حادثے شخصیتوں کی تعمیر کرتے ہیں اور گہے یہ بھی ہوتا ہے کہ شخصیتوں سے حادثے سرزد ہوتے ہیں۔ طرزی اسی خانے میں آتے ہیں۔ حادثوں نے ہی ان کی شخصیت کی تعمیر کی ہے لیکن ایسی بھی نہیں کہ ان کی ذات سے کوئی حادثہ ¿ عظیم سرزد ہو۔ پروفیسر طرزی کی پیدائش ۹۱ محرم الحرمن ۷۵۳۱ھ کو ہوئی تھی۔ رنج والم کی تمام داستانیں جو اب تک بڑے خلوص کے ساتھ ان کی رفاقت کا دم بھر رہی ہیں ان کے خلقی ورثے میںملی ہیں۔ ان کا تاریخی نام ”مظاہر السمیع“ ہے جس کو سوائے طرزی صاحب کے کوئی اورنہیں جانتاکہ صدر جمہوریہ ہند سے تاحیات ایوارڈ یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی سے روبرو ہیں۔ ہم جنا ب عبدالمنان طرزی کے شکر گزارہیں کہ انہوں نے ہمیں بات چیت کے لیے اپنا قیمتی وقت عنایت کیا۔
خوشتر: طرزی صاحب سب سے پہلے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟
طرزی: خوشتر صاحب! ہمارے والدؒ پوری زندگی، معلم، مقرر اور امام رہے۔ انہوں نے چار سال کی عمرمیں میری بسم اللہ کرائی اور براہِ راست ان سے حصولِ تعلیم کا سلسلہ رہا۔ چنانچہ میں صرف سولہ برس کی عمر میں حافظ قرآن بحمد اللہ ہوگیا۔ میری جسمانی ساخت کچھ ایسی تھی کہ سولہ برس کا ہونے پر بھی سولہ برس کا نہیں لگتا تھا۔ مجھے تراویح سنانے کے لئے تقریباً دو سال انتظار کرنا پڑا۔ لوگ مجھے ”بچّہ حافظ“ کہتے تھے۔ گھر کا ماحول دینی تھا۔ جب میرا ایک پارہ حفظ پورا جاتا تو والدہؒ ایک روزہ رکھتیں۔ ہر جمعرات کو وہ پابندی سے مجھے مسجد میں جھاڑولگانے کوکہتیں۔ اللہ پاک ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے۔ والد سے ہی میں نے اردو وفارسی کی کتابیں پڑھیں۔ گلستاں ، بوستاں ،پند نامہ والد صاحب سے ہی پڑھا۔ اس کے بعد عربی پڑھنے کے خیال سے مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ،دربھنگہ میں داخل ہوا۔ مولانا مقبول احمد خاںؒ، ناظم اعلیٰ نے مجھے یہ سہولت نہیں دی کہ میری صلاحیت کی بنیاد پر وسطانیہ میں میرا داخلہ ہو جبکہ فضل کبریا کوایسا موقع دیا گیا۔ میں نے عربی پڑھنے کا خیال دل سے نکال دیا اور اختر الایمان کی طرح اپنا ٹین کا بکس سر پر رکھا اور پیدل دربھنگہ سے جلوارہ آگیا۔ گھر پر رہ کر ماسٹر نورالہدیٰ صاحب اللہ ان کی مغفرت فرمائے سے انگریزی تعلیم کاسلسلہ شروع ہوا اور ایک سال کے بعد پنڈراچ ہائی اسکول میں آٹھویں درجہ میں داخلہ کرایا اور ۷۵۹۱ءمیں میٹرک پاس کیا۔ فرسٹ ڈویزن میں انیس نمبر کی کمی رہ گئی۔
خوشتر: آپ کی طلب علمی کے زمانے میں وسائل کی کمی تھی ، کتابوں کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا ، مطالعہ کے لیے آپ کیاکرتے تھے؟
