(شوذب منیر )اے ایم یو میںطلبہ یونین کے انتخابات کرانے کے لئے عرضی دائر
اے ایم یو انتظامیہ کو جواب دینے کے لئے عدالت نے دس دن کا موقع دیا
اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ کسی بھی درس گاہ میں طلبہ کی وجہ سے وہاں کی انتظامیہ ، اساتذہ ، تدریسی اور غیر تدریسی اہلکار ہوتے ہیں۔ ایساممکن نہیں ہے کہ انتظامیہ کی وجہ سے طلبہ ہوں۔ وہیں کسی بھی درسگاہ میں طلبہ کے لئے اساتذہ گاجین کی حیثیت رکھتے ہیں، ایسے میں یہ بات نہایت ہی شرمناک ہے کہ کسی بھی درسگاہ کے طالب علم اپنے حقوق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹائیں، طلبہ کا عدالت کا رخ کرنا اس بات کی نشادیہی کر تاہے کہ کہیں کہ کہیں طلبہ کے حقوق انتظامیہ نظر انداز کر رہا ہے ۔مسلسل چھ برسوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ یونین کے انتخابات نہیں کرائے ہیں اپنی اس دیرینہ مطالبے کو لئے کر اے ایم یو طلبہ کوآخر کار عدالت کا دروازاہ کھٹکھٹان ہی پڑ گیا ۔طلبہ گزشتہ تقریباً چھ برسوں سے جمہوری نظام اور آئین کی پاسداری کرنے ہوئے طلبہ یونین کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور اس حوالے سے طلبہ نے میمورنڈم سے لئے کر احتجاج، دھرنا بھی دیا، لیکن مسلم یونیورسٹی انتظامیہ اپنی ضد پر آڑی رہی اور کسی نہ کسی بہانے سے طلبہ کے اس جائز مطالبے کو نظر انداز کرتی رہے، مسلم یونیورستی انتظامیہ کے اڑیل رویہ سے تنگ آکر طلبہ نے ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے جہاں عدالت نے آئندہ شنوائی کے لئے ۲۹؍نومبر کی تایخ مقرر کی ہے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے انتخابات کرانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) پر ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران اے ایم یو انتظامیہ کے وکیل نے عدالت سے وقت مانگا۔ اس پر عدالت نے اگلی سماعت کے لیے۲۹؍ نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
واضح رہے کہ اے ایم یومیں ۲۰۱۹ء سے طلبہ یونین کے انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔ طلبہ چھ سال سے اس حوالے سےمسلسل اسکا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسکے لئےکئی بار احتجاجی جلوس نکالا مظاہرہ کیا ، میمورنڈم دیا، باب سید پر دھرنا دی لیکن ان سب کےنتیجہ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو صرف یقین دہانی کرائی گئی ، حد یہ ہے کہ طلبہ اپنا وی سی منتخب کرنے میں بھی کوئی رول ادا نہیں کر سکے ۔اے ایم یو طلبہ یونین کے انتخابات کے حوالے سے مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کی ضد اور اڑیل رویے تھک ہارکر یونیورسٹی کی لاء فیکلٹی کے ایل ایل ایم کے طالب علم سید کیف حسن نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ۔ عرضی گزار نے سپریم کورٹ کے ذریعہ منظور کردہ لنگ دوہ سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایم یو انتظامیہ کے ذریعہ چیف الیکٹورل آفیسر کی فوری تقرری اور طلبہ یونین کے انتخابات کے لئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کی مانگ کی ۔ اے ایم یو میں۲۰۱۹ء سے طلبہ یونین کے انتخابات نہیں ہوئے ہیں، ایسی صورت میں طلبہ یونین فنڈ کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔ اس پر پیر کو سماعت ہوئی۔ اس دوران اے ایم یو کے وکیل نے یونیورسٹی انتظامیہ سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے اضافی وقت کا مطالبہ کیا۔ عدالت نے اے ایم یو کے وکیل کو۱۰ ؍ دنوں کے اندر ہدایت طلب کرنے کا حکم دیا،یہ بھی ہدایت دیا ہے کہ مقررہ وقت کی تکمیل کے بعد اس معاملے کو مزید سماعت کے لیے درج کیا جائے۔ درخواست گزار کی جانب سے ذیشان خان اور علی بن سیف ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
وہیں سید کیف حسن کہا کہ لنگ دوہ کی سفارش کے علاوہ، اے ایم یو کے ایکٹ، آرڈیننس، قوانین، اور ضابطے واضح طور پر کہتے ہیں کہ اے ایم یو کی اکیڈمک کونسل اور اے ایم یو کورٹ جو اس ادرے کی سپریم گورننگ باڈی ہے اسمیں طالبہ کی نمائندگی ہوگی یہی باڈی اے ایم کے وائس چانسلر کے انتخابات میں ووٹ دیتے ہیں اور اسمیں طلبہ یونین کی بھی سیٹ شامل ہے ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پچھلے چھ برسوں میں اے ایم یو میں طلبہ یونین کےانتخابات نہیں ہوئے اور کود اے ایم یو کی سالانہ رپورٹ کے میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ طلبہ کی نمائندگی والی یہ سیٹیں پچھلے چھ برسوں سے خالی ہیں۔گزشتہ چھ برسوں سے نہ تو طلبہ یونین کے الیکشن کرائے گئے اور نہ ہی اس حوالے سے طلبہ سے بات کی گئی اور نہ ہی انہیں کوئی جواب دیا گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے منظور شدہ لنگ دوہ سفارشات کے تناظر میں طلباء یونین لازمی ہے،یہ طلبہ کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ برسوں سے اے ایم یو انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کے حق کی خلاف ورزی کے پیش نظر مفاد عامہ میں عرضی دائر کی ہے۔ طلباء کی نمائندگی نہ ہونے کی صورت میں ان سے متعلق معاملات پر فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ طلبہ کی نمائندگی کی نشستیں بھی خالی ہیں اورموجودہ وائس چانسلر کے انتخاب میں بھی طلبہ کی نمائندگی نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ معزز عدالت نے اے ایم یو انتظامیہ سے اس حوالے سے دس دنوں میں ہدایت حاصل کرنے ہدایت اے ایم یو کے وکیل کودی ہے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ برسوں طلبہ یونین کے حوالے سے مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نےکوئی ٹھوس جواب نہیں دیا اب عدالت نے سوال کیا ہے تو انہیں جواب دینا لازمی ہوگا ،یہ طلبہ برادری کے لئے اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے ، وہیں اے ایم یوطلبہ کو معزز الہ آباد ہائی کورٹ پر پورا بھروسہ ہے کہ معزز عدالت کی مداخلت سے اے ایم یو میں جمہوری نظام اور طلبہ کے حقوق بحال ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ یونین طلباء کا حق ہے۔ ایسا ہر سال ہونا چاہیے۔ پہلے کویڈ کے نام پر اسکی اجازت نہیں تھی ،ابھی تک کوئی وجہ نہیں بتائی جا رہی ہے۔ طلباء سے متعلق بہت سے مسائل ہیں۔ فیکلٹی سے لے کر ہال تک طلبہ کی نمائندگی ہونی چاہیے۔
وہیں اے ایم یو کے رابطہ عامہ کے ایم آئی سی پروفیسر عاصم صدیقی نے کہاہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر عرضی کا نوٹس لیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے جواب داخل کیا جائے گا۔
فوٹو۔
سید کیف حسن