उत्तर प्रदेशउर्दू

نہ تٹرپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے، وی سی سے ملاقات کی کوشش کرتے طلبہ پر اے ایم یو انتظامیہ نے کیس درج کرایا


علی گڑھ (شوذب منیر) نا تڑپنے کی اجازت ہے اور نہ فریاد کی ہے ، گھٹ کے مر جاوں یہ مرضی ، میرے سیاد کی ہے ، یہ بات اے یوطلبہ پر صادق آتی ہے ، مسلم یونیورستی انتظامیہ اپنے ہی طلبہ سے ملنے کے لئے گریزاں ہے ،جب طلبہ وی سی سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں تو ، اے ایم یو انتظامیہ مختلف الزامات عائد کر اپنے ہی طلب کے خلاف کیس درج کراتی ہے، قارئیں یاد رہے کہ چند برسوں پہلے جب اے ایم یو طلبہ جب کیس درج کرانے سول تھانے جارہےتھے تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور کیس درج کرایا تھا وہیں اس بار اپنے ہی وی سی سے ملنے کی کوشش میں طلبہ کے خلاف اے ایم یو انتظامیہ نے کیس درج کرایا ہے۔برق گرتی ہے تو بے چارے اے ایم یو کے طلبہ پر ۔ اس بارکی برق کسی غیر یا شدت پسندوں کی جانب سے نہیں بلکہ اے ایم یو انتظامیہ کی جانب سے گرائی گئی ہے ۔ طلبہ یونین کے انتخابات کے لئے گزشتہ چھ برسوں سے طلبہ کے مطالبات کو مسلم یونیورستی انتظامیہ مسلسل کسی نہ کسی بہانے مسترد کر رہا ہے، اپنے دیرینہ مطالبات کے ایڈمنسٹریٹیو بلاک کا گھراو کر رہے طلبہ کی جب وائس چانسلر سے ملاقات نہ ہو سکی تو ، طلبہ نے وی سی کی گاڑی روکنے کی کوشش ، مسلم یونیورستی انتظامیہ نے اپنے ہی طلبہ کے خلاف کیس درج کریا ، اے ایم یو انتظامیہ کی تحریر پر پولیس نے طلبہ کے خلاف بلوا، گاڑی روک کر ہنگامہ کرنے، گالی گلوچ اور دھمکی دینے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے
یہ بات گزشتہ چند برسوں سے محسوس کی جا رہی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ اپنے چنندہ طلبہ کے علاوہ عالم طلبہ سے دوری بنائے ہوئے ، طلبہ کو اپنے ہی وائس چانسلر سے ملاقات کرنا ایک بہت بڑا چیلج بنتا جا رہا ہے۔ ماضی میں اے ایم یو طلبہ یونین بحالی کے لئے مسلسل اے ایم یو وی سی سے ملاقات کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں،لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، جسکے نتیجہ میں اے ایم یو طلباء جمعرات کو انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے انتظامی عمارت کا گھیراؤ کیا ،اور وی سی سے ملاقات کرنے کی کوشش کی، اس بیچ اپنے طلبہ کو نظر انداز ہوئے جب اے ایم یووائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون انتظامی عمارت سے یونیورسٹی کیمپس میں واقع اپنی رہائش گاہ جا نے لگیں تو طلبہ مشتعل ہو گئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے ہی وی سی سے نہیں مل سکتے ہیں،یا پھر وی سی کو ایسی کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے ہی طلبہ سے دور بنائے ہوئے ہیں۔ طلباء نے وی سی کی گاڑی رولیا، سیکورٹی اہلکاروں نے گاڑی کو طلبہ کے درمیان سے باہر نکالا، طلباء وائس چانسلر سے اپنی بات کہنے کے لئے ان کی گاڑی کے پیچھے بھاگے،لیکن اپنے ہی طلبہ کی بات سنے بغیر وی سی نے اپنی راہ لی ،جسکے بعدطلبہ نے نعرے بازی بھی کی،جسکے بعد طلبہ نے انتظامی عمارت کا گیٹ بند کردیا، وہیںاے ایم یو کی جانب سے طلبہ کے خلاف شکایت درج کرائی گئی ہے اور انہیں معطل کرنے کی تیاریاں بھی جاری تھیں۔
واضح رہے اے ایم یو میں گزشتہ چھ سال سے طلبہ یونین کے انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے طلبہ مسلسل مطالبہ کرتے رہے ہیں اپنے اس دیرینہ مطالبے کو لئے کر متعدد بار میمورنڈم دیا ، احتجاج کیا ،مسلم یونیورسٹی انتظامیہ سے ملنے کی کوشش کی، دھرنا دیا لیکن اسکے باوجود بھی طلبہ کو سوائے یقین دہانی کے کچھ نہ ملا اورطلبہ کا مطالبہ صرف مطالبہ ہی بنارہا ۔ وہیں مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کی