طرزی: آپ کا اندازہ صحیح ہے۔ مدرسوں میں تو یہ طریقہ آج بھی ہے کہ ۸۔۰۱ طلبا ایک ساتھ استاد کے سامنے ایک کتاب میں درس لیتے ہیں۔ میٹرک تک نصابی کتابیں مل جاتیں ہیں۔ کالج میں کتابوں کی فراہمی میں مشکل پیش آتی ہے۔ ادباءو شعرا نصاب تیار کرنے والوں سے اپنے تعلق کی بناپر اپنی کتاب نصاب میں شامل تو کرادیتے اور وہ کتاب آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی۔ اس مشکل کو ہم لوگ اس طرح حل کرتے کہ اگر کالج کی لائبریری میں مطلوبہ کتاب ہے تو ہفتہ دو ہفتہ کے لئے نام پر لے کرممکنہ سوالات کے جوابات تیار کرلیتے ۔ ایسا بھی ہوتا کہ بھارتی بھون ناولٹی طباعتی ادارے notesتیار کراکر بازار میں displayکر دیتے۔ آنرس (اردو) اسٹیج میں Abrosنامی ایک دوکان اسمعیل گنج میں تھی۔ جس کے کسی رشتہ دار کی وجہ سے جو پاکستان میں رہتے تھے اس کو پاکستانی اعلیٰ نصاب معاون کتابیں حاصل ہوجاتیں اور ہم لوگ Abrosسے کافی اچھی اورنادر کتابیں حاصل کر لیتے۔ جب میں بی اے اور ایم اے کا امتحان دینے والا تھا تو میں سرکاری ملازمت میں آگیا تھا اس لئے کتاب کی خریداری میںمجھے مالی پریشانی نہیں تھی۔ یہاں ایک بات واضح کردوں کہ میں میٹرک کے بعد سرکاری دفتر میں کلکرک ہوگیا تھا۔ آئی اے اور اردو آنرس، ایم اے اردو اور فارسی اور ایل ایل
میرے تحقیقی مقالے کا موضوع ”نواب سید سعادت علی خاں پیغمبر پوری حیات و خدمات“ تھا۔ وہ صاحبِ دیوان شاعر گزرے ہیں۔ داغ دہلوی کے شاگردوں میں تھے۔ کئی رسائل و جرائد کے مربی اور سرپرست تھے۔ ان کا دیوان مطبع نول کشور، لکھنو ¿ سے بڑے اہتمام سے چھپا تھا۔ ان دنوں لاکھ روپے سے زیادہ خرچ آیا تھا۔ نہایت منقش، دیدہ زیب اور خوبصورت۔ ہر صفحے پر الگ الگ نقش نگاری کئی رنگوں میں تھے۔ میرے نگراں پروفیسر مطیع الرحمن علیہ الرحمن تھے جو ان دنوں صدر شعبہ ¿ اردو پٹنہ یونیورسٹی تھے۔
خوشتر: ملازمت کی تفصیل بتائیں کب اور کہاں سے شروع کی؟
طرزی: میں نے میٹرک کے قبل ہی حالات کے پیش نظر طے کرلیا تھا کہ پاس کرنے کے بعد نوکری کرلوں گا۔ مجھے سے چھوٹے پانچ بھائی تھے اور دو بہنیں تھیں۔ ان کے مستقبل کو بنانے کی ذمہ داری کا احساس مجھ کو اپنی تعلیمی ڈگریوں سے زیادہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ والد علیہ الرحمة نے دوسری شادی کرلی تھی۔ تقریبا ساڑھے تین برسوں تک مختلف نوعیت کی چھوٹی چھوٹی ملازمت کی۔ نشاط فیشن بوٹ ہاو ¿س لور چیت پور روڈ کول کاتا جوتے کی دکان میں (سیلس مین)، آسنسول اور بہار شریف کے صابن کے کارخانوں میں فیلڈ آفیسر اور مدرسہ امانیہ لوام اور بائسی مڈل اسکول پورنیہ میں معلم رہا۔ جنوری ۱۶۹۱ءتا جولائی ۲۷۹۱ءکلرک رہا۔ کنور سنگھ کالج لہریا سرئاے میں لکچرر رہا۔ پھر بی پی ایس سی سی ایم کالج ، دربھنگہ میں لکچرر بحال ہوا۔ ۱۸۹۱ءمیں متھلا یونیورسٹی کے اگزامینیشن ڈپارٹمنٹ میں ایک سال آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی رہا۔ اسی سال نومبر میں پی جی ڈپارٹمنٹ آف اردو میں تبادلہ ہوگیا جب سے تا سبکدوشی ¿ ملازمت (جولائی ۰۰۰۲ئ) وہاں رہا پھر بحمد اللہ بحیثیت یونیورسٹی پروفیسر باعزت متقاعد ہوا۔
