علی گڑھ (شوذب منیر)گزشتہ چھ برسوں سےعلی گڑھ مسلم یو نیوسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ یونین انتخابات نہ کرائے جانے کا معاملہ اب عدالت میں پیش ہو چکا ہے۔ طلبہ برادی نے یونین کی بحالی کے لئے اے ایم یو انتظامیہ کو میمورنڈم دیا، احتجاج کیا، دھرنادیا ،لیکن اے ایم یو انتظامیہ طلبہ یونین کے انتخابات نہ کرانے کے لئے مختلف حیلے تلاش کرتی رہی ، اے ایم یوانتظامیہ کا اپنے طلبہ کے تئیں جو رویہ اختیار کیا ،اس رویہ سے طلبہ یونیورسٹی انتظامیہ سے نامید ہو گئے ۔طلبہ برادری نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر ، زمانے کو یہ احساس کرا دیا کہ انتظامیہ سے اوپر عدالت موجود ہے، ملک میں عدالت کی بالا دستی قائم ہے،جہاں طلبہ یونین کے لئے مسلم یونیورسٹی انتظامیہ سے ناامید ہیں ،وہیں انہیں عدالت پر یقین کامل ہے وہاں سے انصاف ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ عدالت کبھی بھی مظلوموں کی سرپرستی، دادرسی سے پیچھے نہیں ہٹی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی عوام میں عدالت کا وقار قائم ہے،کیونکہ بندہ اللہ کے بعداگر کسی سے انصاف کی امید کرتا ہے تو وہ عدالت ہی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار اے ایم یو کے فیکلٹی آف لاء کے ایل ایل ایم کے طالب علم سید کیف حسن صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی ، واضح رہے کہ سید کیف حسن نےہائی کورٹ میں اے ایم یو میں طلبہ یونین کا انتخابات کرانے کے لئے پی آئی ایل داخل کی ہے۔درخواست گزار کی قیادت ایڈووکیٹ ندیم انجم، علی بن سیف اور ذیشان خان نے کی ہے
عرضی گزار سید کیف حسن نے آباد مارکیٹ میں واقع نیچرز کیفے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عدالت میں اے ایم یو کے وکیل کو یونیورسٹی کے ذریعہ وضاحت داخل کرنی پڑیں۔ یونیورسٹی نے اپنی انتخابات نہ کرائے جانے کی وضاحت میں نامساعد حالات اور امتحانات کا حوالہ دیا ہے ۔
سید کیف حسن نے مذید کہا کہ عدالت نے گزشتہ چھ سال سے انتخابات نہ کرانے پر تنقید کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وکیل سے پوچھا کہ اسکی کیا وجہ ہے؟ انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔ جس پر
یونیورسٹی کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کرائے جائیں گے ،لیکن امتحان اورحالات کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ معزز عدالت نے واضح طور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حالات اور تعلیمی سرگرمیاں طلبہ یونین کے انتخابات نہ کرانے کی وجہ نہیںبن سکتی کیونکہ تعلیمی سرگرمیاں سال بھر جاری رہتی ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے یونیورسٹی کی ہدایت میں ابہام کے باعث معزز عدالت نے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو جوابی حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
سید کیف حسن نےمذید کہا یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنی وضاحت میں جو وجہیں بتائیں ہیں،جو طلبہ یونین اور یونیورسٹی کی شبیہ کے برعکس ہے، انہوں نے الزام لگا تے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمیں عدالت جانے پر مجبور کیا، ہمیں یقین ہے کہ عدالت سے انصاف ہوگا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ آئندہ باقاعدہ بنچ میں اے ایم یو کی اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے قانونی جنگ لڑنے کے لیے طلبہ یونین کا ہونا ضروری ہے۔
وہیں درخواست گزار کے وکیل ندیم انجم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ معزز سپریم کورٹ کے حکم کے تحت طلبہ یونین لازمی ہے اور لنگ دوہ کمیٹی کی سفارشات ملک کے لیے قانون کا مسودہ ہے، ہائی کورٹ کے تبصرے سے ہمیں امید ہے کہ جلد ہی عدالت ضابطہ کے مطابق طلبہ یونین کے انتخابات کرانے کے احکام صادر کرئے گی ، وہیں انہوں نے اے ایم یو انتظامیہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ مناسب وقت پر اپنا فیصلہ لیں اور طلبہ یونین کے انتخابات کرالیں ، اسمیں دونوں فریق کی بہتری ہے۔
اے ایم یو کے سینئر طالب علم احمر فریدی نے کہا اگر وائس چانسلر طلبہ یونین کے معاملے کو زیر التواقرار دیتےہوئے انتخابات کے متعلق کوئی فیصلہ لینے سے گریزاں ہیں،تو، انہیں یہ بھی ذہن میں
رکھنا چاہیے کہ ان کا بھی کیس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
پریس کانفرنس میں عادل جواہر، ایان کاظم، عبدالرحمن، عقیل، قمر فریدی، محمد فرحان، امان حسین، سالک اور امان وغیرہ موجود تھے۔
فوٹو۔
ایڈووکیٹ ندیم انجم اورسید کیف حسن میڈیا سے بات کرتے ہوئے