بھارت چھوڑو تحریک کے موقع خصوصی پیش کش
بیگم سلطانہ حیات دلی کے ایک قوم پرست خاندان کی چشم وچراغ تھیں۔ جو برسوں سے ملک وقوم کی فلاح وبہبودی اور خدمت میں مصروف تھا۔ ان کے پردادا قاضی ضیاالدین 1857ء سے قبل دلی کے شہر قاضی تھے۔ان کے دادا قاضی نجم الدین ایک عرصے تک ضلع میرٹھ اور شہر کانگریس کے صدر رہے۔ جنہوں نے میرٹھ کوتوالی کے نزدیک اپنی رہائش گاہ نجم الدین ہاؤس کے ایک حصّہ کو کانگریس اور تحریک خلافت کے لیے مخصوص کردیا تھا۔ یہ دفتر 1932ء تک قائم رہا۔ علاوہ ازیں کھادی بورڈ کا دفتر اسی گھر میں 1927ء تک رہا۔ ان کے والد قاضی بشیر الدین نے دلّی کانگریس کمیٹی کے سکریٹری کی ذمہ داری بھی انجام دی تھی،وہ اردو،فارسی،عربی،انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر ملکہ رکھتے تھے۔وہ اپنے ذاتی خرچ پرہلال احمر میں طبی وفدکے ہمراہ ترکی گئے تھے۔کانگریس کے ا علیٰ رہنماؤں موتی لعل نہرو،علی برادرس،مولانا آزاد، جواہر لعل نہرواور سیف الدین کچلو وغیرہ کی ان کے گھر آمد ورفت رہتی تھیں،چنانچہ ایسے سیاسی گھریلو ماحول کا اثر سلطانہ حیات پر پڑنا لازمی تھا لہٰذا ان کا جھکا ؤ کم عمری میں ہی ملک وقوم کی خدمت اور تحریک آزادی کی طرف ہوگیا۔ وہ کانگریس کی ایک فعال اور سرگرم رکن تھیں۔ وہ ہر اجلاس میں شریک ہوتیں اور جھنڈا اونچا رہے ہمارا‘نغمہ گاکر لوگوں میں جوش وجنون اور حوصلہ بڑھا دیتیں۔ بیگم سلطانہ نے میرٹھ کی تاریخی جامع مسجدمیں پرہجوم لوگوں سے بھی خطاب کیا تھا۔ کانفرنسوں میں حصّہ لیتی،تقاریر کرتی،فرقہ وارنہ وائرس کے خلاف صدا بلند کی۔ بیگم سلطانہ نے بھارت چھوڑوں تحریک کے دوران، خواتین کی ایک تنظیم بھی تشکیل دی۔ جس کا مقصد انگریزی سرکار کو حراساں وپریشان کرنا تھا۔جس میں بلاتفریق مذہب وملت کی دختران شامل تھیں۔اس تنظیم میں ایک فرسٹ ایڈ کا سیل بھی قائم تھا۔جس کا مقصد انگریزی ظلم وستم کے شکار لوگوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرنی تھی۔ تنظیم کی ارکان لڑکیوں نے انگریز حکام کو دق کرنے کے لیے بیرنگ خطوط ڈالے،جو ایک طرح سے برطانوی مظالم کا جواب تھا۔مزید برآں سلطا نہ حیات اپنے دادا کی مدد سے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث خواتین کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے انہیں خنجر تسلیم کیے۔انگریزی انتظامیہ نے ان کی سرگرمیوں کے مدنظر گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کردیا تھا،تاہم بعض
وجوہا ت کی بنا پر محروس نہیں ہوسکی۔
اس دور کے سیاسی حالات کی کہانی بیگم سلطانہ حیات کی زبانی:
”ہمارے گھر سے بدیسی کپڑوں کی دوکانوں کی پکٹنگ کرنے کے لیے خواتین کی ٹولیاں جاتی تھیں تو میں بہت چھوٹی تھی اور جب بڑی ہوگئی تو پتہ چلا کہ مسلمان لڑکیوں کاتو ذکر ہی کیا۔ہندو لڑکیاں بھی کسی طرح کی ستیہ گرہ میں حصّہ نہیں لے سکتی تھیں۔بس گھروں میں رہ کرجو کچھ بھی ہوسکتا تھاوہ کیا گیا۔“
بیگم سلطانہ ایک دلیر،جرآت منداور بے باک خاتون تھیں، کسی کے سامنے بھی حق بات کہنے سے گریز نہیں کیا۔ایک دفعہ مہاتما گاندھی سے اردو کے متعلق شکوہ کیا کہ آپ نے کہا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہیں،وہ چاہے تو اسے رکھیں چاہے تو مٹا دیں۔جب وہ گاندھی جی سے شکایت کررہی تھی تو ا ن کا مون ورت تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس کا جواب لکھ کردیا کہ:
”تم نے بحث دیکھی نہیں،سچ بات تو یہ ہے کہ میں نے کبھی ایسا نہیں کہاہے۔میں نے جو کہاتھا وہ چھپا ہے میں نکال کربھیج سکتا ہوں۔“
اس پر سلطانہ نے کہا کہ اردو کے ہر اخبار اور رسالے میں آپ کے اس جملے کو دہرایا جارہا ہے۔تو پھر گاندھی جی نے لکھ کردیا کہ:
”کیا کیا جائے؟اخباروں میں بہت سی غلط باتیں لکھی جاتی ہیں۔اگر کل تک رہناہے تو آجاؤ۔کچھ بات کریں گے اور کچھ بتاؤں گا۔“
سنہ1941ء میں سیواگرام آشرم میں جاکر خدمت انجام دی۔ 1946ء میں ان کی شادی ایک قومی رہنما حیات اللہ انصاری سے ہوئی۔آزادی کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے اردو زبان کی بقا کے لیے اپنی زندگی
وقف کردی۔ساڑھے بیس لاکھ دستخطی میورنڈم سرکار کو ارسال کیا۔جس کے نتیجے میں صوبہ یوپی میں اردو زبان دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرپائی۔1952ء میں لکھنؤ میں بزم خواتین قائم کی جس کی شاخیں آج تناور درخت میں تبدیل ہوگئیں۔
بیگم سلطانہ بی۔اے۔ کے علاوہ صحافت کی رموز ونکات سے بھی واقف تھیں۔6/جون 1994ء کو دارفانی سے کوچ کرگئیں،جن کو فرنگی محل کے پشتینی قبرستان میں حیات اللہ انصاری کے بازؤ میں سپر د لحد کیا گیا۔
ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی (علیگ)