उर्दूदेश विदेश

اردو کونسل ہند کا ” ایک روزہ تحفظ اردو دھرنا ” زبردست کامیابی سے ہمکنار


ٹھنڈک کے باوجود 20 اضلاع سے کونسل کے ذمہ داروں کی پرجوش شرکت
تنویر حسن ، اختر الایمان ، مشتاق نوری ، خورشید اکبر، انوار الحسن وسطوی ، عادل حسن ، حبیب مرشد کے جواں عزم تقریر

اردو کے سارے مسائل اگر جلد حل نہیں کیے گئے تو ریاست گیر تحریک چلائی جائے گی : اردو کونسل ہند

پٹنہ : اردو کے مسائل کے حل اور اردو آبادی کے حقوق کی بازیابی کے لیے اردو کونسل ہند کے زیر اہتمام تحفظ اردو دھرنا ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں پورے بہار سے محبان اردو اور عاشقان اردو نے بڑے جوش و خروش سے شرکت کی ہے ۔ لہذا اس کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ باتیں اردو کونسل ہند کے صدر اور حکومت بہار کے سابق وزیر شمائل نبی نے علالت طبع کے سبب پٹنہ ایمس اسپتال سے موبائل فون کے ذریعہ اپنے پیغام میں کہیں ۔ انہوں نے دھرنا پر بیٹھے ہوئے تمام حضرات کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ آج اردو مسائل کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے ۔ اردو اور اردو اداروں کی ریاست میں تشویش ناک صورت حال ہے۔۔ لہذا یہ دھرنا وقت کی پکار ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں بیماری کے سبب آپ کے درمیان حاضر نہیں ہو سکا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے ۔ جناب شمائل نے کہا کہ جمہوریت میں حکومت کو متوجہ کرنے کے لیے دھرنا ایک کارگر وسیلہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ اس کامیاب اور تاریخی دھرنے کا حکومت بہار ضرور نوٹس لے گی اور اردو و اردو کے مسائل کو جلد حل کرے گی ۔
اردو کونسل ہند کے ناظم اعلی اسلم جاوداں نے بتایا کہ
کونسل نے اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے 18 نکاتی مطالبات نامہ منظور کیا ہے جسے اس دھرنے کے توسط سے حکومت بہار تک پہنچا رہی ہے
،1 ۔چھ برسوں سے بند اردو مشاورتی کمیٹی کی تشکیل نو کی جائے ۔ اور اس کو ائینی اختیارات دیے جائیں ۔
2۔ چھ برسوں سے بند بہار اردو اکادمی کی تشکیل نو کی جائے ۔
3۔ ۔ 12 ہزار اردو ٹی ای ٹی کے امیدواروں کا کا رزلٹ جاری کیا جائے ۔
4۔ ۔ ہائی اسکول کے مانک منڈل میں ایک اردو ٹیچر کا اضافہ کیا جائے ۔
5۔ اردو آبادی کے بچوں کو میٹرک تک اردو کی لازمی تعلیم کا نظم کیا جائے ۔
6۔ ۔ نتیش کمار کے اعلان کے مطابق ہر اسکول میں ایک اردو ٹیچر بحال کیا جائے ۔
7 ۔ اردو اسکولوں کے طلبہ وطالبات کو اردو میں کتابیں مہیا کرائی جائیں ۔
8۔ ۔ اردو اخباروں کو ہندی کی بجائے اردو میں اشتہار دیا جائے ۔
9 ۔ جونیئر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ کے سبھی عہدے مدت سے خالی ہیں ، ان پر بحالی کی جائے ۔
10۔ عربی و فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سبھی عہدے طویل مدت سے خالی پڑے ہیں ۔ ان پر بحالی کی جائے ۔
11۔ ۔ مدرسہ بورڈ کا چیئرمین بحال کیا جائے ، اس کی تشکیل نو کی جائے
12 ۔ اقلیتی کمیشن بہار کی تشکیل نو کی جائے ۔
