی گئی۔بسودھ کی تاریخی جامع مسجد،خونی تالاب اور برگد کا پیڑ آج بھی اہلیان بسودھ کی قربانیوں کی گواہی دے رہا ہے۔

 

ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی (علیگ)
17/جولائی 1857ء انقلابی گاؤں بسودھ
قتل عام کی 167/ ویں سالگرہ کے موقع پر