(علی گڑھ )شوذب منیر
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حالیہ دنوں سے کچھ ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں ، جسکوہر دیکھنے اور سننے والا یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قانون کے ماہرین کا فقدان ہو چکا ہے ، یا پھر کچھ خاص لوگوں کو فائدہ پہچانے کے لئے، تجاہل عارفانہ سے کام لیا جا رہاہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ سر سید اوران کے رفقہ کے خوابوں کو تباہ کرنے کی سازش کی جا رہے ۔
یہ بات کسی پوشیدہ نہیں ہے کہ عثمانیہ یونیوسٹی حیدرآباد ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نشانے پر ہے ، اس ادارے کا اقلیتی کردار کا کیس ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس ادارے کو ہر طریقہ سے بدنام کرنے کی نئی نئی سازشیں کی جا رہی ہیں، ایسے میں یہ اے ایم یو انتظامیہ کے لئے لازم ہوتا ہے کہ وہ اپناہرا قدام اٹھانے سے پہلے خود احتسابی کنا چاہیے تاکہ ادارے کےمخالفین کو کو ئ موقع حاصل نہ سکے ۔ لیکن انہیں حالات میں اگر خود اپنے ہی بنائے گئےضابطوں اور قوانین کی خلاف ورزی کی خبریں ،اگر منظر عام پر آئیں گی تو، پھر اے ایم یو کو اپنادفع کرنا مشکل ہو گا ، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ادارے کے اساتذہ اپنے طلبہ کے لئے مشعل راہ ہوتےہیں ، انکے نقش قدم پر طلبہ چلتے ہیں اگر انتظامیہ سے جڑے اساتذہ سے دانشتہ یا پھر نا دانشتہ طور پر قوانین ، ضوابط کی دھجیاں اڑنے لے تو پھر ان کے اپنے ہی طلبہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جسکا خمیازہ آئندہ نسلیں بھگتنے کو مجبور ہوتی ہیں ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں مختلف آسامیوں کے لیے جنرل سلیکشن کمیٹیوں کا انعقاد کا عنقریب ۲۳؍ دسمبر۲۰۲۴ء کیا جانا ہے لیکن مذکورہ سلیکشن کمیٹی پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے، وہیں اس سلسلہ میں وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر نئی ماں خاتون کو شعبہ کے اساتذہ کے ذریعہ لکھے گئے مکتوب کے ذریعہ سلیکشن کمیٹی کے انعقاد میں کی جارہی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق اے ایم یو وائس چانسلر نئی ماں خاتون کو بھیجے مکتوب شکایت کی گئی ہے کہ اے ایم یو کے شعبہ فلسفہ میں مشتہر کی گئی آسامیوں کو پرکرنے کے لیےآئندہ ۲۳؍دسمبر۲۰۲۴ء کو جنرل سلیکشن کمیٹیوں کا انعقاد کیا جائے گا،جس میں متعدد بے ضابطگیاں ہیں، اسمیں ایگزیکٹو کونسل کی طرف سے منظورشدہ ضوابط کے تحت ان اشتہارات کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ متعدد اشتہارات کوڈھائی برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ایسے میں ان کی مدت کے دوسال سے زیادہ ہوچکے ہیں جس پر سلیکشن کمیٹی کا انعقاد نہیں کیا جاسکتاان آسامیوں کو پر کرنے کے لئے ایک نیا اشتہار جاری کیا جانا چاہیے۔
اے ایم یو میں اشتہار کے متعلق اصول
