उर्दू

حضور سید امجد علی شاہ جعفری القادری رح کےعرس مبارک پر فاتحہ کا اہتمام


آگرہ، پنجہ مدرسہ شاہی آگرہ پر واقع درگاہ حضور سید امجد علی شاہ جعفری القادری رح کےعرس مبارک پر فاتحہ کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں عقیدتمندوں و مریدین کثیر تعداد میں موجود رہے۔
سید فیض علی شاہ نے بتایا کہ فخر الاولیاء سید السند محب الفقراء والغربا شیخ المشائخ طریقئہ قادریہ حضور سید امجد علی شاہ جعفری القادری رضی اللہ عنہ 6 ستمبر / 2 ربیع الاول1445ھ کودرگاہ حضرت سید امجد علی شاہ قادری پنجہ مدرسہ شاہی آگرہ پر اہتمام کیا گیا۔
پروگرام بعد نماز فجر 7:30 قرآن خوانی بعدہ میلاد شریف و فاتحہ خوانی کاہوئی۔حضرت شیخ المشائخ سید امجد علی شاہ قادری رحمہ اللہ علیہ
 وصال ٢ربع الاوّل  ١۲٣۰ھ1724-1814 ء
فخر الاولیاء سید السند محب الفقراء والغربا شیخ المشائخ طریقئہ قادریہ حضور سید امجد علی شاہ جعفری القادری رحمہ اللہ علیہ
 خاندانی پسے منظر – حضرت نسباً جعفری سادات میں سے ہیں آپ کے جدِ چہرم قطبِ مدینہ حضرت سید ابراہیم مدنی حسینی جعفری قادری رضی اللہ عنہ جو آستانئہ سرورے کائینات حضور سرکارے دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مجاور شیخِ وقت تھے مستجاب الدعوات بزگ تھے یہ حسینی خاندان آپنے علم و عمل تقوٰی و پرہیزگاری کے لئے مشہور تھا آپ کا نسب پچیس واسطوں سے حضرت اسحٰق محتمن ابنِ امام المسلیمین جانشینِ رسول حضرت امام جعفر صادق عہ تک پہنچتا ہے
فیضانِ غوث اعظم
سلسلہ قادریہ میں بیعت –  حضرت امجد علی شاہ صاحب خود تحریر فرماتے ہیں : جب فرزند  محبوبِ سبحانی حضرت شاہ عبداللہ بغدادی قادری آگرہ تشریف لائے اور محلہ تاج گنج میں قیام فرمایا تو میں حاضرِ خدمت ہوا اور قدم بوس ہوا حضرت نے میرا سر اپنے سینے لگا لیا اور مجمع کثیر میں فرمایا اے میرے بیٹے امجد علی میں اگرے میں اپنے جد حضرت غوث اعظم کے حکم سے اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں خرقئہ بزرگانِ کلاہ عَلم اور خلافت عنایت کروں میں حضرت غوث پاک کے حکم کی اتباع میں یہاں تک پہنچا ہوں تمہیں مبارک ہو کہ یہ دولت بے مانگے مل رہی ہے یہ سن کر خوشی کی حد نہ رہی اور مجھ پر ایک بے خودی طاری ہوگئی جب مجھے ہوش آیا تو میں نے عرض کیا کہ اے میرے آقا کمزور چیونٹی سے پہاڑ کا بوچھ کیسے برداشت ہوگا حضرت نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا  : واللہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون(قرآن)

یہ منصب میرے جد حضرت غوث اعظم قدس سرہُ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے میرے ہاتھ سے لو اور قدرتِ قادریہ کا تماشا دیکھو حضرت غوث پاک نے ایک دُزدِ روسیاہ کو ایک نظر میں قطبِ وقت بنا دیا تھا تم تو شریفِ قوم اور صاحبِ علم ہو سید ہو اور درویشوں سے نسبت رکھتے ہو تمہارے والد بھی اسی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اگر تمہیں اپنی شفقت کی وجہ سے اس نعمت سے نوازا گیا تو کیا بعیدہے  پھر گیارویں کے دن مجھے طلب فرمایا  اور شرافاء نجبا اور مشائخ کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اپنے ہاتھ سے مجھے خرقئہ خلافت پہنایا اور اپنے سر مبارک کی کلاہ میرے سر پر رکھی اور علمِ قادری اور خلافت نامہ جو میرے پاس موجود ہے عطا فرمایا اور مریدوں کو حکم دیا کہ ان کو میرا قائم مقام اور نائب سمجھتے ہوئے ہر مہینے کی گیارویں اور خاص کر بڑی گیارویں کی فاتحہ میں ان کے معاون رہیں اور میرے جد کی نیاز ان کو پہچایں بال برابر ان کے حکم سے انحراف نہ کریں جو کوئی ان کے خلاف ہوگا وہ میرے اور میرے جد نزرگ وار کے خلاف ہے بھر رام پور میں طلب فرما کر علم اور خلتِ خاص عطا فرمائی، ” حضرت امجد علی شاہ صاحب آخری وقت تک اپنے شیخ حضور بغدادی صاحب کی پاس حاضر ہوتے رہے اور  روحانی تعلیم میں حضرت کی نظرِ کرامت سے مستفیض ہوتے رہے
آپ کے خلافاء و مریدین کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے سلسلے قادریہ میں ہندوستان کے مشہور و معروف بزرگ ہیں آگرہ میں آپ کی ذات سے سلسلہ قادریہ کو بہت بہت فروغ ہوا کئی خانقاہ قائم ہوئیں ۔ ایک مشہور خلیفہ مرید اور داماد حضرت حکیم سید نور الدین قادری ر.ح بھی ہیں جن سے اب تک روحانی فیض جاری ہے حضرت سید امجد علی شاہ صاحب کے جانشین اول اور فرزند اول حضرت منور علی شاہ صاحب ہوئے حضرت سید مظفر علی شاہ قادری چشتی نظامی ر۔ح  اللہی اکبرآبادی حضرت سید اصغر علی شاہ قادری نظامی ر۔ح حضرت سید محمد علی شاہ قادری نیازی علامہ میکش اکبرآبادی ر۔ح باالترطیب نسباََ جانشین ہوئے فی الوقت سجادہ نشین حضرت سید اجمل علی شاہ جعفری قادری نیازی آپ کے سلسلئہ نسب میں چھٹی پیڑی اور موجودہ وقت میں آپکے قائم مقام اور جانشینِ نسبی و باطنی ہیں
دیوان: ایک دیوان اور چند تحریریں آپ کی یادگار ہیں جس میں چار قصائد حضرت امام علی مرتضیٰ کرم اللہ کریم پر تین حضور غوث پاک پر اور ایک ایک حضرت بہاء الدین نقشبندی رح اور حضرت ضیا الدین بلخی رح پر ،”251 کے قریب اردو غزلیں بھی شامل ہیں اس کے علاوہ پورا دیوان فارسی میں ہے جو 2413 فارسی اشعار 915 اردو اشعار جس میں ایک مثنوی قطعات 44 رباعیات 14 قصائد پر مشتمل ہے 1266 ھ جام جمشید آگرہ سے شائع ہوا”
ہر سال دو 2تاریخ کو ربع الاول میں حضرت کا عرس ہوتا ہے۔