उर्दू

مسلم راشٹریہ منچ نے آسام اسمبلی کے فیصلے کی حمایت کی: کام عبادت ہے


ایم آر ایم : عوامی ڈیوٹی کے دوران کوئی مذہبی مراعات، ذمہ داری اور مساوات ضروری نہیں

نئی دہلی، ۔ مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) نے آسام اسمبلی میں جمعہ کی نماز کے لیے دی گئی دو گھنٹے کی چھٹی ختم کرنے کے فیصلے کی بھرپور حمایت کی ہے۔ قومی کنوینر شاہد سعید کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی سیکولر اور ترقی پسند اقدار کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ “کام عبادت ہے” کا اصول تمام مذاہب کے لوگوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے، اور سرکاری کام کاج میں مذہبی بنیادوں پر کوئی بھی استحقاق عدم مساوات کا باعث بن سکتا ہے۔

تاریخی تناظر اور سیکولرازم کی حمایت

سال1937 میں مسلم لیگ کے سید سعد اللہ کی طرف سے شروع کی گئی اس مشق کا مقصد خاص طور پر مسلمانوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نماز کے لیے چھٹی دینا تھا۔ لیکن، ایم آر ایم کا استدلال ہے کہ اگر یہ عمل اتنا ضروری ہوتا تو اسے نہ صرف آسام اسمبلی بلکہ ملک بھر کی دیگر اسمبلیوں اور پارلیمانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں بھی لاگو کیا جاتا۔ اس کے برعکس، کسی حکومت نے، حتیٰ کہ وہ جماعتیں جو مسلم ووٹ بینک کی حمایت کرتی ہیں، جیسے کہ کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس وغیرہ نے اس طرح کے اصول کو اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

سیکولرازم اور مساوات کی حمایت

فورم کا کہنا ہے کہ آسام حکومت کا یہ فیصلہ ملک کی سیکولر اقدار کو مضبوط کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ شاہد سعید نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومتی کاموں میں سیکولرازم اور غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کو یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہر مذہب کے پیروکار اپنی اپنی نماز کے لیے چھٹی کا مطالبہ کرنے لگیں تو اس سے نہ صرف کام کی جگہ کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوگی بلکہ معاشرے میں عدم مساوات کا احساس بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

معاشرے کے اتحاد اور سالمیت کی حمایت

شاہد سعید نے یہ بھی کہا کہ ایسے فیصلے کی مخالفت کرنے والے تنگ نظر لوگ ہیں، جو معاشرے میں تقسیم اور تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایم آر ایم کا ماننا ہے کہ ایسے لوگ معاشرے میں منفیت پھیلاتے ہیں اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس طرح، فورم اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے حکومت آسام کا شکریہ ادا کرتا ہے، جو ملک کے سیکولرازم اور مساوات کے اصولوں کو آگے بڑھاتا ہے۔

کام کی جگہ پر نظم و ضبط اور ذمہ داری کی اہمیت

فورم نے متعدد مثالوں کے ذریعے یہ بھی واضح کیا کہ پبلک ڈیوٹی کے دوران فرائض کی انجام دہی کتنی ضروری ہے:

  1. ایمرجنسی سروسز ورکرز: جیسے ڈاکٹر، نرسیں، اور ایمبولینس ڈرائیور، جو زندگی اور موت کے حالات میں خدمات فراہم کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی مذہبی رسم سے قطع نظر کسی بھی وقت اپنی ڈیوٹی نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کا بنیادی مقصد مریضوں کی جان بچانا ہے، اس لیے ان کی خدمات میں کوئی خلل نہیں آنا چاہیے۔
  2. پولیس اور فائر بریگیڈ افسران: جب کوئی آفت یا حادثہ پیش آتا ہے تو پولیس اور فائر بریگیڈ کے افسران فوری طور پر حرکت میں آجاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر مذہبی عبادات کے لیے جائیں۔ ان کا بنیادی فرض عوام کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
  3. ایئر ٹریفک کنٹرولر: ایئر ٹریفک کنٹرولر کا کام انتہائی توجہ اور چوکنا رہنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ اپنی ڈیوٹی درمیان میں چھوڑ دیتے ہیں تو یہ فضائی حفاظت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے انہیں اپنے کام کی جگہ پر ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے۔
  4. ٹرین ڈرائیورز اور اسٹیشن ماسٹرز: ٹرین ڈرائیور اور اسٹیشن ماسٹرز، جن کی ڈیوٹی مسافروں کی حفاظت اور ہموار ٹرین آپریشنز کو یقینی بنانا ہے، ڈیوٹی کے دوران کسی بھی وجہ سے اپنا عہدہ نہیں چھوڑ سکتے۔ ٹرینوں کے بروقت اور محفوظ آپریشن کو یقینی بنانا ضروری ہے، اور اس کے لیے ان کی پوری توجہ ڈیوٹی پر ہونی چاہیے۔
  5. بجلی اور پانی کی فراہمی کے ملازمین: بجلی اور پانی کی فراہمی سے وابستہ ملازمین اپنی خدمات فوری طور پر فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر ہنگامی حالات میں۔ ان کا کام تسلسل اور جلد بازی کا متقاضی ہے اور وہ کسی مذہبی یا کسی اور ذاتی وجہ سے اپنے فرائض سے انحراف نہیں کر سکتے۔
  6. ہوائی جہاز کے پائلٹ: جب ایک پائلٹ ہوائی جہاز اڑا رہا ہوتا ہے، تو وہ اپنا فرض ادا کر رہا ہوتا ہے اور ہوائی جہاز کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ درمیانی آسمان پر اڑتے ہوئے جہاز کو چھوڑ کر نماز یا کسی اور مذہبی رسم کے لیے نہیں جا سکتا۔

یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ جب عوامی خدمت اور ذمہ داری کی بات آتی ہے تو مذہب اور ذاتی عقائد کو ایک طرف رکھ کر صرف فرض پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ آسام اسمبلی کا یہ فیصلہ اسی اصول پر مبنی ہے کہ عوامی کام کی جگہوں پر کام کرتے ہوئے صرف کام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

آخر میں، ایم آر ایم نے آسام حکومت اور وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کے اس فیصلے کو اسمبلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے اور نوآبادیاتی طریقوں کو ختم کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا۔ یہ فیصلہ ملک میں سیکولرازم اور مساوات کی اقدار کو برقرار رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