سپریم کورٹ نے بلڈوزر کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا
ہمیں بے حد خوشی ہے کہ ہماری جدوجہد کامیاب رہی ، غریبوں اورمظلوموں کو انصاف مل گیا :مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی , ملک کے مختلف صوبوں میں گذشتہ چار سالوں کے دوران کسی مقدمہ میں محض ملز م ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی املاک پر کی جانے والی غیر قانونی بلڈوزر کارروائی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند و دیگر کی جانب سے داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ نے تاریخی فیصلہ صادر کیا جس کے مطابق عدالت نے بلڈوزر کارروائی کو غیر آئینی قراردیا اور غیر قانونی بلڈوزر کارروائی میں ملوث افسران کو سزا دینے کا حکم جاری کیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید تبصرہ کیا کہ پروسیجر فالو کیئے گئے بغیر کی گی غیر قانونی بلڈوزر کارروائی ‘‘جس کی لاٹھی اسکی بھینس’’ کے مترادف ہے جو آئین ہند کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے یہ ملک میں لا قانونیت کی یاد دلاتا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے ایک تبصرہ میں مزید کہا کہ ایک مخصوص (مخصوص طبقے کی عمارت) کو اچانک منہدم کرنے فیصلہ کیا جاتا ہے جب کہ اسی طرح کی دوسری تعمیر ات کو چھوڑ دیا جاتا ہے جس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ غیر قانونی تعمیر ات کا انہدام نہیں ہے بلکہ بغیر ٹرائل کی سزا دینا ہوتا ہے مقصد ہوتا ہے۔بلڈوزر کارروائی پر قدغن لگانے کے لیئے سپریم کورٹ آف انڈیا نے آئین ہند کے آرٹیکل 142؍ کے تحت دیئے گئے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے رہنمایانہ خطوط جاری کیئے ۔بلڈوزر کارروائی روکنے کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے مقدمہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں قائم کیا تھالیکن دوران سماعت سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کو اپنے خصوصی اختیارات کے تحت درج کیا اور اس کا نام ‘‘ڈائرکسنس ان دی میٹر آف ڈیمولیشن آف اسٹرکچر’’ دیا اور اسی عنوان سے پورے ملک کے لیئے بلڈوزر کارروائی کے تناظر میں اصو ل و ضوابط مرتب کیئے۔جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل 21؍ کے تحت شہریوں کو زندگی گذارنے، مکان بنانے کی آزادی ہے لہذا اس آزادی کو کسی سے چھینانہیں جاسکتا ہے۔محض ایک شخص کے کسی مقد مہ میں ملزم ہونے سے اس کے پورے گھر کو مہندم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزیدکہا کہ ملک آئین کے مطابق چلے گا ، کوئی بھی غیر قانونی اور غیر آئینی کام ملک کے مفاد میں اچھا نہیں ہے ، ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں لہذا پولس اور حکام کا رویہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں ہونا چاہئے۔دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں مزید تبصرہ کیا کہ افسران یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کون ملزم ہے اور کون مجرم ہے ، افسران کو عدالت کا کردار ادا کرنے کی اجاز ت نہیں ہے، عدالت کے حکم کے بغیر اگر افسران انہدامی کارروائی انجام دیتے ہیں تویہ قانون کی خلاف وزری ہوگی جس کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔قانون کو بالائے طاق رکھنے والے افسران کی جواب دہی مقرر کرنا ضروری ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ کسی ایک شخص کے کسی مقدمہ میں محض ملوث ہونے کی پوری فیملی کو مجموعی سزا نہیں جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ آف انڈیا نے بلڈوزر کارروائی کے تعلق سے ہدایت بھی جاری کی جس کے مطابق کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی سے قبل پندرہ دن کا نوٹس ، نوٹس کے لیئے جوا ب دینے کے لیئے وقت، نوٹس بالراست متعلقہ شخص کو، نوٹس کا عمل مکمل ہونے کے بعد سماعت اور سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ اور فیصلہ میں واضح نکات وغیرہ شامل ہے۔