उर्दू

میر کے یہاں ایک پرفریب سادگی ہے اور ان کے الفا ظ میں بہت سے شیڈس ہیں: پروفیسر قاضی جمال حسین

 

’چلوٹک میر کو سننے‘ کے عنوان سے دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی اور شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے اشتراک سے دوروزہ قومی سمینار بعنوان ’چلو ٹک میر کو سننے‘ کا انعقاد سی آئی ٹی آڈیٹوریم جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں کیا گیا۔ اس کے افتتاحی سیشن میں مقررین نے میر کے شعری امتیازات، خصوصیات اور اسلوبیات پر پرمغز گفتگو کی اورمیر کے فنی اور فکری جہات اور زاویوں پر بھرپور روشنی ڈالی۔ اس موقعے پر افتتاحی کلمات صدر شعبہئ اردو، جامعہ اسلامیہ پروفیسر احمد محفوظ نے پیش کیے۔ انھوں نے کہا کہ اردو ادب کا تصور میر کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ میر ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہیں۔ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے خیرمقدمی کلمات میں دو روزہ قومی سمینار کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے میر پر قومی اردو کونسل کی شائع کردہ کتابوں کے حوالے سے معلوماتی گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ تین صدی بعد میر تقی میر کو یاد کرنا تمام اردو والوں کا فریضہ ہے کیونکہ میر ماورائے زمان و مکاں شاعر ہیں اور ان کے کلام کا جادو کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے اپنے پرمغز کلیدی خطبے میں میر تنقید کے کچھ حوالے دیے اور میر کے اسلوب کی سادگی اور روانی پر بھرپور روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ میر کے یہاں ایک پرفریب سادگی ہے اور ان کے الفا ظ میں بہت سے شیڈس ہیں۔ میر نے اپنی زبان کی سادگی او ر روانی پر فخر تو کیا ہے مگر استعارہ، علامت اور تشبیہ کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے یہاں زبان کی سطح پر اغلاق نہیں ہے اور ان کے لفظ جامد نہیں ہیں بلکہ ان میں تحرک ہے۔قاضی جمال حسین نے مزید یہ کہا کہ میر کو صرف اپنی ذات کی نہیں بلکہ سماج اور شہر کی بھی فکر لاحق تھی۔ ممتاز ماہر اقبالیات پروفیسرعبدالحق نے میر کے حوالے سے مختصر مگر جامع تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ میر کی شاعری میں جو فکری ارتفاعیت ہے وہ قابل غور ہے۔ افتتاحی سیشن کی صدارت کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر محمد شکیل نے جامعہ میں میر سمینار کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کیا اور نیک خواہشات پیش کیں۔ اس سیشن میں قومی اردو کونسل کی شائع کردہ تازہ ترین کتاب ’چلو ٹک میر کو سننے‘ اور شعبہئ اردو کے مجلہ ’ارمغان‘ کے میر نمبر کا اجرابھی ہوا۔


افتتاحی سیشن کے بعد پہلا تکنیکی اجلاس ساہتیہ اکادمی اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر جناب چندربھان خیال اور پروفیسر قاضی افضال حسین کی صدارت میں منعقدہوا۔ اس سیشن میں جناب معصوم عزیز کاظمی، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر اخلاق آہن، پروفیسر عین تابش نے میرپر پرمغز مقالے پیش کیے۔ معصوم عزیز کاظمی نے میراور عہد میر کے حوالے سے اپنے مضمون میں یہ کہا کہ میر اپنے عہد اور ذات کے سب سے بڑے نوحہ خواں ہیں۔ پروفیسر احمد محفوظ نے میر کی سادگی میں پرکاری کے موضوع مقالہ پڑھا اور سادگی و پرکاری،کثرت معانی، زبان وبیان کی دل کشی اور دیگر متعلقات میر پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر اخلاق آہن نے میر کی فارسی شاعری پر مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ فارسی میں بھی میر کاجداگانہ طرز اور اسلوب تھا اور انھیں فارسی شاعری کے امتیازی اختصاص کا احساس بھی رہا ہے۔پروفیسر عین تابش نے تفہیم میر کے مسائل و متعلقات پر اپنے مقالے میں یہ واضح کیا کہ میر دل اور دلی کی بربادی کا نوحہ گر ہیں۔ ان کی شاعری میں بے پناہ وسعتیں ہیں اور ایک لامحدود تناظر ہے۔اس اجلاس کے صدور چندربھان خیال اور قاضی افضال حسین نے بھی میرتقی میر کے تعلق سے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا۔ قاضی افضال حسین نے اپنے صدارتی خطبے میں تفہیم میر کے باب میں شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی بصیرت کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ میر کے تمام مسائل اور متعلقات پر جس طور پر فاروقی نے سوچا اور کلام میر کا تجزیہ کیا وہ شاید کسی اور کا مقدور نہیں تھا۔اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے کی۔
دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی اور ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبدالباری قاسمی نے انجام دیے۔ اس سیشن میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب، ڈاکٹر عمیر منظر،پروفیسر مظہر احمد، پروفیسر سرورالہدیٰ نے اپنے مقالے پیش کیے۔ اجلاس کے صدور نے میر تقی میر سمینار کے انعقاد پر قومی اردو کونسل اور شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ میر ایسے نابغہ شاعر ہیں جنھیں کسی بھی عہد میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے بعد ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر سید فاروق شریک ہوئے جبکہ صدارت چندر بھان خیال نے کی، اس موقع پر شاعروں نے اپنے کلام بلاغت نظام سے سامعین کو محظوظ کیا۔