خوشتر: آپ کی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ کون سا ہے؟
طرزی : آپ اپنے سوال میں یادگار، خوش گوار اسم صفت کے ساتھ ایمان افروز بھی بڑھادیجئے تو میرا جواب مکمل ہوگا۔ واقعہ کو میں بہت اختصار کے ساتھ بیان کر رہا ہوں۔ ۸۵۹۱ءمیں بہار شریف کے ایک صابون کارخانے Arbi Soap Factory جو محلہ پل پر واقع تھا، میں نے Field Officer کی حیثیت سے تقریبا دس روز کام کیا تھا۔ ایک دن کارخانے کے Iron Safe کے نیچے میں نے تین سو روپے پڑے ہوئے دیکھے۔ اس رقم کو میں نے رکھ لیا۔ بعد میں Cashierکو رقم کی کمی کا احساس ہوا۔ کمپنی کے تمام ملازمین سے پوچھا گیا سب نے لا علمی ظاہر کی اور میں نے بھی۔ رات کو تقریبا تین بجے مجھے اپنے جرم کا احساس ہوا۔ میں نے وہ رقم مالک کارخانہ کے بستر پر آہستہ سے جاکر رکھ دی جس پر وہ آرام کر رہے تھے۔ صبح سب کی رائے ہوئی کہ اب تو اور بھی پتہ لگانا ضروری ہے۔ کچھ ملازمین جو یہاں رات کو رہتے ہیں ان میں سے کسی نے رقم داب رکھی تھی۔ بہر حال اسی شہر میں ایک شخص تھا جس کے پاس ایک کتّا تھا اور وہ اپنے کتے کے ذریعہ سچائی کا پتہ لگادیتا تھا۔ چنانچہ اسی کو بلایا گیا۔ تمام ملازمین (تقریبا تیس) ایک دائرہ بناکر کھڑے ہوگئے۔ کتے والے نے کہا کہ جس کا جی چاہے وہ کتے سے سوال پوچھ کر اس کے جواب سے مطمئن ہوجائے کہ یہ صحیح جواب بتاتا ہے یا نہیں۔ ایک لطف کے طور پر سب نے ضرورت سے زیادہ ہی سوالات کئے اور کتے نے صد فی صد صحیح جواب بتلایا۔ مثلاً کس کا نام احمد ہے۔ کون کہاں کا رہنے والا ہے، کس کی جیب میں اس وقت سب سے زیادہ روپیہ ہے اور جواب میں کتا اس آدمی کے پاو ¿ں پر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے اپنی پیش آنے والی ذلت ورسوائی کا احساس ایسا حواس باختہ کئے ہوا تھا کہ سارے لوگوں کا مجھ پر ہی شبہ تھا۔ کتے سے ایک سوال یہ بھی کیا گیا تھا کہ مالک کارخانہ کو کس پر شبہ ہے۔ تقریبا ۶۔۷ آدمیوں کے پاو ¿ں پر وہ بیٹھا جس میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں نے دل ہی دل میں توبہ استغفار کیا اور حضرت بڑے پیر کے نام پر فاتحہ پڑھ کر ذلت ورسوائی سے ان کے صدقے میں اللہ سے بچالینے کی دعا کی۔ فائنل شو ہوا اور کتے سے روپیہ لینے والے کا نام پوچھا گیا وہ اس کارخانے کے باورچی کے پاو ¿ں پر بیٹھ گیا جو بہت ایماندار آدمی سمجھا جاتا تھا۔ کسی کو یقن نہیں ہورہا تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ یہ عمل کیا گیا۔ کتے کی آنکھ پررومال باندھ دیا گیا اور پھر کتے کا جواب وہی تھا۔ اس واقعہ کے ۲۔۳ گھنٹے بعد میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور گھر واپس آگیا۔
