उर्दू

فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے کے لئے ،ملک کی سرکردہ شخصیات نے وزیر اعظم کو مکتوب بھیجا

علی گڑھ (شوذب منیر ) مذہبی مقامات کو تنازعہ کو شکار بنا کر ملک کا ماحول خراب کرنے کے خلاف سابق آئی اے ایس ، آئی ایف ایس افسران اور ملک کے سرکردہ افراد نے وزیر اعظم کومکتوب بھیجا ۔
ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی دیرینہ اور ذریں تاریخ ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے کہ جس پر ملک و ملت کو فخر ہے اور آج بھی بیرون ملک کے باشندے حیرت زدہ ہو کر ہندوستان کی جانب دیکھتے ہیں کہ کس طرح مختلف مذاہب، مختلف فکر ،مختلف رسم و رواج کے لو گ مل جل کر ایک ساتھ رہتے ہیں، لیکن پچھلے کچھ برسوں سے امن دشمن عناصرملک کی قومی یکتا اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ملک کی ترقی کو نقصاندہ ہے ۔وہیں کچھ شدت پسند عناصر بھی دانشتہ یا پھر نادانی میں ان امن دشمن عناصر کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، امن دشمن عناصر ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی مقامات پر کب، کہاں مندر ہونے کا دعویٰ پیش کر دیں گےاسکے متعلق پیش گوئی کر نامحال ہے ، ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت اور ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات کو تنازعہ کو شکار بنا کر ملک کا ماحول خراب کیا جا رہاہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ملک کے سرکردہ افراد جس میں سابق آئی اے ایس ، آئی ایف ایس نے وزیر اعظم کواس حوالے سے ایک مکتوب بھیجا ہے۔
اپنے مکتوب میں ان سرکردہ افراد نے لکھاہے کہ محترم وزیر اعظم،ہم آزاد شہریوں کا ایک گروپ ہے، جنہوں نے پچھلے کچھ برسوںمیں ملک میں بگڑتے ہوئے فرقہ وارانہ تعلقات کو بہتر بنانے کی اہم کوشش کی ہیں۔ یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران طبقات ، خاص طور پر ہندوں اور مسلمانوں اور ایک حد تک عیسائیوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، جسکی وجہ سے ان دونوں جماعتوں کو انتہائی بے چینی اور عدم تحفظ کا سامنا ہے۔موجودہ حالات میں ہمارے پاس آپ سے براہ راست مخاطب ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے، حالانکہ ہمیں اسمیں کوئی شک نہیں کہ آپ کو موجودہ حالات کے متعلق اچھی سے آگاہ نہ کیا گیا ہو ۔ مذید لکھا گیاہے کہ ایسا نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں، تقسیم کی کربناک یادیں، اسکے نتیجے میں پیدا ہوئے حالات اور پھر المناک فسادات ہمارے ذہنوں میں سمائے ہوئے ہیں۔ ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ تقسیم کے بعد بھی ہمارا ملک اکثر خوفناک فرقہ وارانہ فسادات کی گرفت میں آتا رہا اور اب صورت حال اس سے بہتر یا بدتر نہیں ہے جو پہلے تھی۔ لیکن پچھلے دس سالوں کے واقعات اس لحاظ سے واضح طور پر مختلف ہیں کیونکہ ریاستی حکومتوں اور انکی انتظامی مشینری کے واضح طور پر متعصبانہ کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا مانا جا رہاہے کہ مسلم نوجوانوں پر گائے کا گوشت لے جانے کا الزام لگا کر غنڈہ گردی، مار پیٹ کے واقعات کے طور پر جو کچھ شروع ہوا تھا وہ ان کے گھروں کے اندر بے گناہ لوگوں کی لنچنگ تک بڑھ گیا، پھرواضح طور پر نسل کشی کے مقصد سے اسلامو فوبک نفرت انگیز تقاریر کی گئیں،وہیں ماضی قریب میں مسلمانوں کے تجارتی اداروں، کھانے پینے کی جگہوں کا بائیکاٹ کرنے، مسلمانوں کو احاطہ (مکان ، گھر، دوکان )کرایہ پر نہ دینےاور خودوزیر اعلیٰ کے کہنے پر مسلمانوں کے گھروں کو ایک بے رحم مقامی انتظامیہ کی قیادت میں بلڈوز کرنے کے مطالبات سامنے آئے، جیسا کہ مختلف میڈیا رپورٹ کیا گیا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ، ۵۴؍ہزارادارے متاثر ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں یا اپنے کاروبار کی جگہ سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلم سماج سے ہے۔
