قلمکار: امیتا بھ کانت
کووڈ وبائی مرض پھوٹ پڑنے کے بعد کے برسوں میں ہم نے ٹکنالوجی کی تاریخ میں ازحد تغیراتی انقلابات کا مشاہدہ کیا ہے : مفید ، آفاقی اور لا محدود مصنوعی انٹیلیجنس (اے آئی ) کا شعبہ ابھر کر سامنے آیا۔ عالمی مسابقت اس بات کی ہے کہ ٹکنالوجی ، بنیادی ڈھانچہ اور اس نئے مصنوعی انٹیلیجنس عہد سے حاصل ہونے والے اقتصادی مواقع حاصل کیے جائیں ۔ چونکہ مصنوعی انٹیلیجنس صنعتوں کو تغیر سے ہمکنار کر رہا ہے اور ہمارے روزمرہ کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر رہا ہے، توانائی سے مالا مال مصنوعی انٹلیجنس کی پروسیسینگ کی طلب میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔بھارت میں وافر مقدار میں قابل احیا ءتوانائی کےوسائل دستیاب ہیں اور نمو پذیر مصنوعی انٹلیجنس ایکو نظام موجود ہے ، اس لحاظ سے بھارت مصنوعی انٹیلیجنس پروسیسنگ کو تقویت بہم پہنچانے کے معاملے میں سبز توانائی کواستعمال کرنے کے شعبے میں ایک عالمی قائد بن جانے کے لیے کمر بستہ ہے ۔
مصنوعی انٹیلیجنس پروسیسنگ کے لیے بڑے پیمانے پر توانائی درکار ہوتی ہے ، تخمینوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک واحد مصنوعی انٹیلیجنس ماڈل کی تربیت کے لیے ڈیٹا مرکز میں بجلی کے 284،000 کلو واٹ (کے ڈبلیو ایچ) گھنٹے درکار ہوتے ہیں ۔ چیٹ جی پی ٹی کو ایک سوال کا جواب دینے کے لئے ایک روایتی گوگل تحقیق کے مقابلے میں دس گنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے اور اتنی ہی توانائی ایک پانچ واٹ کے ایل ای ڈی بلب کو ایک گھنٹے تک روشن رکھنے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ ڈیٹا مراکز بذات خود عالمی بجلی طلب کے ایک فیصد کے بقدر کے حصہ کے طلب گار ہوتے ہیں ، اس سے ہمہ گیر توانائی حل کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے ۔ مصنوعی انٹیلیجنس کمیپوٹنگ کے لیے درکار توانائی کی ضروریات اس بات کی متقاضی ہوتی ہیں کہ فوری طور پر ایک وسیع تر بنیاد کے حامل ڈیٹا مراکز کا سلسلہ قائم کیا جائے جنھیں ہائیپر اسکیل ڈیٹا مراکز کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ یہ نئے ہائپر ڈیٹا مراکز اس بڑے پیمانے پر معتبر سبز بجلی اسی مقدار اور رفتار کے ساتھ چاہتے ہیں جو متعدد خطہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔عالمی اعدادو شمار مراکز کی توانائی ضروریات کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ 2030 تک 4،000 ٹی ڈبلیو ایچ کے بقدر تک پہنچ جائیں گی جو عالمی بجلی طلب کا پانچ فیصد حصہ ہوگا۔
قابل عہد توانائی بجلی پلانٹ اپنے ماڈیولر کی وجہ سے تعمیراور اسٹارٹ اپ کے معاملے میں فوری طور پر مفید ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان میں مختلف شعبوں یا اکائیوں کے لیے معیار بند طریقہ اور ڈیزائن اپنائی جاتی ہے ، تاہم متعدد خطے ان پلانٹوں کی تیز رفتار تعمیر سے قدم سے قدم ملا کر چلنے خصوصاً اس امر کو یقینی بنانے میں صارفین تک بجلی کی بہم رسانی کے لیے وافر ترسیلی لائنیں دستیاب ہوں ،کے سلسلے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ۔ بھارت نے قابل احیاء توانائی کے معاملے میں اولوالعزم اہداف مقرر کر رکھیں ہیں ، مقصد یہ ہے کہ اپنی پچاس فیصد کےبقدر کی بجلی 2030 تک غیر حجری ایندھنوں سے حاصل کی جائے۔ ہر سال 300 سے زائد دنوں میں سورج کی بھرپور روشنی کے ساتھ ہی ساتھ چلنے والی تیزہوائی رفتار کے ذریعہ بھارت کے پاس شمسی توانائی کے لیے وسیع تر مضمرات موجود ہیں جن کا استعمال مصنوعی انٹیلیجنس کی پروسیسنگ کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے کیا جا سکتا ہے ۔
