آگرہ۔ صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر مندر ہونے کے دعوے پر سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ رام جی لال سمن نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ درگاہ گیارہویں صدی کی ہے اور 1236 عیسوی میں خواجہ غریب نواز کا انتقال ہوا۔ مغل ہمارے ملک میں پندرہویں صدی میں آئے۔ بھارت سرکار کی کتابوں اور ملک کی تاریخ میں یہ حقیقت درج ہے۔ درگاہ کمیٹی خواجہ صاحب ایکٹ 1955 کے تحت قائم ایک قانونی ادارہ ہے۔ درگاہ کے قریب زیادہ تر دکانیں ہندوؤں کی ہیں۔ مہاتما گاندھی بھی اپنے بھارت کے دورے کے دوران اجمیر شریف کی درگاہ پر گئے تھے۔
مقامی عدالت نے درگاہ کے خادموں کی تنظیم انجمن سیدزادگان کو فریق نہیں بنایا ہے۔ 1950 میں جج غلام حسن کی کمیٹی نے تفتیش کر کے یہاں درگاہ ہونے کی تصدیق کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندو راجے بھی یہاں عقیدت کے ساتھ آتے تھے۔ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت کی پارلیمنٹ نے 1991 میں قانون بنایا کہ 15 اگست 1947 سے پہلے جہاں مندر تھا وہاں مندر رہے گا، جہاں مسجد تھی وہاں مسجد رہے گی۔ کسی کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ مذہبی مقامات چاہے ہندوؤں کے ہوں یا مسلمانوں کے، ان کی حالت جوں کی توں رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے جون 2022 میں کہا تھا کہ ہر مسجد کے نیچے کھدائی کرنا انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ جہاں تک درگاہوں کا تعلق ہے، یہ سماجی ہم آہنگی کی علامت ہیں۔ آگرہ میں ابو لالہ کی درگاہ ہو یا فتح پور سیکری میں شیخ سلیم چشتی کی درگاہ اور مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں موجود درگاہیں، ان پر ہندو اپنے مذہبی عقائد کے باعث مسلمانوں سے زیادہ تعداد میں آتے ہیں اور منتیں مانگتے ہیں۔
یہاں تک کہ آئینی عہدوں پر بیٹھے بڑے سے بڑے افراد بھی اجمیر شریف کی درگاہ پر گئے ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سینئر رہنما اندریش کمار نے بھی یہاں چادر چڑھائی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے بھی ہر سال درگاہ پر چادر چڑھائی جاتی ہے۔ درگاہیں ہمارے سماجی ہم آہنگی، گنگا جمنی تہذیب اور ہماری قدیم ثقافت کی علامت ہیں۔ یہ ہندو مسلم اتحاد کی بے مثال مثالیں ہیں۔
کچھ لوگوں کو رات کے وقت جو خواب آتے ہیں، ان میں بابر سمیت تمام مغل حکمراں نظر آتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت کے مسلمان خود کو مغلوں کا نہیں بلکہ پیغمبر محمد ﷺ اور صوفی بزرگوں کا وارث مانتے ہیں اور اپنی بھارتی وراثت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والی طاقتوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد میں مداخلت کرنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے منفی خیالات سے باز آئیں، ورنہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