(علی گڑھ)شوذب منیر
یو جی سی نے اے ایم یو کے تین شعبہ اردو اور عربی اسٹڈی سینٹر کو دی جانے والی گرانٹ روک دی، شعبہ اردو کے عالوہ ، شعبہ تاریخ اور عربی کا سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی کا درجہ بھی ختم ہو ا ۔ اے ایم یو انتظامیہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس جواب نہیں دئے رہی ہے، ایسے میں لوگوں کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ آخر کون ہے ؟جواے ایم یو کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے، حکومت یا پھر انتظامیہ؟ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے
سر سید اور ان کے رفقہ نے جس ادارے کو اپنے خون جگر سے سینچا تھا ،اس علی گرھ مسلم یونیورسٹی کو اندر سے کون کھوکھلا کررہاہے ،حکومت یا پھر انتظامیہ ؟ یہ وہ سوال ہے جسکا ٹھوس جواب دینے سے یونیورسٹی انتظامیہ سے جڑے اعلیٰ عہدیداران گریزں ہیں۔ گرانٹس کمیشن نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر فار ہائر اسٹڈیز ان ہسٹری، اردو اور عربی کو گرانٹ روک دیا ہے۔نتیجہ میں اے ایم یو کی تقریباً ۳ ؍ کروڑ ۱۴ ؍ لاکھ روپے کی گرانٹ بھی پھنس گئی ہے، اس رقم سے اے ایم یو سیمینار، ورکشاپ، خصوصی کلاسیں چلائی جاتی تھی۔ خود مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گرانٹ کمیشن کوجو ریکارڈبھیجا گیا تھا ، اسمیں کچھ کمیاں رہ گئی ہیں، ریکارڈ کو دوبارہ اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
علی گرھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو سال ۲۰۱۳ء میں ایڈوانسڈ سنٹرکا درجہ ملنے کے ساتھ ہی یو جی سی سے گرانٹ ملی تھی۔ یہ گرانٹ پانچ سال کے لیے ہوتی ہے۔ سال ۲۰۱۸ء میں دوبارہ گرانٹ حاصل ہوئی ، جسکی مدت مارچ۲۰۲۳ء تک تھی۔ لیکن اپریل۲۰۲۳ء میں اے ایم یو کو۵؍ برس کے لیے ملنے والی گرانٹ نہیں ملی۔ اس گرانٹ کااے ایم یو انتظامیہ نےتقریباً۲۰؍ ماہ انتظار کیا ، لیکن انتظار انتظار ہا۔نتیجہ میںشعبہ اردو، شعبہ عربی اور شعبہ تاریخ کے جو ایڈوانس سنٹر کام کرتے تھے وہ بند ہیں، وہاں کوئی بھی ورکشاپ نہیں ہو رہی ہے، بیرون ملک سے آنے والے مختلف موضوعات کے ماہرین کو بھی بلانے کا انتظام نہیں کیا جا رہا۔ طلبہ کے لیے خصوصی کلاسز کا انعقاد نہیں ہو رہا ہے۔
اے ایم یو کے شعبہ اردو میں ہو رہے تحقیقی کام کو دیکھتے ہوئے یو جی سی نے۲۰۱۱ء میں یہ مرکز دیا تھا۔ شعبہ اردو ملک کا پہلا شعبہ بن گیا جہاں ایڈوانس اسٹڈی سینٹر کھولا گیا۔ یہ درجہ یو جی سی کی طرف سے صرف ان محکموں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پانچ سال کے تین منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کیا ہو۔ ملک کا واحد مرکز ہونے کی وجہ سے شعبہ اردو میں نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک سے بھی طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لیکن مرکز کے ذمہ دار یو جی سی سے حاصل کردہ بجٹ اور مرکز میں ہونے والے کام کی سالانہ رپورٹ پیش نہ کر سکے، نتیجے میں سنٹر بند کر دیا گیا۔ محکمانہ لوگوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ مرکز سے وابستہ ذمہ داروں نے اپنے چہیتوں کو کافی فائدہ پہنچایا ہے، اسکی بھی جانچ ہونی چاہیے۔ وہیںشعبہ اردو کے اس مرکز کی بندش کی وجہ سنٹر کے کوآرڈینیٹر رہے پروفیسر محمد علی جوہر بھی پوری طرح وضاحت نہ کر سکے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کا سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی قرون وسطی کی تاریخ پر تحقیق کا ملک کا واحد مرکز ہے۔ اے ایم یو میں۱۹۶۸ء میں معروف تاریخ دان پروفیسر نورالحسن کے زمانے میں یہ مرکز قائم ہوا۔ تب سے یہ تحقیقی کام میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) مرکز میں تحقیق اور دیگر تعلیمی کاموں کے لیے ہر سال۱۵؍ لاکھ روپے سے زیادہ دیتا تھا۔۲۰۱۷ء میں اس وقت کے مرکز کے کوآرڈینیٹر پروفیسر اطہر علی نے رپورٹ یو جی سی کو بھیجی تھی اور اسے پانچ سال کے لیے تجدید کرایا تھا۔ ذرایع کا کہناہے یہ سنٹر۳۱؍ مارچ۲۰۲۳ء کے بعد سےبند ہے۔ یونیورسٹی کو ہر پانچ سال بعد یو جی سی کو اکاؤنٹس بھیجنے ہوتے ہیں، اسکے بعد یو جی سی اسکی تجدید کرتا ہے۔ تجدید نہ ہونے سے یو جی سی سے بجٹ نہیں ملا۔ مرکز کے کوآرڈینیٹر شعبہ تاریخ کے چیئرمین ہیں۔ مرکز ان کی نگرانی میں چلتا ہے۔