بھارت کی اصل قوت دونوں یعنی نجی اور سرکار ی شعبوں کی اس کی مقامی سبز توانائی قائدین سے حاصل ہوتی ہے ، جو بڑے پیمانے پر ، عالمی درجے کے حامل توانائی پروجیکٹ نافذ کر سکتے ہیں ۔ قابل احیا توانائی صنعت کو جدید قومی گرڈ اور ایک موثر قواعد ضوابط پر مبنی فریم ورک سے تقویت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بھارت کا مصنوعی انٹیلیجنس ایکو نظام سرعت سے نمو پذیر ہو رہا ہے ۔ ملک میں 1000 سے زائد مصنوعی انٹلیجنس کے اسٹارٹ اپ ادارے موجود ہیں ۔ اضافی طور پر 20 فیصد کے بقدر عالمی مصنوعی انٹیلیجنس صلاحیت کی بنیادیں بھارت میں مضمر ہیں جو اسے مصنوعی انٹیلیجنس سے متعلق کمپنیوں کے لیے ایک پرکشش مقام بناتی ہے ۔ بھارت میں مصنوعی انٹیلیجنس کی منڈی کے بارے میں توقع کی جاتی ہے کہ یہ 2025 تک ، ڈیجیٹل خدمات ، ای -کامرس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کی فزوں تر ہوتی ہوئی طلب کے نتیجے میں 7.8 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تک پہنچ جائے گی ۔
بھارت کے اعدادو شمار کی منڈی، ڈیزل خدمات ، ای –کامرس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کی روزافزوں طلب کی وجہ سے تیز ی سے وسعت پذیر ہو رہی ہے ،مارکیٹ سینڈ مارکیٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق توقع کی جاتی ہے کہ منڈی 2025 تک تنصیبی صلاحیت کے معاملے میں 1432 ایم ڈبلیو کے بقدر تک پہنچ جائے گی ،یعنی اس میں 21.1 فیصد کے بقدر کی نمو حاصل ہوگی ۔ 2030 تک ،تخمینے کے مطابق یہ 15.6 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ 3243 ایم ڈبلیو کے بقدر تک پہنچ جائے گی ۔ فائننشیل ٹائمس میں شائع ہوئے ایک حالیہ مضمون میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت ہائیپر اسکیل ڈیٹا مراکز کے طفیل ایشیا پیسفک خطے میں سرکردہ ڈیٹا مرکز منڈی بن جائے گا۔
ڈیٹا مراکز کی اپنی مخصوص ضروریات ہوتی ہیں جو انھیں دیگر بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں سے منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں ،یہ مراکز اعلیٰ معتبریت ، سلامتی ، ماڈیولرٹی اور مسلسل یکساں پیمانے پر کام کرنے کے اعلی معیارات پر کھرے اترنے کے لیے وضع کیے جاتے ہیں ، ان کی کامیابی کے لیے ہنگامی صورتحال میں بجلی کا امدادی انتظام لازمی حیثیت رکھتا ہے ۔ جہاں ایک جانب ڈیزل جنریٹر خاص طور پر فی الحال بیک اپ ٹکنالوجی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ، بیٹریوں (6 گھنٹے کی بقدر کی امدادی خدمت فراہم کرنے والی ) اور ہائیڈروجن پر مبنی ایندھن کے سیل (جو 48 گھنٹے کی امدادی خدمت بہم پہنچاتے ہیں ) جیسے سبز متبادل ،بڑی تکنیکی کمپنیوں کے ذریعہ کاربن اخراج میں تخفیف لانے کی غرض سے تلاش کیے جا رہے ہیں ۔ ہائیپر اسکیل ڈیٹا مراکز کی وسعت کے لیے پانی کی دستیابی ایک چنوتی پیش کرتی ہے ، لہذا ایندھن پر مبنی سیل کو مربوط کرنے کے طریقے پر مبنی ٹکنالوجیاں جوذیلی پروڈیکٹ کے طور پر پانی فراہم کرتی ہیں، اس کا ایک عمدہ حل ثابت ہو سکتا ہے۔