13 ۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کا مدت سے بند پڑا راج بھاشا اعلی سطحی ایوارڈ جاری کیا جائے ۔۔
14۔ بہار کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جہاں اردو کا شعبہ قائم نہیں ہوا ہے وہاں دوسری سرکاری زبان اردو کا شعبہ کھولا جائے ۔
15 ۔ محکمہ جاتی اردو کا امتحان پاس کرنے والے سرکاری عملے کو کو ایک اضافی انکریمنٹ دیا جائے
16 اردو اسکولوں اور مدرسوں کی سالانہ چھٹی حسب سابق بحال کی جائے
17۔محکمہ تعلیم کے 2022 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے مدرسے کی خود مختاری ختم کر دی گئی اس کو بحال کیا جائے
18 ۔ سبکدوشی کے سبب اردو مترجم ، نائب اردو مترجم اور ایل ڈی سی کے تقریبا 1200 خالی عہدوں پر بحالی کی جائے۔
اس دھرنے کی خاص بات یہ ہے کہ اردو کونسل ہند کی مختلف ضلعوں ویشالی مظفرپور جموئی مونگیر ، بھاگل پور ، سہسرام ، اورنگ اباد کشن گنج، ارریہ، نالندہ ، سہر سا ، سمستی پور، گیا ، دربھنگا ، کٹیہار، جہان اباد ، موتیہادی ، شیخ پورہ ، سپول 20 20 ضلعوں سے اردو کونسل ہند کے ضلعی ذمہ داروں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بڑی تعداد میں شریک ہو کر اس دھرنے کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ دھرنے میں ہٹنا شہر کی سیاسی مذہبی سماجی ادبی اور لسانی شخصیتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اور اردو کے سلسلے میں حکومت کے امتیازی سلوک اور غلط پالیسی کو اجاگر کر کے اردو کے ساتھ ہو رہی نا انصافیوں ہر پرزور احتجاج کیا ۔اور کہا کہ گزشتہ چھ برسوں سے نتیش حکومت میں اردو مسلسل نا انصافی کا شکار ہے ۔
اسلم جاوداں نے بتایا کہ اردو کونسل نے اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے ۔ کئی وزراء اور افسروں سے مل کر انہیں عرضداشت پیش کیا ۔ حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کئی کانفرنسیں کی گئیں ۔ اردو کے مسائل کے حل کے لیے اردو کے سر کردہ حضرات کے ساتھ اعلی سطحی نشست بھی کی گئی اور ان سب کے دستخط سے مشترکہ طور پر اردو کے مسائل کے حل کے لیےوزیر اعلی سکریٹریٹ میں ایک چھوٹے وفد کے ملنے کی گزارش بھی دو دو بار تحریری طور پر کی گئی ۔ مگر نتیش حکومت کے کان پر جو ں بھی نہیں رینگی ۔لہذا اردو کونسل ہند مجبور ہو کر حکومت کی توجہ اردو مسائل کی طرف مبذول کرانے کے لیے ایک روزہ تحفظ اردو دھرنا دے رہی ہے ۔ ہمیں پوری امید ہے کہ حکومت بہار اب اردو کے مسائل کی طرف توجہ دے گی اور اسے حل کرے گی ۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر اس کے باوجود میں نتیش سرکار اردو اور اردو ابادی کو اس کا حق نہیں دیتی تو اردو کونسل پورے بہار میں اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے تحریک چلائے گی ۔
مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر اور امور کے رکن اسمبلی