ایسا ہونے سے اے ایم یو کے طلبہ کو اسکالرز سے کچھ نیا سیکھنے سمجھنے اور جاننے کا عظیم موقع بھی کھو دیا۔ یو جی سی کا یونیورسٹیوں میں جدید مراکز شروع کرنے کا مقصد طلباء کو اسکالرز سے سیکھنے سمجھنے اور سیکھنے سکھانے بتانے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ ان مرکز میں ملک اور بیرون ملک سے مضامین کے ماہرین کو مدعو کیا جاتاتھا، جس میں ان کے لیکچر طلباء، محققین اور پروفیسر ان سنتے تھے اور ان کے علم میں اس بات کا اضافہ ہوتا تھا کہ دنیا بھر میں تعلیم کے میدان میں کیسی تبدیلیاں آنی چاہئیں؟ان مراکز کے بند ہو جا نے پر طلبہ برادری افسوسناک قرار دئے رہی ہے وہ یہ بھی مانتی ہے کہ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی ناکامی کا نتیجہ ہے ۔
وہیں اے ایم یو انتظامیہ اس حوالے سے ٹھوس بیان دینے سے اپنادامن بچا رہی ہے ، اس سلسلہ میں اے ایم یوکے رابطہ عامہ کے ایم آئی سی پروفیسر عاصم صدیقی نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ یو جی سی کی جانب سے گرانٹ نہ ملنے کی وجہ سے عربی، تاریخ اور اردو کے شعبوں کے ایڈوانس سنٹر بندہوگئے ، عین ممکن ہے کہ دستاویزات میں کچھ کوتاہیاں ہوں۔ انہیں مکمل کردوبارہ بھیجا جائے گا ۔امید ہے کہ جلد گرانٹ آنا شروع ہو جائے گی،
وہیں اے ایم یو کے شعبہ تاریخ کے سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کی سابق کوآرڈینیٹر، پروفیسر گلفشاں خان نے کہا کہ ہم نے پانچ سالہ جامع رپورٹ وقت پرجمع کر دیا تھااور تجدید کا انتظار کر رہے ہیں ۔ یو جی سی کومتعدد کال کیا گیا، ہمیں بتایا گیا کہ وہ حکومت ہند سے گرانٹ منظور ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
شعبہ تاریخ کے موجودہ چیئر مین پرفیسرحسن امام شعبہ کے ایڈوانس اسٹڈی سنٹر کے ختم ہونے سے انکارکررہےہیں۔لیکن کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دئے رہے ہیں۔
ان سب کے درمیان نہ صرف اے ایم یو طلبہ بلکہ محبان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی کافی فکر مند ہیں ۔ اے ایم یو کیمپس میں اس بات کی چرچا عام ہے کہ آخر اے ایم یو انتظامیہ ابھی تک ان سب باتوں کو کس کے اشارے پر پوشیدہ رکھے ہوئے تھی، وہیں جب یہ سب منظر عام پر آگیا تو بھی ٹھوس جواب دینے کو تیار نہیں اور تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے۔آخرکس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ایسا کیا جا رہاہے ؟لوگوں کے ایسا سوچنے کی خاص وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جس طرح سے دسمبر۲۰۱۹ء میں اے ایم یو انتظامیہ نے اپنے ہی طلبہ کے خلاف پولیس کو اےا یم یو کیمپس میں آنے کی اجازت دی تھی ، اے ایم یو انتظامیہ کی اس اجازت کے بعد پولیس نے ظلم بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی ، اپنے ہی طلبہ کے خلاف کی گئی پولیس زیادتی کا دفع اس وقت کے وائس چانسلر رہے پروفیسر طارق منصور نے ہر ممکن طریقہ سے ہر محاذ پر کیا تھا، جسکے بعد یو جی کی تاریخ میں پہلی بار کس سنٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کواسکی مدت مکمل کرنے کے ایک برس کی توسیع دی گئی او رپھرا نہیں بی جے پی حکومت میں ایم ایل سی بنایاگیا اور پھر بی جے پی کا نائب صدرکا عہداہ دیا گیا ۔ایسے میں لوگوں کے درمیان یہ چرچا ہے کہ کیا پھر کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لئے اے ایم کو اندر سے کھوکھلاکرنے کا کھیل کیا جا رہاہے ۔
وہیں اے ایم یو کے طالب علم فرید مرزا کہناہے کہ جب باطل حق کے لبادے میں آتاہے تو اسکا پہچاننا مشکل ہوتا ہے، یہ بات شاید زمانہ سمجھ چکا ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ اردونام والوں سے خاص مقصد کے لئے کام کرائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سر سید کے اس چمن کی حفاظت کے آسمانوں سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں آنے والا یا ابابیل نہیں آئیں گے ، ہم سب کومل کر جمہوری نظام کے تحت آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اقدام کرناہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ جس جہاز کا مسافر اسکے پیندے میں چھید کر رہاہواسکو ڈوبنے سے دنیاکے بہترین ملاح بھی نہیں بچا سکتے ۔