یونیورسٹی کے اصول کے مطابق جس تاریخ کو اشتہار جاری کیا جاتا ہے اسکی معاد دو برس کی ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں اے ایم یو کے وائس چانسلر رہے پروفیسر طارق منصور ( جواس وقت بی جے پی کے نائب صدر اور ایم ایل سی کے عہدے پر فائز ہیں) ۔ انہوں نے اپنے دور میں اسکی کی مدت میں چھ(۶) ماہ کاضافہ یہ کہہ کر کیا تھا کہ کسی اسپیشل کیس میں اسکی مدت کو چھ ماہ مذید بڑھایاجاسکتا ہے ، یعنی اسپیشل کیس میں اُس اشتہار کی مدت دو برس چھ ماہ ہوجائے گی، یکم دسمبر ۲۰۱۸ ؍ کو اس وقت کے رجسٹرار رہے آئی پی ایس عبدالحمید کی جانب سے اس حوالے سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا تھا، یعنی اسپیشل کیس میں بھی چھ ماہ کی توسیع کی معاد ختم ہونے کے بعدیعنی دوبرس چھ ماہ کے بعد اس اشتہار کی بنیاد پر سلیکشن کمیٹی نہیں رکھی جا سکتی۔ لیکن ہونے والی سلکشن کمیٹی میں متعد پوسٹ ایسی ہیں جنکے اشتہار کے دو برس سے زیادہ ہو گے، اتنی اسامیاں اسپیشل نہیں ہو سکتی اور اگر ہیں تو اسپیشل ہونے کی وجہ اے ایم یو انتظامیہ بتانے کو تیار نہیں ہے۔
وی سی کو بھیجے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو کے شعبہ فلسفہ میں کئی اشتہاری نمبروں کے ذریعہ مشتہر کی گئی آسامیوں کو پرکرنے کے لیے جنرل سلیکشن کمیٹیوں کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔اشتہار نمبر ایک ۱؍۲۰۲۲ ۲؍(ٹی) فروری۲۰۲۲ء ، دوسرا اشتہار ۲؍۲۰۲۲ (ٹی)۳۱؍ مئی۲۰۲۲ء کو جاری کیا گیا اور تیسرا اشتہار۴؍۲۰۲۲ء(۱) ۶؍اگست۲۰۲۲ء کو جاری کیا گیا تھا ۔ جس پر سلکشن کمیٹی کا ہونا درست نہیں ہے وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایگزیکٹو کونسل کی طرف سے منظور شدہ سلیکشن کمیٹیوں کے لئے بنائے جا نے والے ماہرین کے پینل کی میعاد بھی ختم ہو چکی ہے، ۱۹؍ دسمبر ۱۹۸۶ء کو ایگزیکٹو کونسل کی میٹنگ نمبر ۵۶۶؍ منعقدہ ہوئی تھی جس میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ ماہرین کے پینل کی صرف ایک برس کی ہوگی جس میں جسکو زیادہ سے زیادہ چھ(۶) ماہ تک کی توسیع ایک بارکی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے پینل کی منظوری ایگزیکٹو کونسل نے۲۲؍ مارچ۲۰۲۱ء کو اپنی قرارداد کے ذریعے دی تھی، یعنی ساڑھے تین برس قبل ۔ایسے میں۲۳؍ دسمبر کو ہونے والی سلیکشن کمیٹی کا انعقادغیر آئینی ہے کیونکہ ضابطہ کے مطابق ماہرین کے پینل کا وجود ختم ہو چکا ہے، نیا پینل تشکیل دیا جا نا چاہیے۔
اے ایم یو میں ماہرین کا پینل بنانے کا عمل کیا
شعبوں کےبورڈآف اسٹڈیز سے ماہرین کا پینل بناکر اکیڈمک کونسل میں بھجاجاتا ، اکیڈمک کونسل سے منظور ہونے کے بعداکزیکیوٹیو کونسل کے پاس جا تا ہے ، پھر اسکومنظور کرتا ہے،۔ اس سلسلہ میں اےا یم یو میں ۱۹؍ دسمبر ۱۹۸۶ء کو ایگزیکٹو کونسل کی میٹنگ نمبر ۵۶۶؍ رعزولیوشن نمبر ۱۱؍ بھی منعقدہ ہوئی تھی جس میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ ماہرین کے پینل کی صرف ایک برس کی ہوگی جسکو زیادہ سے زیادہ چھ(۶) ماہ تک کی توسیع ایک بارکی جاسکتی ہے۔
