اے چمن سر سید آخر تجھے ہوا کیا ہے۔
علی گڑھ (شوذب منیر)
کیا ،سر سیداور ان کے رفقہ کے خوابوں کا تاج محل یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردوزبان کے لئے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے؟شواہد بہت کچھ کہہ رہے ،وہیںحالات بہت خطرناک اشارے کر رہے ہیں ۔ محبان علی گڑھ کے درمیان یہ چرچ عام ہوچکی ہے کہ سر سید کے خوابوں کو خاک میں ملا نے کے لئے باہر سے زیادہ اندر سے کاوشیں ہو رہی ہیں۔وہیں چرچا یہ بھی ہے کہ کسی کی خوشنودی کے حصول میں ایسا نہ ہوجائے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ مسلم بھی خاموشی سے ہٹا دیاجائے، جیسا کہ ماضی میں بہت کچھ دیکھنے کو ملا ہے۔ جیسے کی اسکول سطح پر اردو سکشن ختم کیا گیا، طلباکی مارک شیٹ پر موجودقرآن کی آیات علم الانسان مالم یعلم والے لوگو کے بجائے ستارے لگا دئے گئے وہیں اے ایم یو کی تاریخی عمارتوں سے بھی قرآنی آیت غایب ہو رہی ہیں ،۱۱؍ ہویں جماعت کے داخلہ امتحانات کے نصاب سے اسلامیات کوہٹا دیا گیا، بی اے( گریجویشن) سے اسلامک حصہ ہٹایا گیا ،اسلامک اسٹڈیز سے مولانا مودودی کو ہٹانے کی ناکام کوشش ہوئی ، وہیںیونیورسٹی کے سابق رجسٹرار کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ابھی بھی یونیورسٹی کے کچھ شعبوں اور مراکز کے لیٹرہیڈ سے اردو غائب مثال کے طور پر جی ای سی، عبداللہ کالج کے لیٹر ہیڈ یہ کام اس قدر خاموشی سے یکے بعد دیگرے ہورہا ہے کہ کسی کو آہٹ نہیں ہو پا رہی ہے۔باہر سے یہی سمجھا جا رہا ہے کہ اندر سب کچھ معمول کے مطابق چل رہاہے۔
اس سلسلہ میں معروف سماجی کارکن اوراے ایم یو کے سابق طالب علم عامر منٹوئی کاکہنا ہے کہ جو خنجر سامنے سے آتا ہے وہ اتنا خطرناک نہیں ہوتا،لیکن جو خنجر پیچھے کی جانب سے آتا ہے وہ انتہاہی خطرناک ہوتا ہے اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ خنجر کسی اپنے کا ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ حالات اور شواہد کو یہ دیکھتے ہوئے کہنا پڑ رہا ہے کہ اے ایم یو میں کو سر سید اور ان کے رفقہ نے دیوانہ وار جو قربانیاں اور کاوشیں کی ہیںاسکو نظر انداز کرتے ہوئے ، غیر نہیں بلکہ اپنے ہی سازشیں کر رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ موجودہ وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کے شوہر پروفیسر گلریز جو اے ایم یو کے قائم مقام وائس چانسلر رہے ہیں، انکے دور میں جس خاموشی سے ۱۱؍ویں جماعت کے داخلہ امتحانات سے اسلامیات کے نصاب کو ہٹایا گیا وہ سبھی جانتے ہیں،وہیں ان کے اے ایم یو کے شعبہ اردو سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کا درجہ دیاگیا وہ مارچ میں ختم ہو گیا ،لیکن اس حوالے سے انتظامیہ مہر سکوت اختیار کئے ہوئے ہے ، انہوں نے کہا کہ مختلف میڈیاسے ملنے والی خبروں کے مطابق ماضی میں اسکول سطح پر اردو سکشن کا ختم ہونا، طلباکی مارک شیٹ پر موجودقرآن کی آیات علم الانسان مالم یعلم والے لوگو کے بجائے ستارے لگانا،اے ایم یو کی تاریخی عمارتوں سے قرآنی آیت غایب ہو نے کاآغاز ،۱۱؍ ہویں جماعت کے داخلہ امتحانات کے نصاب سے اسلامیات کوہٹا یاجانا ، بی اے تاریخ ( گریجویشن) کے ایک پیپر سے اسلامک حصہ ہٹایا جانا، پھراسلامک اسٹڈیز سے مولانا مودودی کو ہٹانے کی ناکام کوشش ، یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ابھی بھی یونیورسٹی کے کچھ شعبوں اور مراکز کے لیٹرہیڈ سے اردو غائب ہیں،مثال کے طور پر جی ای سی، عبداللہ کالج کے لیٹر ہیڈ یہ کام خاموشی سے یکے بعد دیگرے ہورہا ہے کہ کسی کو آہٹ نہ ہو، انہوں نے کہا اتنا سب کچھ دیکھنے اورسننے کے بعد اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کبھی بھی اے ایم یو کی موجودہ انتظامیہ اپنی خدمات سے ریٹائرمنٹ کے بعد پر لطف زندگی گرزنے کے لئے کسی بڑے عہدہ پانے کے لئے کسی کو خوش کرنے میں لگی ہوئی ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے،سابق اے ایم یووی سی پروفیسر طارق منصور بی جے پی کے نائب صدر اور ایم ایل سی کے عہدے پر فائز ہیں ۔یہ سب کچھ پانے کے لئے ایک سوچی سمجھ سازش کے تحت کبھی بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام میں سے لفظ مسلم بھی غائب کر دیا جائے گا کوئی کچھ کہا نہیں جاسکتا نہیں اور محبان سر سید اور ملت کو گمراہ کیاجائے گا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا جیسا شاید کہ اے ایم یو کے شعبہ اردوکے ایڈوانس اسٹڈی سنٹر فار اردو کا درجہ ختم ہونے کے بعد بھی لیٹر ہیڈ اور سنٹر سے ایڈوانس اسٹڈی سنٹرفار اردو کو ہٹایا نہیں گیا ہے ایسا ہی شاید لفظ مسلم کے ساتھ بھی ہو جائے کوئی بعید نہیں۔