حیدرآباد میں واقع گوگل مصنوعی انٹیلیجنس کی قوت سے چلنے والا ڈیٹا مرکز 100 فیصد بنیاد پر قابل احیا توانائی کی مدد سے چلتا ہے جس نے ہمہ گیر مصنوعی انٹلیجنس پروسیسنگ کے لیے ایک مثال قائم کی ہے ۔ مائیکرو سافٹ پر اے آئی پر مبنی ڈیٹا مرکز جو پنُے میں واقع ہے ، اپنی توانائی ضروریات کی تکمیل کے لیے شمسی بجلی کا استعمال کرتا ہے ،اس سے مصنوعی انٹیلیجنس کے شعبہ میں سبز توانائی کے مضمرات اجاگر ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت کی میک ان انڈیا پہل قدمی بھی سبز ڈیٹا مراکز اور مصنوعی انٹیلیجنس بنیادی ڈھانچے کے عمل کو فروغ دیتی ہے ، یہ اپنی جانب سے اس شعبے میں نمو کے لیے امدادی فریم ورک بہم پہنچا رہی ہے ۔
مصنوعی انٹلیجنس ڈیٹا مرکز کے شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ، بھارت کو خالص صفر ہائیپر اسکیل ڈیٹا مراکز کی ایک پالیسی وضع کرنی چاہیے ۔ ایسے وسائل جو وسیع ڈیٹا مراکز تخلیق کرتے ہیں اور جہاں گرین ہاؤس ، اخراج نہیں ہوتا ۔ ملک کو ایسے کلیدی مقام کی نشاندہی کرنی چاہیے جو لگاتار بنیاد پر معتبر معاون توانائی متبادلوں کے ساتھ سبز بجلی فراہم کر سکیں ۔ اس کے علاوہ بھارت کو ایسی ہنر مندی کی حامل افرادی قوت یا کارکنان کو بھی راغب کرنے کی ضرورت ہے جو ایسے ترقی یافتہ ڈیٹا مراکز تعمیر کر سکیں جو ازحد محفوظ اور موثر ہوں ۔
اختراع کو فروغ دینے کے لیے ،حکومت کو ایسے طریقے تلاش کرنے کے لیے جن کے ذریعے ایسے ڈیٹا مراکز تعمیرہو سکیں، جو توانائی اور پانی کا نسبتاً کم استعمال کریں ،پائلٹ پروجیکٹوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنا چاہیے ۔بھارت کے لیے یہ بات بھی لازمی ہے کہ وہ موثر اور پالیسیوں اور قواعد ضوابط کے نفاذ کے ذریعے اعدادو شمار کے تحفظ کے سلسلے میں عالمی پیمانے پر اپنا اعتبار قائم کرے۔
صاف ستھری توانائی میں اپنی قوتوں اور فزوں تر ہوتے ہوئے مصنوعی انٹلیجنس ایکو نظام کے ساتھ ، بھارت سبز توانائی کی قوت سے چلنے والی اے آئی پروسیسنگ کے معاملے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی اطمینان بخش حیثیت کا حامل ملک بن گیا ہے ۔ اپنے قابل عہد توانائی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اور مصنوعی انٹلیجنس کے ڈیٹا مراکز کو درپیش چنوتیوں کا حل نکالتے ہوئے بھارت اپنے ذریعے کاربن کے اخراج کی مقدار کو کم سے کم کر سکتا ہے ، ہمہ گیر کاروبار اور اختراع کے لیے، اپنی حیثیت اور اپنے وقار کو تقویت بہم پہنچا سکتا ہے اور صاف ستھری توانائی اور مصنوعی انٹلیجنس کے شعبوں میں روزگار بہم پہنچا سکتاہے ۔
- مصنف بھارت کے جی -20 شیرپا اور نیتی آیوگ کے سابق سی ای او ہیں ۔ یہاں ظاہر کیے گئے خیالات ان کے ذاتی خیالات ہیں ۔
Urdu Translation of
Compute is the new oil. Green energy key to win the AI race - By Amitabh Kant*