خوشتر: آپ فارسی زبان کے بھی اسکالر ہیں فارسی پڑھنے کا شوق کس طرح پیدا ہوا؟
طرزی: فارسی میں نے حافظ ہونے کے بعد اور اسکول میں داخلہ لینے سے قبل تک والد ہی سے پڑھی تھی ۔ نوکری میں آجانے کے بعد ایک بڑے قابل اور مشفق استاد مل گئے۔ شفیع مسلم ہائی اسکول میں آرہ کے رہنے والے ایک استاد تھے جنید صاحب ۔ اللہ مغفرت فرمائے ان کی ، ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ والد صاحب ”اقبال منزل“ بڑھی میں جب امام و خطیب و معلم کی ذمہ داری نبھایا کرتے تھے تو میں والد صاحب کے ساتھ ہی رہتا تھا ۔ حاجی عبدالغفار صاحبؒ کی بڑی شاندار لائبریری تھی ۔ اس کی کنجی والد صاحب کے پاس ہوتی تھی اس لئے مجھے کتابوں سے عشق وہاں کی ہی دین ہے۔
خوشتر: فارسی کے کن اساتذہ سے آپ نے استفادہ کیا؟
طرزی: جیسا میں نے اوپر بیان کیا والد صاحب سے اورمولانا جنید صاحب سے اللہ مغفرت فرمائے ۔ جن کے کلام سے میں فیضیاب ہوا وہ ہیں شیخ سعدی، حافظ، عطار اورمولانا جلال الدین رومی۔
خوشتر: آپ کے نزدیک ہندوستان خاص طور سے بہار میں فارسی زبان کے زوال کے کیا اسباب ہیں؟
طرزی: ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ کبھی فارسی کے عروج کا زمانہ تھا تو مسلمان چھوڑئے، غیر مسلم فارسی شعراءچمنستانِ ہند میں بلبل خوش نوا کامقام حاصل کئے ہوئے تھے۔ میری ایک تالیف طباعتی مرحلے میں ہے۔ کئی غیر مسلم شعرا نے ایسی اعلیٰ درجے کی فارسی نعتیں کہی ہیں کہ بڑی حیرت ہوتی ہے ۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد شاداں، شگفتہ لکھنوی، قیس جالندھری لالہ امر ناتھ، ہر کشن لال پنڈت ، سائل سہارنپوری وغیرہ کا فارسی کلام میں نے دیکھا ہے۔ اب تعلیم ذریعہ معاش ہے۔ فارسی پڑھنے پر تو تیل ہی بیچنا مقدر ہے اس لئے ہم فارسی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
خوشتر: کیا ہندوستان میں فارسی شاعری کا چراغ گل ہوچکا ہے؟
طرزی: تقریباً
خوشتر: آپ نے اردو کے علاوہ فارسی زبان میں بھی شاعری کی ہے جس نے
آپ کو ایران تک پہنچایا۔ یہ سب کیسے ہوا؟
طرزی: غالبا ۰۱۰۲ءکی کسی مہینے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ میں دہلی سے دربھنگہ آر ہا تھا ACII میں اپنی جگہ لے چکا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک صاحب تشریف لائے جو اپنی شبیہ سے انگریز معلوم ہوتے تھے لیکن انہوں نے مجھے سلام کر کے میرے گمان کو خارج کردیا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے فرمایا آپ طرزی صاحب ہیں نا؟ میں نے کہا جی میں ہوں تو طرزی، لیکن آپ طرزی شناس کیسے ہوئے؟ پھر انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور مجھے یاد دلایا کہ ہم لوگ حیدر آباد یونیورسٹی حیدر آباد کے سہ روزہ سیمینار میں جو جلا الدین رومی پر تھا، ساتھ تھے۔ سفر پر لطف رہا اور بہت حد تک ادبی۔ ڈاکٹر محمود عالم صاحب جہان آباد گیا کے رہنے والے ہیں۔ جے این یو میں فارسی شعبے سے بحیثیت پروفیسر سبکدوش ہوئے اور اب گڑگاو ¿ں میں مقیم ہیں۔ بہت مشفق ومہربانِ ذی علم اور نیک وشریف انسان ہیں۔ انہوں نے پورا واقعہ میری کتاب قد آوراں پر فارسی زبان میں تقریظ کی صورت میں رقم کیا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کو صدر جمہوریہ ہند سے جو فارسی دانی پر سند اعزاز اور انعام ملتا ہے وہ ملا ہے؟ میں نے کہا کہ میں تو جانتا بھی نہیں ہوں کہ ایسا ہوتا ہے اور مجھے کون دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان شاءاللہ میں دلواو ¿ں گا۔ آپ درخواست دیجئے۔ درخواست دیا۔ ۱۱۰۲ءمیں وہ طرزی نوازی میں ناکام رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو اس کمیٹی کے چیئرمین تھے ان سے ڈاکٹر محمود عالم صاحب کے تعلقات کشیدہ تھے۔ دوسرے سال ۲۱۰۲ میں میں نے ڈاکٹر محمود عالم صاحب سے کہا کہ آپ اب اس معاملے سے باہر رہئے اور میں چیئرمین صاحب سے براہ راست واسطہ پیدا کرتا ہوں۔ میں نے چیئرمین صاحب پر طویل نظم لکھی اور ان کے گھر پر گیا۔ ان کی اہلیہ بھی فارسی کی پروفیسر ہیں۔ غرضیکہ اللہ رب العزت کا کرم ہوا اور میں عزت مآب صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں۲۱۰۲ءمیں نوازا گیا۔ اس انعام کے تحت تا حیات ۰۵ ہزار روپیہ سالانہ ملتا ہے۔ ہر سال ماہ اگست میں یہ رقم عطا کی جاتی ہے۔
خوشتر: آپ بحیثیت نظم نگار مشہور ہیں۔ آپ کے منظوم تبصروں اور منظوم مقالوں پر مشتمل کتابیں آچکی ہیں۔ آپ اپنی زود گوئی کے لیے بھی جانے جاتے ہیں ۔ آپ اپنے خیالات کو الفاظ کاپیکر کس طرح دیتے ہیں؟ کیا آپ طویل نظمیں ایک نشست میں ہی مکمل کر لیتے ہیں یا سلسلہ قسطوں میں پورا ہوتا ہے؟
طرزی: میری شعری تصنیفات و تالیفات کو نفس مضمون کی بنیاد پر آپ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک جس میں خیالات و افکار کی بوقلمونی و جلوہ سامانی ہے دوسرا حصہ دقائع نویسی پر مبنی ہے۔ پہلی نوعیت پر مبنی ”آیات جنوں“ اور ”آہنگ غزل“ ہے۔ باقی سارا کلام وقائع نویسی کے زمرے میں آتا ہے۔ وقائع نویسی میں شعریت کے جوہر دکھانے کاموقع کم ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بھی میں نے کچھ خاص بات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آہنگ غزل کے مقدمہ میں نارنگ صاحب فرماتے ہیں”دیکھا جائے تو بہت کم عرصے میں انہیں (راقم الحروف کو)ریکارڈ اشعارکہنے کا شرف حاصل ہے اور میں کہتا ہوں کہ ان کے اشعارفقط تعداد و قادر الکلامی ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ تازگی و ندرت و شعریت کی وجہ سے بھی اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ان کے طرز اظہار میں جو نظم و ضبط اور رکھ رکھاﺅ ہے اس سے ان کا شاعرانہ انفراد و امتیاز نمایاں ہوتا ہے۔ الفاظ کے درو بست میں غزل کے تہذیبی و ثقافتی عناصر کی کارفرمائی ان کے کلام کو تہہ داری عطا کرتی ہے اور یہ ان کا وصف خاص ہے“ ۔ میں بلا تکلف ایک دن میں سو سے زیادہ اشعار کہہ لیتا ہوں۔ دو ماہ قبل ایک اور خوش کن تجربے سے آشنا ہوا۔ ۲۷۳ غیر مسلم نعت گویوں کا منظوم تذکرہ لانے کامیرا منصوبہ تھا ۔ سروائیکل پین کی وجہ سے لکھنے پڑھنے سے ڈاکٹر نے روک دیا۔ رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں روزہ پندرہ نعت گو شاعروں کے بارے میں اشعار عزیزی عثمانی صاحب کو جو میرے مکان میں کرایہ پر ہیں کو اس طرح ڈکٹیشن دیتا جیسے نثر میں۔ میں خود بھی اللہ پاک کے اس فضل سے خوش ہوا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ ایک ماہ سے کم ہی عرصے میں یہ کتاب تیار ہوگئی۔
خوشتر: طرزی صاحب ہندوستان اور خاص طور سے بہار میں اردو کے مستقبل کے سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟
طرزی: الحمد للہ ، فصل لالہ کاری ولالہ زاری کے مترادف ہے۔ میرا خیا ل ہے کہ بہار تمام ریاستوںمیں اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے سر فہرست ہے۔ کمپیوٹر کی وجہ سے طباعتی و اشاعتی مشکل مرحلے آسان ہوگئے ہیں۔ بہار اردو اکادمی اور راج بھاشا اردو بھی اردو ترویج و ترقی کے بڑے کام کر رہی ہے۔
خوشتر: نئی نسل کے تخلیق کاروں اور قلم کاروں میں کن ناموں نے آپ کومتاثر کیا ہے یہ بتائیں کہ اردو ادب کو نئی نسل سے جو امیدیں وابستہ ہیں اس پر وہ کس طرح کھڑے اتر رہے ہیں؟
طرزی: ایک دو نام نہیں ہیں جن کی خدمات و کاوشات سے متاثر ہوں۔ قافلہ جانب منزل رواں ہے۔ اردو ادب کی مقبولیت کو دو چار افراد کی کم نگاہی کیا نقصان پہنچائے گی کیونکہ گیسوئے اردوکے شانہ طرازوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اردو ادب کو نئی نسل سے جو امیدیں وابستہ ہیں وہ خوب خوب پوری ہورہی ہیں۔
خوشتر: سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز نے اردو رسائل کی دنیا میں ایک شناخت بنالی ہے اس کے خصوصی نمبرات پسند کیے گئے ہیںَ آپ اس رسالہ کو دوسرے رسالوں سے کس طرح منفرد پاتے ہیں؟
طرزی: مختصرجواب کے لئے شاداں فاروقی صاحب کا ایک شعر کافی ہے
بڑی سرعت سے منزل آگئی ہے
مبارک باد رقصِ تیز گامی