طلبہ یونین کے انتخابات نہ کرانے کی ضد سے طلبہ پریشان ہی نہیں فکر مند بھی ہوچکے ہیں، طلبہ کی اس فکر مندی کو دیکھتے ہوئے اے ایم یو کے شعبہ قانون کے طالب علم سیدکیف حسن نے ہائی کورٹ ایک پی آئی ایل داخل کی ، جس میں عدالت اے ایم یو انتظامیہ سے اس حوالے سے جواب طلب کیاہے ، اور آئندہ سماعت کے لئے ۲۹؍ نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے،جمعرات کی سہ پہر تین بجے کثیر تعداد میں طلبہ انتظامی عمارت پہنچے۔ پہلے طلباء کو گیٹ پر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔ یہاں سے طلبہ رجسٹرار آفس کے نیچے سیڑھیوں کے پاس بیٹھ گئے۔ طلباء کا ہجوم اس قدر تھا کہ نہ کوئی انتظامی عمارت میں داخل ہو سکا اور نہ ہی کوئی باہر نکل سکا۔ یہ افراتفری چھ بجے تک جاری رہی۔ شام ۳۰ : ۶؍ بجے وی سی پروفیسر نعیمہ خاتون اپنے دفتر سے گاڑی میں جانے لگی تو طلبہ نے اپنی ہی وائس چانسلر سے اپنی بات کہنے کے لئے ،انکی کار کو روکنے کی کوشش کیا ، لیکن اپنے ہی طلبہ سے ملنے گریزاں وی سی کی گاڑی کو کسی طرح سکیورٹی اہلکاروں کو طلبہ کے درمیان سے نکالنے میں کامیاب رہے، لیکن طلباء دوبارہ گیٹ نمبر تین کے قریب کار کے سامنے آگئے حد یہ ہے کہ ایک طالب علم کار کے سامنے لیٹ گیا۔ وہیں مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے وائس چانسلر سے بات کرنے کی کوشش کر رہے اپنے ہی طلبہ کے تحریر دی ہے یہ تحریر اے ایم یو کے پراکٹر آفس کے سیکورٹی آفیسر عرفان احمد خان نے دی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ۳ ؍ بجے یونیورسٹی کی انتظامی عمارت میں موجود سو سے زیادہ طلباء نے زبردستی عمارت کا دروازہ بند کر، انتظامیہ پر اپنے غیر قانونی مطالبات کو پورا کرنے کے لئے دباؤ بنایااور کیمپس میں افراتفری پیدا کرکے سرکاری کام میں خلل ڈالا۔ شام ۳۰ : ۶؍ بجے جب وائس چانسلر اپنی رہائش گاہ کے لیے انتظامی عمارت سے نکل رہی تھیں تو ماس کمیونیکیشن کے طالب علم ذکی الرحمان اور بی ای کے طالب علم مصباح قیصر، نے یونیورٹی انتظامیہ کے خلاف نازیبا اور قابل اعتراض تقریریں کرنا شروع کر دیا،اس سے مشتعل دیگر طلبہ نے وائس چانسلر کی گاڑی کو روک دیا۔ ان طلباء میں محمد دانش، عرفان
، عدیل، شعیب قریشی، پارس، فواد، ارشد، سلمان، اریب اور دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے جان لیوا حملہ کرنے کی نیت سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ وہاں موجود پراکٹر ٹیم اور سیکورٹی اہلکاروں نے طلباء کو کنٹرول کیا اور کسی طرح وائس چانسلر کی گاڑی کو وہاں سے بحفاظت باہر نکالا گیا۔ اس دوران ڈپٹی پراکٹر پروفیسر ایس نواز زیدی سمیت کئی ملازمین کے زخمی ہونے کی بات کہی جا رہی ہے۔
سول لائن کے انسپکٹر رتیش کمار نے کہا کہ تحریرکی بنیاد پر طلبہ کے خلاف بلوا، گاڑی روک کر ہنگامہ کرنے، گالی گلوچ اور دھمکی دینے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اے ایم یو انتظامیہ کا اپنے ہی طلبہ کے ساتھ یہ رویہ اے ایم یو کے ہمدردوں کی سمجھ سے بالاتر ہے، ان کا یہ کہنا ہے کہ جب وائس چانسلرخود ہی اپنے ہی طلبہ کے جائزمطالبات کے لئے ملنے سے گریزاں ہے اور جب طلبہ مجبور ہو کر وائس چانسلر کی کار روکنے کی کوشش کرنے پر، اے ایم یو انتظامیہ اپنے ہی طلبہ کے خلاف خطرناک دفعات میں کیس درج کرائے گی تو غیروں سے کیا مید کی جائے؟
اے ایم یو پراکٹر ، پروفیسر ایم وسیم علی نے کہاکہ الیکشن کے مطالبے کی آڑ میں جس قسم کا انتشار پیدا کیا گیا ہے اسے برداشت نہیں کیا جائے گا، جو بھی قصوروار پایا گیا اسکے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