اختر الایمان نے نتیش حکومت کی اردو زبان اور اردو اداروں کے سلسلے میں ہو رہی ناانصافیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ۔ اور کہا کہ جس ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے وہیں اردو ختم ہو رہی ہے ۔ انہوں نے بہار اردو اکیڈمی ، اردو مشاورتی کمیٹی ، مدرسہ بورڈ ، اقلیتی کمیشن کی تشکیل نو نہیں کیے جانے کو امتیازی سلوک سے تعبیر کیا اور کہا کہ نتیش حکومت ان اداروں کو مفلوج رکھ کر اردو ابادی کو مفلوج بنا رہی ہے ۔ اختر الایمان نے میٹرک سے اردو کی لازمیت ختم کرنے ۔ اور مانک منڈل میں ایک اردو کے ٹیچر کا اضافہ نہیں کرنے پر اپنا زبردست احتجاج درج کیا انہوں نے کہا کہ اردو ابادی اب بیدار ہو چکی ہے اپنے حقوق کو خوب سمجھتی ہے لہذا اگر نتیش حکومت نے اگر اردو اور اردو ابادی کے سلسلے میں اردو کونسل ہند کے 18 نکاتی مطالبات کو تسلیم نہیں کیا تو اردو ابادی 2025 کے الیکشن میں سبق سکھا دے گی ۔ سابق ایم ایل سی ڈاکٹر تنویر حسن میں بہار میں اردو کی زبوں حالی کا تفصیل سے ذکر کیا ۔اور کہا کہ حکومت میں اردو مسلسل نظر انداز کی جا رہی ہے ۔ خورشید اکبر نے کہا کہ اگرچہ میں جنتا دل یو میں ایک ذمہ دار کی حیثیت رکھتا ہوں ۔ لیکن اردو کے معاملے میں میں خاموش نہیں رکھ سکتا ۔ اس سلسلے میں کسی طرح کا سمجھوتہ کر سکتا ہوں ۔ اردو کونسل نے جو یہ کام کیا ہے وہ ایک دن تاریخ بنے گی ۔ مشتاق احمد نوری نے اپنی سنجیدہ تقریر میں اردو کے مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے سے اسے جلد حل کرنے کی مانگ کی۔ اپنے پرجوش اور پرمغز تقریر سے سامعین کے دل و دماغ کو روشن کیا اور اردو کونسل کو اس تحریک کو مضبوطی سے اگے بڑھانے کا مشورہ دیا ، جموں سے آئے معصوم رضا امرتھوی نے بتایا کہ وہ اردو کونسل کی دعوت پر اٹھ محبان اردو کے ساتھ اس دھرنے میں شرکت کے لیے ائے ہیں . میں تن من دھن سے اردو کی خدمت خدمت کرنے کو تیار ہوں، ڈاکٹر مطیع الرحمن عزیز میں بتایا کہ مظفر پور کی اردو کونسل بہار میں اردو کے مسائل کے حل کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہے ۔ انوار الحسن وسطوی کی پرجوش اور قائدانہ تقریر نے سب کو متاثر کیا ۔ انہوں نے اس دھرنے کو تحریک کی شکل دینے کا مشورہ دیا ۔ ڈاکٹر حبیب مرشد میں کہا کہ میں نے ہمیشہ اردو کے لیے لڑنے والوں کا ساتھ دیا ہے اج بھی میں اسی جذبے کے تحت یہاں حاضر ہوا ہوں ائیے ہم سب مل کر اس تحریک کو کامیاب بنائیں

ان کے علاوہ دھرنے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور اپنی باتیں رکھیں ۔ ان میں اہم حضرات میں ، مولانا امانت حسین ،آصف سلیم ، ڈاکٹر یعقوب اشرفی،نسیم الدین صدیقی ایڈووکیٹ ( حاجی پور ) محمد عظیم الدین انصاری ( ویشالی )محمد عادل حسن ایڈووکیٹ( کٹیہار ) احتشام حسین ( مظفر پور )ڈاکٹر محمد عارف حسین (شیخ پورہ ) محمد اظہر الحق (ارریہ) سید اعجاز حسن( گیا ) سید مصباح احمد ( حاجی پور) اختر امام انجم (سہسرام ) ڈاکٹر شاہد حبیب ( سپول )، شوکت علی رضوی
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ( سابق صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیور سٹی ) محمد ظفر الدین انصاری وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