از قلم: جیا ورما سنہا
تنوعات سے بھرا ہمارا ملک بے حد منفرد ہے۔ یہاں چیزوں کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ ہمارے لیے گنگا اور گوداوری صرف ندیوں کے نام نہیں ہیں، یہ زندگی بخشنے والی ماں کے مترادف ہیں۔ موسیقی صرف کانوں کو سرور بخشنے کا ذریعہ نہیں ہے، یہ دھنوں کی مشق کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح ہم اہل وطن کے لیے ہندوستانی ریلوے محض ایک انجن اور ڈیڑھ درجن ڈبوں سے لیس ٹرین نہیں ہے، بلکہ گھر اور خاندان سے دور روزی روٹی کما رہے ہمارے مزدوروں، کسانوں، فوجیوں اور کروڑوں شہریوں کا اپنے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ جذباتی رشتوں کو جوڑتا ایک پل ہے۔ ہماری ٹرینیں صرف مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک چلنے والی پٹریوں پر نہیں چلتی ہیں بلکہ ان سے ہو کر رشتوں کے جذبات گزرتے ہیں۔ عظیم ہندوستان کے تنوع کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہندوستانی ریل، حکومت ہند کی نمائندہ بھی ہے اور ہم وطنوں کی امنگوں کی علامت بھی ہے!
ان امنگوں کا امتحان ہر سال تہوار کے موسم میں ہوتا ہے، جب اپنے خاندانوں سے دور رہنے والے کروڑوں ہم وطن اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ میٹروپولیٹن زندگی کی گمنامی میں ایک سال کی محنت کے بعد یہ محنتی لوگ اپنے پیاروں سے ملنے کی امید کے ساتھ ایک بڑے گروپ میں ٹرین کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ تعداد اتنی زیادہ کہ اگر آپ نے اس ماحول میں کبھی کام نہ کیا ہو تو دیکھتے ہی ہاتھ پاؤں پھول جائیں۔ اور اگر بات تہوار اور خاص دنوں میں امنڈتے عوامی سیلاب کی ہو تو صرف ریل سے بات نہیں بنتی۔ آپ کو ریلوے اسٹیشن پر آنے والے لوگوں کی مناسب رہائش، ٹکٹوں کی خریداری، کھانے پینے وغیرہ کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لیے ریلوے افسران اور ملازمین کے علاوہ ہمیں رضاکارانہ تنظیموں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ ہندوستانی ریلوے انتظامیہ کے پاس کروڑوں مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچنے میں مدد کرنے کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے، لیکن اب اس تجربے کو بتدریج خوشگوار بنانے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اگر کبھی غیر ملکی مہمانوں سے اس موضوع پر بات کی جائے تو وہ دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ ٹریفک مینجمنٹ کا علم رکھنے والے بہت سے دوست یہ سن کر حیران ہوتے ہیں کہ تہواروں کے دوران ریلوے نے ایک لاکھ ستر ہزار ٹرینوں کے پھیروں کے علاوہ سات ہزار سات سو اسپیشل ٹرینیں چلائی ہیں۔ اب آپ، سورت کے قریب واقع صنعتی شہر اودھنا کو ہی لے لیں – یہاں کے ریلوے اسٹیشن سے روزانہ اوسطاً سات سے آٹھ ہزار مسافروں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ 4 نومبر کو اس چھوٹے سے اسٹیشن پر چالیس ہزار سے زیادہ کا ہجوم جمع ہوا۔ اگر ریلوے انتظامیہ ٹیم بن کر کام کرتے ہوئے مناسب انتظامات نہ کرتی تو مسافروں کی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا۔ تہوار کے دوران ملک بھر میں سب سے زیادہ آمد و رفت نئی دہلی اسٹیشن سے ہوئی۔ اس عرصے کے دوران، مسافروں کی مانگ پر صرف اس اسٹیشن سے ایک دن میں 64 خصوصی اور 19 بغیر ریزرویشن کی ٹرینیں چلائی گئیں۔
غیر ملکی مہمانوں سے بھرے مجمع میں جب تہواروں کے دوران ریل کے سفر پر بات ہوئی تو ایک سفارت کار یہ سن کر دنگ رہ گئے کہ اس سال صرف چھٹھ تہوار کے موقع پر 4 نومبر کو تقریباً 3 کروڑ لوگوں نے ٹرین کے ذریعے اپنی منزلوں کی طرف سفر کیا اور ان دنوں ریلوے نے تقریباً 25 کروڑ مسافروں کو سفر کرنے میں مدد کی تھی۔ متعلقہ سفارت کار نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ لوگوں نے تو محض کچھ دنوں میں ہی آپ کی ٹرینوں میں سفر کیا!
ہندوستانی ریلوے کو احساس ہے کہ ہمارے بھائی اور بہنیں، جو ملک کے مشرقی حصوں سے صنعتی مراکز میں بڑی تعداد میں کام کر رہے ہیں، ان کا ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے۔ جموں کی اٹل ٹنل سے لے کر ممبئی کے سی لنک تک، اور بنگلور کے آئی ٹی اداروں سے لے کر دہلی کی زیر تعمیر عمارتوں تک، مشرق کی مٹی میں رچے بسے لوگوں نے انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ ملک کی سرحدوں پر تعینات آرمی ہو یا باڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکار، پنجاب کے کھیتوں میں فصل اگانے والے مزدور، سرکاری دفاتر اور نجی اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے ملازمین، بزرگ ہوں یا ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا، یہ سب اپنے اپنے طریقوں سے آج اور آنے والے کل کے ہندوستان کی تشکیل کر رہے ہیں۔
ہندوستانی ریلوے نے وندے بھارت، امرت بھارت، نمو بھارت جیسی ٹرینوں کو جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے آراستہ کرکے اور ملک بھر کے ایک ہزار سے زیادہ ریلوے اسٹیشنوں کو امرت اسٹیشنوں میں تبدیل کرکے ایک نئے اور عالمی معیار کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ بدلتے ہوئے ہندوستان کی بدلتی ہوئی تصویر اب ہندوستانی ریلوے کی شکل میں ابھرنے لگی ہے۔
● * جیا ورما سنہا ہندوستانی ریلوے کی پہلی خاتون چیئرمین اور سی ای او رہی ہیں۔*