وہیں اس سلسلہ میں یہ بھی شکایت کی گئی ہے کہ اے ایم یو کے شعبہ فلسفہ میں پرفیسر کے عہدے کی تقروری کے لئے جو فارم بھرئے گئے ہیں اسمیں ایک بنیاد پر ایک امیدوار کو کے دستا یزات کو تسلیم کر لیا گیا،وہیں دسرے امیدو ار کو اسی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا ۔ضابطے کے مطابق پرفیسر بننے کے لئے امیدوار کا اپنی نگرانی میں کم از کم ایک طلبہ کی پی ایچ ڈی کا مکمل کروا کرڈگری کا ایوارڈ ہونا ،لازمی ہے ۔لیکن شعبہ فلسفہ میں ایک امید وار نے یہ لکھا گیا ہے کہ وہ تین پی ایچ ڈی کے طلبہ کے نگران رہے ہیں ، ضابطے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ،انہیں تو اہل مان لیا گیا اور وہیں دوسرے امیدوار کو اسی بنیاد پرنا اہل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا ،جو کہ ضابطے کی خلاف ورزی ہے ۔
وہیں اے ایم یو کے ویمنس کالج میں ایک خاتون امیدوار کو سلکشن کمیٹی کے لئے کال لیٹر دئے دیا گیا وہیں دیگر امیدواروں کو نہیں دیا گیا ہے، جبکہ اصول کے مطابق سلکشن کمیٹی جس دن ہونی ہے، اس سے کم از کم دس دن قبل امیداورں کو لیٹر مل جانا چاہیے۔ لیکن ایساہوتا نظر نہیں آرہاہے۔ وہیں ماضی میں اسی خاتون امیدوارکی جانب سے جب لوکل سلکشن کمیٹی کے لئے دی گئی درخواست کی اسکروٹینی ہوئی تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ انہوں نے ہائی اسکول کی سرٹیفیکٹ نہیں لگائی تھی اس بنا پر انہیں اہل نہیں مانا گیا، اور اس پوسٹ پر کسی کی تقروری نہیں کی گئی ،پھر بعد میں اسی پوسٹ کو دوبارہ اشتہار دئے کر ان کی تقروری کیا گیا، وہیں اس سلسلہ میں اگر ذرزیع کی مانے تو اس خاتون امیدوار نے ۲۰۲۳ میں ہائی اسکول کا سرٹیفکٹ حاصل کر اپنے دستاویزات میں شامل کیا ، جبکہ ایسے میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ آخری تاریخ کے بعد انکای ہائی اسکول کی سرٹیفکٹ بطور دستاویز کس کے کہنے شامل کیا گیاہے؟
وہیں اے ایم یو کے ایم آئی سی پی آر او پروفیسر عاصم صدیقی نے کہا ہے کہ سلکشن کمیٹی کے تاریخ کے لئے اشتہار شایع ہونے تاریخ سے ہی ماناجائے گا۔وہیں انہوں نے کہا پینل کی مدت دو برس ہو نے کا بھی دعویٰ کیا ، انہوں نے شعبہ فلسفہ کے حوالے سے ہونے والی سلکشن کمیٹی میں امید واروں کو بلا ئے جانے والے امیدواروں کے سوال پر کہا کہ اگر کسی کے دستاویزات میں کوئی گڑبڑی ہے تو ، اسکو چیک کیا جائے گا اور ضروری کارواہی کی جائے گی۔ وہیں جب یہ اشتہار کی تاریخ میں اضافے کے حوالے سے سوال کیا کس طرح کے کیس کو اسپیشل کیس مانا جائے گا تو انہوں نے کہا یہ وی سی کی صواب دید ہے کہ وہ کس کیس کو اسپیشل مانے اور اگر وہ چاہے تواسبھی کیس کو اسپیشل کیس مان سکتا ہے ،یہ اسکا پاور ہے۔
وہیں قانون نے ماہر نے ایم آئی سی کے اس بیان کو مضحکہ خیز قراردے رہے ہیں کہ ایک ، دو زیادہ سے زیادہ تین کیس اسپیشل ہو سکتے ہیں سبھی نہیں۔ وہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مذکورہ بالا نکات کو ذہن میں رکھتے وئے شعبہ فلسفہ سمیت دیگر آسامیوں کے لئے سلیکشن کمیٹیوں کا انعقاد نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ یہ نہ صرف یونیورسٹی کے قوانین کے خلاف ہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل۱۴؍ کی بھی خلاف ورزی ہے ۔وہیں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شعبہ فلسفہ کی اسامیوں کے لیے سلیکشن کمیٹیوں کو فوری طور پر روکا جائے اور دوبارہ اشتہار جاری کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ سلیکشن کمیٹی کا انعقادہوسکے ۔