علی گڑھ (شوذب منیز)کیا یونیورسٹی کی جانب سے کچھ طلبہ کو معطل کرنا اور آئندہ پانچ تعلیمی سیشن تک یونیورسٹی میں کسی بھی کورس میں داخلہ لینے سے روکنے کا فیصلہ، وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے دیگر عہدیداروں کی سیکورٹی کو لاحق سنگین خطرے کی وجہ سے ضروری تھا؟ آخر اے ایم یو انتظامیہ کو خطرہ کس سے ہے ،اپنے ہی طلبہ سے ؟اپنے ہی طلباء کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ( اے ایم یو) انتظامیہ کی جانب سے کی گئی کاررواہی طول پکڑتی جا رہی ہے، مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کی کاررواہی کے خلاف اے ایم یوطلبہ کی کثیر تعداد بعد نماز جمعہ باب سید میں جمع ہوئی۔
مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان طلبہ کی طرف سے اس ہنگامے کا مقصد یونیورسٹی کے پرامن ماحول کو خراب کرنا اور اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے وہیںطلبہ کا کہنا تھا کہ جمعرات کو جو کچھ ہوا وہ ایسا تو نہیں تھا کہ طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور طلبہ کا کیریئر خطرے میں ڈالا جائے ۔ طلبہ رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ مقدمہ واپس لے کر معاملہ حل کیا جائے۔ طلبہ یونین کے سابق نائب صدر ندیم انصاری نے کہا کہ یونیورسٹی کھلنے کے بعد طلبہ نے پرامن طور پر وی سی سے ملاقات کر طلبہ یونین کے انتخابات کا مطالبہ کررہے تھے، طلبہ کا مطالبہ جائز اور ضروری ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ وی سی پروفیسر نعیمہ خاتون کے پاس اپنے ہی طالبہ سے ملنے کا وقت نہیں ہے۔ کل جو ہوا وہ واقعی ایسا نہیں تھا کہ طلبہ کے خلاف ایسی سخت کاررواہی کی جائے کہ کیرئر ختم ہو جائے، طلبہ پر ہوا مقدمہ انتہائی شرمناک ہے،یہ سبھی آپ کے طالب علم ہیں،طالب علم ایسے کام نہیں کر سکتے۔ انتشار پھیلانے والے غنڈے کیمپس میں کیسے داخل ہوئے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جسکا جواب اپنی پروکٹوریل ٹیم سے لینا چاہئے تھا، انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر صاحبہ کو اس بات کا احساس ہوناچاہیے کہ طالب علم کے لئے اساتذہ والدین کا درجہ رکھتے ہیں، پہلی بار کوئی خاتون وائس چانسلر بنی ہے، لہٰذا میڈم کو چاہیے کہ وہ محبت بھرے دل کا مظاہرہ کریں کیونکہ انہیں اپنے بچوں کو بطور وائس چانسلر نہیں بلکہ ایک ماں کی طرح پیش آئیں۔وہیں کچھ طلباء نے حاضری کا مسئلہ بھی اٹھایا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پی آر او کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا کہ اے ایم یو کے رجسٹرار دفتر میں۲۱؍ نومبر کی شام کچھ عناصر کی طرف سے ہنگامہ آرائی سے متعلق چند میڈیا رپورٹس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تین سابق طلبہ کو مستقبل میں داخلے سے روکنے اور۶؍ طلبہ کو معطل کرنے کے سلسلہ میں میڈیا کے ایک حصے میں بالکل مختلف ردعمل سامنے آیا ہے جو نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ حقائق پر بھی مبنی نہیں ہے۔
کچھ سابق طلبہ کا یہ الزام کہ وائس چانسلر ناقابل رسائی ہیں درست نہیں کیوں کہ یونیورسٹی کے اعلیٰ افسران بشمول وائس چانسلر، رجسٹرار، پراکٹر اور ڈین اسٹوڈنٹس ویلفیئر (ڈی ایس ڈبلیو) نے یونیورسٹی کے ضابطوں کے اندر معقول شکایات کے ازالہ کے لئے طلبہ کے ساتھ کئی دور کی میٹنگ کی۔
اصل مسئلہ جو وائس چانسلر کی گاڑی پر حملے کی صورت میں رونما ہوا وہ حاضری میں کمی سے متعلق تھا، نہ کہ اے ایم یو طلبہ یونین کے انتخاب کے مطالبے سے متعلق تھا، جیسا کہ میڈیا کے ایک حصے میں بتایا گیا ہے۔مذید کہا گیاہے کہ زیادہ تر طلبہ، جو دوسرے طلبہ کو اکسانے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں ملوث تھے،جنکے خلاف یونیورسٹی نے تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، ان کی حاضری کا فیصد کم ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ تعلیمی سیشن کے ابتدا سے ہی درجات میں حاضری کی اہمیت پر زور دیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلہ میں یونیورسٹی کی جانب سے فیکلٹیز کے ڈین اور شعبہ جات کے سربراہان کو سرکولر کے ذریعے بار بار بتایا جاتا رہاہے۔
یونیورسٹی کی جانب سے کچھ طلبہ کو معطل کرنا اور اگلے پانچ تعلیمی سیشن تک یونیورسٹی میں کسی بھی کورس میں داخلہ لینے سے روکنے کا فیصلہ، وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے دیگر عہدیداروں کی سیکورٹی کو لاحق سنگین خطرے کی وجہ سے ضروری تھا، جسکی ابتدا ایک روز قبل وائس چانسلر لاج کے گھیراؤ سے ہوئی اور پھر کچھ طلبہ نے وائس چانسلر کی کار پر حملہ کیا اور اشتعال انگیز زبان استعمال کی۔یونیورسٹی سمجھتی ہے کہ ان طلبہ کی طرف سے اس ہنگامے کا مقصد یونیورسٹی کے پرامن ماحول کو خراب کرنا اور اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ سمسٹر کا اختتام ہونے کو ہے اور مختلف فیکلٹیز میں سمسٹر کے امتحانات شروع ہورہے ہیں، ایسے وقت میں یونیورسٹی، کیمپس میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ دیگر سنجیدہ طلبہ کے کریئر کو نقصان پہنچائے جو اپنے امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں۔دریں اثنا، یونیورسٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر شیئر کیا جانے والا ایک نوٹس، جس میں طلبہ کو ان کی حاضری سے قطع نظر امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی ہے، جعلی ہے۔ امتحانات کنٹرولر کی جانب سے ایسا کوئی نوٹس نہیں جاری کیا گیا ہے۔