اگر کسی صورت میں انہدامی کارروائی انجام دی جاتی ہے تو اس کی ویڈیو گرافی کرنے کا حکم بھی سپریم کورٹ نے جاری کیا۔ میونسپل حکام کو تین مہینہ کے اندر ڈیجیٹل پورٹل قائم کرنے کا حکم بھی دیا سپریم کورٹ نے ، اس پورٹل پر نوٹس کی سروس، نوٹس ملنے یا نا ملنے کی تفصیل،جواب اور دیگر تفصیلات اپلوڈکرنا ضروری ہوگا۔انہدامی کارروائی کے حکم کو عدالت کے زریعہ چیک کرنے کی سہولت بھی ہوگی جس کے لیئے اپیل داخل کرنے کے لیئے وقت دینا ضروری ہوگا۔ایسے لوگ جو انہدامی کارروائی کے خلاف مقدمہ قائم نہیں کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی مکان خالی کرنے کا مکمل موقع دینا چاہئے۔عدالت نے ہر ضلع میں نوڈل آفیسر کی تقرری کے احکامات جاری کیئے جس کے ذمہ تمام کارروائی کا ریکارڈ رکھنا ہوگا۔دوران سماعت سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشارمہتانے عدالت سے گذارش کی تھی کہ وہ انہدامی کارروائی کے تعلق سے پہلے سے موجود میونسل قوانین کومتاثر نہ کرے لیکن عدالت نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا اور جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن میں داخل یو پی حکومت کے حلف نامہ کی بنیاد پر رہنمایانہ اصول مرتب کیئے جانے کا فیصلہ کیا۔اس پورے مقدمہ میں بلڈوزر کارروائی کے خلاف متعدد فریق سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے تھے لیکن یو پی حکومت نے صرف جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن میں حلف نامہ داخل کیا تھا ۔
اس غیر معمولی فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ہمارے لئے یہ آج بڑی خوشی اوراطمینان کا دن ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد کامیاب ہوئی اورغریبوں ومظلوموں خواہ ہندوہوں یا مسلمان کو سپریم کورٹ سے انصاف مل گیا، انہوں نے کہا کہ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ اس تعلق سے ہم جو کچھ اپنے بیانات میں کہتے رہے ہیں عدالت نے اپنے فیصلہ سے ان تمام باتوں کی تصدیق کردی ،عدالت نے کہا کہ بلڈوزرچلاکر کسی کاگھر توڑناسزانہیں جرم ہے، عدالت نے یہ بھی کہا کہ سرکاری جج نہیں بن سکتی ، قانونی اورغیر قانونی ہونے کا تعین عدلیہ ہی کریگی ، انہوں نے کہ جب سے بلڈوزر کارروائی شروع ہوئی ہے ہم یہ بات بھی کہتے آئے ہیں کہ اگر کوئی شخص جرم کرتاہے تواس کی سزااس کے گھر والوں کو نہیں دی جاسکتی ، عدالت نے یہ بات بھی اپنے فیصلہ میں کہی ہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ بلڈوزرکارروائی نہ صرف ایک غیر انسانی عمل ہے بلکہ یہ عدلیہ اورقانون دونوں کی توہین کرنے کے مترادف ہے ، بلڈوزرکارروائی کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے عدالت کا یہ کہنا بہت اہم ہے کہ محض الزام یہاں تک کہ جرم ثابت ہوجانے کے بعد بھی کسی کے مکان پر بلڈوزرچلانے کی اجازت نہیں ہوگی،انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے ہمارے اس موقف کو بھی تسلیم کرلیا کہ یہ ایک امتیازی کارروائی ہے اوراس کے ذریعہ ایک مخصوص فرقہ کو ہی نشانہ بنایا جاتاہے ، اپنے فیصلہ میں عدالت نے یہ سخت تبصرہ بھی کیا ہے کہ ایک مخصوص حصہ (مخصوص جگہ کی عمارت)کو اچانک منہدم کرنے کافیصلہ کیا جاتاہے جب کہ اسی طرح کی دوسری تعمیرات کو چھوڑدیاجاتاہے ، جس کا صاف مطلب نکلتاہے کہ یہ غیر قانونی تعمیرات کا انہدام نہیں بلکہ اس کا مقصدبغیر ٹرائل کے سزادینا ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ معزز عدالت نے فیصلہ میں اس معاملہ کے آئینی اورقانونی پہلوں کو پوری طرح اجاگرکردیاہے ، اورکہیں ایسی کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے کہ جس کافائدہ اٹھاکر ریاستیں قانونی کارروائی کی آڑمیں ایک مخصوص طبقہ کو سبق سیکھانے کا حوصلہ کرسکیں ، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں تھا کچھ ریاستوں نے تواسے ماورائے عدالت سزادینے کے لئے اپنی حکومتی پالیسی حصہ بنالیا تھا ہمیں ازحدخوشی ہے کہ بلڈوزرکارروائی کے ذریعہ سماج کے جن طبقات پر انصاف کے دروازہ بندکردیئے گئے تھے سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلہ سے ان پر انصاف کے بند دروازے کو کھول دیاہے ، انہوں نے آگے کہا کہ جس کارروائی کو عدالت نے غیر آئینی قراردیاہے ایک ریاست میں تواس کارروائی کی تشہیرکرکے الیکشن کے دوران باقاعدہ ووٹ بھی مانگے گئے ، ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے لئے یہ کتنے شرم کی بات ہے ، انہوں نے کہا کہ اس قبیح کارروائی کاآغازسب سے پہلے آسام اورکھرگون مدھیہ پردیش میں ہوا،2022میں جہانگیرپوری دہلی میں متعددمسلم گھروں کو پلک جھپکتے ملبے کا ڈھیڑبنادیاگیا اس ظلم اورناانصافی کے خلاف جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کردی جس پر اسٹے مل گیا لیکن ہوایہ کہ مذموم سلسلہ اچانک دوسری ریاستوں میں پھیل گیا اس پر جمعیۃعلماء ہند نے ان تمام ریاستوں کو اس مقدمہ میں فریق بنایا جس پر آج حتمی فیصلہ بھی آگیا ، اس کے لئے ہم عدالت عظمیٰ کو مبارک بادپیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایساغیر معمولی فیصلہ صادرکیا جس سے قانون کی بالادستی کی ایک بارپھر ظاہر ہوگئی اورانصاف کو سرخروئی حاصل ہوئی ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح کی سخت ہدایتیں اب سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہوئی ہے اس سے اب بلڈوزرکارروائی پر قدغن لگے گی اورماورائے عدالت سزادینے کا یہ ظالمانہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔اخیرمیں مولانا مدنی اپنے وکیلوں کی کامیاب پیروی پر انہیں مبارک بادپیش کی ۔
بلڈوزر مقدمیں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء ڈاکٹر ابھیشک منو سنگھوی، سی یو سنگھ،نتیا راما کرشنن، گورو اگروال متعدد تاریخوں پر پیش ہوئے جبکہ معاونین وکلاء میں ، ایڈوکیٹ صاریم نوید، ایڈوکیٹ شاہد ندیم ،ایڈوکیٹ دانیال، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ واصف رحمن خان و دیگر سینئر وکلاء کی معاونت کی۔ غیر قانونی بلڈوزر کارروائی پر قدغن لگانے کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے سب سے پہلے سپریم کورٹ آف انڈیامیں پٹیشن داخل کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے 18؍ اپریل 2022؍کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر پہلی سماعت 20؍ اپریل 2022 ؍ عمل میں آئی تھی جس کے دوران عدالت نے ملک کے مختلف صوبوں میں جاری بلڈوزر کارروائی پر اسٹے لگا دیا تھا۔ پہل سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل پیش ہوئے تھے۔جمعیۃ علما ء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں عرض گذار گلزار اعظمی بنے تھے۔ گلزار اعظمی کے انتقال کے بعد نائب صدر جمعیۃ علما ء ہند مولانا اسجد مدنی عرض گذار بنے۔ قابل ذکر ہے کہ سال 2022 کے وسط میں دہلی کے جہانگیر پوری کی مسلم بستی پر غیر قانونی بلڈوزر کارروائی کی گئی تھی، بلڈوزر کی یہ کارروائی دیکھتے دیکھتے دوسری ریاستوں تک پہنچ گئی جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں اقتدار میں ہیں جس میں مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ و دیگر شامل ہیں۔بلڈوزر کی اس کارروائی کو میڈیا کے ایک متعصب طبقہ نے ‘‘بلڈوزر جسٹس’’ کا نام دیا تھاجبکہ اس بلڈوزرناانصافی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھااور عدالت عظمیٰ سے فوری مداخلت کی گذارش کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند 18/ اپریل 2022 کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کی تھی جس پر کل 22؍سماعتیں ہوئی۔17؍ ستمبر 2024کی سماعت پر عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے بلڈوزر کارروائی پر روک لگا دیا تھا ، یہ پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ آف انڈیا نے آل انڈیا لیول پر بلڈوزر کارروائی پر روک لگانے کا حکم جاری کیا تھا ، اس سے قبل عدالت نے مخصوص علاقوں میں جاری بلڈوزر کارروائی پر روک لگائی تھی جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بلڈوزر کاروائی کے خلاف داخل پٹیشن کا ڈائری نمبر 11955/2022 ہے جبکہ رٹ پٹیشن نمبر 162/2022 ہے ۔