خوشترسلمہ ¾! اردوکے لئے آپ کی بے لوث خدمت ، دربھنگہ ٹائمز کے لئے آپ کی محنت ، مشقت اور خوب سے خوب تر کی جستجو نے ہی اس کومعتبر، منفرداور بین الاقوامی پذیرائی حاصل کرائی ہے۔
خوشتر: ہندوستان میں ادب کے موجودہ منظر نامہ سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
طرزی: ہندوستان میں اردو ادب کے موجودہ منظر نامے سے میں بہت مطمئن ہوں
ہر اک عہد کے ہیں تقاضے الگ
حقیقت الگ تو فسانے الگ
بہت وضع دارانہ سب سے ملی
محافظ رہی اپنی پہچان کی
تغیر پسند و ترقی پذیر
ہے اردو کا کچھ ایسا خود ہی خمیر
لچکدار مٹی سے ہے جو بنی
زمانے کے یہ ساتھ چلتی رہی
خوشتر: کوئی ایسا سوال جو میرے پوچھنے سے رہ گیا یا آپ میرے سوالات کے علاوہ اور کچھ کہنا چاہتے ہوں؟
طرزی: اچھا کیا، آپ نے یہ سوال کر کے میری ایک خلش دور کردی۔ میں نے کسی جواب میں یہ بتایاہے کہ اصناف سخن کی چار شقوں میں منظوم پیرایہ ¿ اظہار کی بنا پر مجھے اجتہادانہ حیثیت حاصل ہے۔ منظوم تذکرے (رفتگاں وقائماں) سے جس کی ابتدا ہوتی ہے ۔ اس کے بعد منظوم مقالے کا مقام آتا ہے۔ منظوم مقالوں کی صرف کتاب ہی آکر رہ جاتی تو کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔ ان مقالوں کو قومی اور بین الاقوامی سمیناروں میں پڑھنے کا موقع ملا وہ میری مقبولیت و شہرت کے در کھولتا ہے۔ ان میں سے چار ساہتیہ اکاڈمی ، ایک (پریم چند) این سی پی یو ایل، ایک (جلال الدین رومی ، حیدر آباد یونیورسٹی) اور ایک (امام غزالی) الٰہ آباد میں منعقد ہوا تھا۔ منظوم مقالہ نویسی کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ ساہتیہ اکاڈمی سے ولی دکنی پر مجوزہ سیمینار کی دعوت نارنگ صاحب کی طرزی نوازی کے نتیجے میں ملی۔ بہت ہی ہلکے اندازمیں ڈاکٹر محمد ارشد جمیل مرحوم نے کہا کہ مقالہ منظوم ہی لکھئے۔ اللہ مغفرت فرمائے ان کی۔ نہ جانے کیسی ساعت میں یہ مشورہ انہوں نے دیا تھا۔ تقریبا پچاس ساٹھ اشعار جب ہوگئے تو میں نے نارنگ صاحب کو فون کیا کہ میرا مقالہ منظوم ہوگا ۔ انہوں نے جوابا ً کہا کہ منظوم مقالہ کیا ہوتا ہے۔ مزید کہا کہ آپ پورا مقالہ بھیج دیجئے، دیکھنے کے بعد فیصلہ ہوگا اور میں نے ایسا ہی کیا۔ ساہتیہ اکاڈمی کے سمینار عام طور پر کم از کم ایک ماہ قبل دعوت اور موضوع دیا جاتا ہے۔ سہ روزہ سیمینار تھا۔ تینوں دن سیمینار کا مقام بدلتا رہا۔ مجھے آخری دن ، آخری سیشن میں پڑھنے کا موقع ملا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہال میں منعقد ہوا تھا۔ ولی دکنی والے سیمینار (دہلی) اور پریم چند والے سیمینار (لکھنو ¿) کا آنکھوں دیکھا حال دو عظیم ہستیوں (پروفیسر وہاب اشرفی اور پروفیسر شارب ردولوی) نے تحریر فرمایا ہے۔ دونوں حضرات کی یہ قیمتی رائے میری دو الگ الگ کتابوں میں ان کے مقالے کی حیثیت سے محفوظ ہے۔ اشرفی صاحب نے لکھا ہے پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سیشن کی صدارت نثار احمد فاروقی صاحب نے فرمائی تھی۔ ڈاکٹر قمر رئیس نے کہا کہ ولی کو اس عمدگی سے تو نثر میں بھی پیش نہیں کیا جاسکتا اور نثار احمد فاروقی صاحب نے کہا کہ نارنگ صاحب پورے ہندوستان کی خبر رکھتے ہیں۔ کیسے کیسے لوگوں لوگوں کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اس کے بعد نارنگ صاحب مائک پر آئے اور اس وقت ان کا سینہ ساٹھ انچ کا نظر آرہا تھا۔ کیونکہ عام صورت میں تو وہ چھپن انچ کا ہے ہی اور میرے سلسلہ میں کچھ باتیں کہیں۔ میری مقالہ خوانی کا منظر ادھورا رہ جائے گا اگر میں تعریف و تحسین کے ایک پہلو کا بیان نہیں کروں۔ ولی دکنی والے مقالے کے بعد میں نے دہلی میں دو اور سمینار میں منظوم مقالے پڑھے۔ میرے مقالہ (منظوم) پڑھنے کا جب موقع آتاتھا تو بہاری طرزی نواز حضرات جس میں کوثر مظہری، پروفیسر مولا بخش اور پروفیسر شیخ عقیل وغیرہ ہوتے تھے ، ایک صف میں کھڑے ہو کر باضابطہ اور منصوبہ بند طریقے سے داد دیتے تھے۔ پروفیسر شارب ردولوی نے تفصیل سے لکھنو ¿ والے سیمینار کا حال لکھا ہے۔ ابھی حال میں ڈاکٹر احسان کے ذریعہ ترتیب دی گئی ایک کتاب میں ان کا مضمون شامل ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ طرزی اس کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ منظوم گفتگو کرسکیں۔ (طرزی ذات سے شعری کائنات تک صفحہ۶۳)اسی سیمینار کے ایک معزز مقالہ خواں ڈاکٹر سید تقی عابدی (کناڈا) ایک خط (مطبوعہ) میں رقم طراز ہیں کہ آپ جیسی نامور شخصیت کو سمندر پار آنا چاہیے۔ مکتوبات صفحہ (۹۷)
”منظوم مقالے“ میری مطبوعہ کتاب ہے جس میں تقریبا چالیس منظوم مقالے ہیں۔ معاف فرمائیے گا جواب کچھ زیادہ مفصل ہوگیا۔
خوشتر: آپ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ آپ بحمد اللہ حافظ قرآن ہیں بھی اور حافظ آپ کے نام کا حصہ بھی ہے ، ایسا کیسے ہوا؟
طرزی: ۲۵۹۱ءمیں حافظ ہونے کے بعد میں نے کچھ دنوں تک گھر میں رہ کر عصری تعلیم کی تیاری کی اور پنڈارچ ہائی اسکول درجہ ہشتم میں داخلہ کرایا۔ اتفاق سے ایک اور میرے ہمنام ۲۔۳ دن کے بعد داخلہ لیا۔ اگرچہ ان کے نام کے ساتھ خان کا لاحقہ تھا مگر میرے اسکول کے مولانا صاحب مولانا عبدالحفیظ ساکن موضع برداہا نے بغیر مجھ سے پوچھے میرے نام کے ساتھ حافظ بڑھوادیا ۔ اگرچہ مجھے یہ سابقہ پسند نہیں تھا لیکن استاذ نے ایسا کیا تھا اس لئے میں نے اسے گوارا کیا۔
خوشتر: نوجوانوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
طرزی: بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا روشن شررِ تیشہ سے ہے خانہ ¿ فرہاد