علی گڑھ (شوذب منیر )
طویل انتظار کے بعد بابری مسجدکے حوالے سے۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، اس فیصلے میںزمین پر رام مندر بنانے کی اجازت دی گئی اور مسلمانوں کے لیے ایک دوسرے مقام پر پانچ ایکڑ زمین دینے کا وعدہ کیا گیا، اس فیصلے کو مسلم فریق نے عدالت کا احترام کرتے ہوئے فیصلے کوبہ سر و چشم قبول کیا۔ لیکن ایک کسک تو موجود رہی ،اس کسک کو لفظوں کا لبادہ تونہیں دیا جاسکتا ، لیکن محسوس ضرور کیا جا سکتا ہے ، ۶؍ دسمبر کو بابری مسجد کی ۳۱؍ ویں برسی تھی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا نے نماز جمعہ کے بعد ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر یوم سیاہ مناتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت کو یاد کیا۔طلبہ کا کہنا ہے کہ بابری مسجد تھی اور رہے گی۔وہیں ،نماز جمعہ کے دوران پولیس انتظامیہ الرٹ رہی۔
اس سلسلہ میں اے ایم یو طالب علم فرید مرزا نے کہا یہ ہ عالم رنگ و بو جس میں ہم اور آپ زندگی گزار رہے ہیں، نہایت ہی برق رفتاری کے ساتھ اپنے منازل کو طے کرتا ہوا نظر آ رہا ہے ، سال مہینے اور ہفتے کب آرہے ہیں اور کب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جا رہے ہیں ، اسکا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، ہر دن اور ہر تاریخ۳۶۵؍ دنوں کا چکر لگا کر اپنے دامن میں خوشیوں کا سمندر یا پھر رنج و غم کا سیل رواں لیے ہوئےہمارے سامنے آتا ہے اور اسکا انحصار گزشتہ سالوں میں اس دن ہمیں ملنے والی خوشی پر ہوتا ہے یا پھر اس دن ہمیں پہنچنے والی تکلیف پر، تو خوشی کے ایام جب ایک سال بعد لوٹ کر آتے ہیں تو اس سے ہماری خوشیوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں اوروہیں جب تکلیف کے ایام ایک سال کے بعد پھرلوٹ کر آتے ہیں تو ان پریشانیوں اور ہولناک واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے،انہی میں سے ایک تاریخ ۶؍دسمبر ہے، مکمل ایک سال گزر جانے کے بعد جب یہ دن ہمارے سامنے آتا ہے تو۱۹۹۲ء کے اس سیاہ ترین دن کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، جس میں فیض آباد کے ایودھیا میں تقریباً ساڈھے چار سو برس قدیم بابری مسجد کو دن کے انجالے میں ، پولیس انتظامیہ کی موجودگی میں سرے عام نعرے لگا کر بے دردی سے شہید کر دیا گیا، یقینا اس چشم فلک نے شرنگریزی اور ظلم و ستم کے بے شمار مناظر کو ملاحظہ کیا ہوگا۔اس کرہ ارض نے نفرت و جور کے بہت سے واقعات کو اپنی پشت پر محسوس کیا ہوگا ، لیکن۶؍ دسمبر۱۹۹۲؍ جب بابری مسجد شہید کی گئی تو اس وقت چشم فلک نے بھی بے ساختہ آنسو بہائے ہوں گے ، اس دن جب اللہ کے گھر پر حملہ کیا گیا ، تویقیناً زمین بھی سسکیاں لے رہی ہوگی، وہ ظالم بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے صرف ایک مسجد کو شہید کیا لیکن شاید وہ نہیں جانتے اس مسجد کی ایک ایک اینٹ کی حیثیت تمام ہندوستانی مسلمانوں کی جان سے بھی زیادہ قیمتی تھی، گویا ان ظالموں نے صرف بابری مسجد ہی کو نہیں بلکہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کوبھی شہید کیا ہے، ہماری امیدوں کو شہید کیا ہے اور ہماری دعاؤں کو شہید کیا ہے۔
وہیں سماجی کارکن عامر منٹوئی نے کہا کہ اس سانحہ کوتقریباً۳۱؍برس گزر جانے کے بعد بھی اس کا درد آج بھی ہر ایک مسلمان کے دلوں میں ویسا ہی تروتازہ ہے ، وقت گزرتا رہے گا، حالات بدلتے رہیں گے لیکن ہمارے دلوں میں شہادت بابری کا جو درد والم ہے وہ قاےم رہے گا، اس طویل عرصہ کے دوران لاکھ سیاسی چالوں کے ذریعہ وہ ظالم قانونی طور پر اس جگہ کو اپنانے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن ہم اپنی آنے والی نسلوں کو شہادت بابری مسجد کی درد بھری داستانیں سنائیں گے اور انکے دلوں میں وراثت کے طور پر اس غم و تکلیف کو چھوڑ جائیں گے، تاکہ نسل نو کو پتہ چلے کہ دنیا میں اپنے آپ کو سب سے بڑے جمہوری ملک کے نام سے متعارف کرنے والے اس ملک کا قانون کس حد تک زمینی حقیقت کا حامل تھااور کس حد تک ایک جمہوری نظام کے تحت چل رہا تھا، حقیقت سے اس کا دور ،دور تک کوئی واسطہ نہیں، کیونکہ اگر واسطہ ہوتا تو وطن عزیز میں مسلمانوں کی عبادت گاہ پر یوں کھلے عام حملے نہ ہوئے ہوتے،پہلے جارحانہ منصوبہ کے تحت۱۹۴۹ء میں بابری مسجد میں خفیہ طور پر مورتی رکھی گئی اور پھرحکومت کے ذریعہ اس زمین پر تنازع کی مہر لگا کر تالا لگا دیا گیا ، اس دوران ہندو مہا سبھا اور دیگر شرپسندوں نے اسے رام جنم بھومی بتا کر اس زمین کو ہتھیانے کی لاکھ کوشش کی اور پھر۱۹۹۲ء کو اڈوانی کی قیادت میں نام نہاد کارسیوکوں پر مشتمل ایک ریلی نکالی گئی اور اس ریلی کو ہندو مہا سبھا، آر ایس ایس اور بی جے پی کی کھل کر حمایت حاصل تھی ، اس جم غفیر نے ایودھیا میں حفاظتی حصار کو توڑتے ہوئے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔
وہیں ۶؍ دسمبر کو حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نماز جمعہ اورلا اینڈ آرڈر کے پیش نظر ضلع پولیس کی طرف سے پیدل گشت ایس ایس پی سنجیو سمن کی ہدایت پر کیا گیا ۔ضلع میں امن و امان اور جمعہ کی نماز کے پیش نظرسبھی ایریا افسران،تھانہ انچارجوںکے ساتھ ساتھ پی اے سی اور پولیس فورس کو پیدل مارچ کیا ،گشت کے دوران مرکزی بازاروںچوراہوں، ہجوم والی جگہوں اور نماز جمعہ حسب روایت پر امن ماحول میںسے ادا کی گئی۔ اسکے علاوہ ڈرون کیمروں کے ذریعہ نگرانی کی گئی۔ سات ہی سو شل میڈیا پر فرقہ وارانہ، اشتعال انگیز پوسٹ بغیر کسی تحقیق کے شیئر نہ کرنے، کسی خاص طبقہ کے خلاف کوئی تبصرہ نہ کرنےکی اپیل کیا گیا اورایسا کرنے والوں یاکسی بھی قسم کی گمراہ کن افواہ پھیلا نے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا انتباہ دیاگیا۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی اور افواہیں پھیلانے والوں کی مسلسل نگرانی کی گئی ۔
فوٹو۔
گشت کرتی پولیس
عامر منٹوئی
فرید مرزا