أگرہ ۔ مسجد نہر والی کے خطیب محمد اقبال نے آج خطبہ جمعہ میں نمازیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، کہ جب کسی بھی چیز کی انتہا ہوجاتی ہے پھر اس کا زوال بھی ہوتا ہے اور کبھی انتقام کا خاتمہ پشیمانی اور اعتراف کا دور شروع کر دیتا ہے ، عباسی دور کے آخیر میں بھی یہ ہی ہوا ، جب تاتاری قبائل پہاڑی علاقوں سے نکلے تو ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف ایک انتقامی غصہ بھڑکا ہوا تھا انھوں نے سمر قند سے لے کر بغداد تک بے شمار لوگوں کا قتل کیا ، مسجدوں کو ڈھایا اور مسلم آبادیوں کو تحس نحس کر دیا ، تاتاریوں نے جب یہ سب کچھ کرلیا تو ان کا انتقامی جذبہ ٹھنڈا ہونا شروع ہوا ، مسلم آبادیوں کے کھنڈر دیکھ کر اندر سے شرمندگی ہونے لگی اور اس طرح وہ مسلمانوں کے عقائد کی طرف راغب ہونے لگے ، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بہت سے تاتاریوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ ہندوستان میں بھی ایسا لگ رہا ہے کہ تاریخ دہرائی جانے والی ہے ، مسلمانوں کے خلاف یہاں جس شدت سے انتقامی جذبہ بھڑک رہا ہے ، وہ مستقل رہنے والا نہیں ہے ایک حد پر پہنچ کر وہ غصہ ، پشیمانی اور اعتراف کے دور میں داخل ہوگا ، اس کے بعد جو کچھ ہوگا، وہ آپ تاتاریوں کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں ، کہ جو لوگ اسلام کے دشمن نظر آرہے ہیں وہ ہی اسلام کے دوست بنیں گے ، ان شاء اللہ ، انتقام کی شدت بتا رہی ہے کہ وہ دن اب جلدی ہی آنے والے ہیں ، ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہر ایسی کاروائی سے بچیں جو ہمارے اور غیر مسلموں کے درمیان نفرت کی فضا پیدا کرنے والی ہو ، اور جب موقع ہو تو ان کو اسلام کی دعوت آسان انداز میں پیش کر دیں ، یہ ہی طریقہ ہے ایک داعی کا ، اسلام کا انکار خود اپنا انکار ہے ، اور کون ہے جو خود اپنے آپ کا انکار کر سکے ؟ یہ بات ہمیں بھی سمجھنی ہے ، اور دوسروں کو بھی سمجھانی ہے ،
اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرماے، آمین ۔