اس طرح کی سرگرمیوں سے نہ صرف ملک کے اقلیتوں کا بلکہ ملک اور بیرون ملک کےسبھی سیکولر ہندوستانیوں کے اعتماد متزلزل ہوئے ہیں، اب تازہ ترین اشتعال انگیزی کا آگاز ہوا ہے، جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ کچھ افراد جو ہندو مفادات کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے قرون وسطی کی مساجد اور درگاہوں پر آثار قدیمہ کے سروے کا مطالبہ کررہے ہیں، تاکہ ان مقامات پر قدیم ہندو مندروں کا وجود ثابت کیا جا سکے۔ عبادت گاہوں کے قانون کی واضح دفعات کے باوجود، عدالتیں بھی اس طرح کے مطالبات کا جواب جلد بازی کے ساتھ دیتی ہیں،جسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے،مثال کے طور پر، ایک مقامی عدالت نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی۱۲ ؍ویں صدی کی درگاہ کے متعلق سروے کا حکم دیاہے ، خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ مسلمانوں اور ہندوستانیوں کے علاوہ ایشیا کے مقدس ترین صوفی مقامات میں سے ایک مانی جاتی ہے،یہ درگاہ ہم آہنگی اور تکثیری روایات کی حامل ہے،ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا، ایک متقی پرہیزگار، صوفی فقیر جوبھکتی تحریک کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور برصغیر پاک و ہند میں ہمدردی، رواداری اور ہم آہنگی کی مثال تصور کیا جاتا ہے،وہ اپنے اقتدار کا دعویٰ کرنے کے لیے کسی بھی مندر کو تباہ کر سکتا ہے؟ یہ سوچنا بھی مضحکہ خیز لگتا ہے۔
مکتوب میں مزید لکھا گیا ہے کہ آپ کے سمیت ملک کے سبھی وزرائے اعظم نے امن اور ہم آہنگی کے پیغام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خواجہ غریب نواز کے سالانہ عرس کے موقع پر ‘چادریں بھیجی ہیں، اس منفرد ہم آہنگی والی جگہ پر ایک نظریاتی حملہ ہمارے تہذیبی ورثے پر حملہ ہے، جو ایک جامع ہندوستان کے تصور کو بگاڑ دیتا ہے جسے آپ خود دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں۔
وہیں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آپ کا ترقی یافتہ بھارت کا خواب اور ترقی یافتہ سماج اس طرح کے تنازعات سے ترقی نہیں کر سکتا یا پورا نہیں ہوسکتا ہے۔یہ بھی لکھا ہے کہ ہم سب نے ملک کے باشندہ کے طور پر ملک اوربیرون ملک میں اپنی صلاحیتوں کو با روئے کار لا کر ،حکومت ہند کے لیے خدمات کرتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اور ہمیں یہ یقین ہے کہ آپ واحد شخص ہیں جوسبھی غیر قانونی، نقصاندہ سرگرمیوں کو روک سکتے ہیں۔ لہذا، ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وزرائے اعلیٰ اور انکے ماتحت انتظامیہ قانون اور آئین ہند کی پابندی کریں، کیوں نکہ انکے فرائض میں کسی قسم کی کوتاہی ناقابل تلافی مشکل کا باعث بنے گی۔وہیںآپکی صدارت میں ایک بین المذاہب میٹنگ کی فوری ضرورت ہے جہاں آپ کو ایک جامع بھارت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہندوستان سب کے لیے ایک سرزمین ہے، جہاں صدیوں سے مختلف عقائد کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور کسی بھی فرقہ پرست طاقت کو ملک کی منفرد تکثیری اور متنوع میراث کو تباہ کرنے کی اجازت نہیںدی جائےگی،یہ وقت اہم ہے اور ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ سبھی ہندوستانیوں، خاص طور پر اقلیتی طبقات کو یہ یقین دلائیں کہ آپ کی حکومت فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم پر ثابت قدم رہے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی گزارش کرتے ہیں کہ اگر ہمارے درمیان سے کسی چھوٹے وفد کو آپ سے ملاقات کے لیے وقت دیا جائے۔
مکتوب لکھنے والوں کے نام
۱۔این سی سکسینہ آئی اے ایس (ریٹائرڈ) سابق سکریٹری، پلاننگ کمیشن آف انڈیا
۲۔نجیب جنگ آئی اے ایس (ریٹائرڈ) سابق لیفٹیننٹ گورنر، دہلی
۳۔شیو مکھرجی، آئی ایف ایس (ریٹائرڈ) برطانیہ میں ہندوستان کے سابق ہائی کمشنر
۴۔امیتابھ پانڈے آئی اے ایس (ریٹائرڈ) سابق سکریٹری، بین ریاستی کونسل، جی اوآئی
۵۔ایس وائی قریشی آئی اے ایس (ریٹائرڈ) سابق چیف الیکشن کمشنرآف انڈیا
۶۔نوریکھا شرما آئی اے ایس (ریٹائرڈ) انڈونیشیا میں ہندوستان کی سابق سفیر
۷۔دھو بھدوری آئی ایف ایس (ریٹائرڈ) پرتگال میں سابق سفیر
۸۔لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ (ریٹائرڈ)سابق وائس چیف آف آرمی اسٹاف
۹۔روی ویرا گپتا آئی اے ایس (ریٹائرڈ) سابق ڈپٹی گورنر، ریزرو بینک آف انڈیا
۱۰۔راجو شرما آئی اے ایس (ریٹائرڈ)، سابق ممبر، بورڈ آف ریونیو، حکومت اتر پردیش
۱۱۔سعید شیروانی کاروباری، مخیر حضرات
۱۲۔آوے شکلا آئی اے ایس (ریٹائرڈ) سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری، حکومت ہماچل پردیش
۱۳۔شاہد صدیقی سابق ایڈیٹر، نئی دنیا
۱۴۔سبودھ لال آئی پی او ایس (استعفیٰ) سابق ڈپٹی . ڈائریکٹر جنرل، مواصلات کی وزارت، جی او آئی
۱۵۔سریش کے گوئل آئی ایف ایس (ریٹائرڈ)سابق ڈی جی،