واضح رہے کہ یو جی سی کی جانب سے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے شعبہ اردو سے ایڈوانس اسٹڈی کا درجہ واپس لینے کے بعد سے محبان سر سید، محبان علی گڑھ اور محبان اردو میںتشویش کا اضافہ ہو چکاہے ، اسکی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں موجودہ وی سی کے شوہر سابق قائم مقام رہےوی سی پروفیسر گلریز کے دور میں ۱۱؍ویں جماعت کے داخلہ امتحانا ت کے نصاب سے اسلامیات کے حصے کو ہٹایاگیا انہیں کے دور میں اے ایم یوکے شعبہ ارد و سے سنٹر فار ایڈانس اسٹڈی کا درجہ یو جی سی نے واپس لیا، لیکن اس وقت قدر خاموشی چھائی رہی کہ کسی کو آہت تک نہیں ہوئی ۔ وہیں اے ایم یو کے شعبہ اردو کو ایڈوانس اسٹڈی کا جو درجہ حاصل تھا اسکے پیچھے اردو زبان کے دیوانوں کی جا ں فشانی، محنت اور لگ شامل ہے۔
قارئین یاد رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے شعبہ اردو کو برصغیر میں اردو کا سب سے باوقار اور باوقار شعبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ شعبہ دسمبر۱۹۲۱ء میں محمڈن اینگلو اورینٹڈ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے فوراً بعد قائم کیا گیا تھا۔ شعبہ کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بے شمار عالمی شہرت یافتہ اسکالرز پیدا کیے ہیں۔ شاعروں اور افسانہ نگاروں میں سے تین کو ہندوستان کے سب سے باوقارجن پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ان میںعلی سردار جعفری، قرۃ العین حیدر اور شہریارکا نام شامل ہے ۔ اس شعبہ کے اساتذہ کو پدم بھوشن اور پدم شری سے بھی نوازا گیا ان میں پروفیسر آل احمد سرور اور پروفیسرقاضی عبدالستار کا نام شامل ہے جن پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسرشہریار اس شعبہ کے استاد اور سربراہ بھی رہے تھے۔
وہیں شعبہ سے وابستہ قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرنے والوںمیں پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے نقوش بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیا (لاہور، پاکستان) پروفیسرابوالکلام قاسمی کو ساہتیہ اکیڈمی نیشنل ایوارڈ ملا، پروفیسر قاضی افضل حسین غالب ایوارڈ، پروفیسرقاضی افضال حسین کو نیشنل غالب ایوارڈ، محمد صغیر بیگ افراہیم کو یوپی اردو اکادمی کا باوقار ایوارڈ نیشنل انٹیگریشن ایوارڈ دیا گیا ہے۔ پروفیسر محمد طارق چھتاری کو یوپی اردو اکادمی کی طرف سے لمحی سمان کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری کے لیے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اسکے علاوہ شعبہ کے اور بھی بہت سے اساتذہ ہیں جنہیں ان کے تحقیقی کام اور اشاعتوں پر مختلف اداروں اور اکیڈمیوں کی جانب سے مختلف اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔وہیں ایوارڈ یافتہ افراد کے ساتھ ہی اسکالرز، مفکرین، ادیبوں، شاعروں، آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں، فلم پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں اور مختلف قومی یونیورسٹیوں میں اردو کے اساتذہ نے کسی نہ کسی طریقے سے اس شعبہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ رشید احمد صدیقی، سعادت حسن منٹو، علی سردار جعفری، علی احمد سرور، خورشید الاسلام، معین احسن جازبی، مجروح سلطان پوری، اخترالایمان، مجاز لکھنوی، شہریار، سید محمد اشرف اور سید محمد افضل وغیرہ ۔اس شعبہ میں کیے گئے تحقیقی کام اور تحقیقی مقالے اردو نثر، شاعری اور تخلیقی تحریروں کے تقریباً ہر شعبے پر محیط ہیں۔ جن میں سے اکثر کتابوں کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ شعبہ اردو کی علمی کامیابیوں کے اعتراف میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے۱۹۹۲؍ میں اس شعبہ کو خصوصی معاونت( ڈی ایس اے) کا درجہ دیا گیا تھا، لیکن ہائے رے اردوزبان کی بدنصیبی اسکو اپنوں کے ہی ہاتھوں ذلت کا سامنا کرن اپڑ رہا ہے۔