بامبے ہائی کورٹ میں سینئر ایڈوکیٹ نتیاراما کرشنن نے ملزمین کے دفاع میں مدلل بحث کی
جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی)نے ملزمین کے دفاع میں سینئر وکلاء کی خدمت حاصل کی
ممبئی،بامبے ہائیکورٹ میں 7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ مقدمہ کی سماعت گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ ملزمین کو پھانسی کی سزا دیئے جا نے والے فیصلے کی تصدیق کے لیئے ریاستی حکومت کی جانب سے داخل اپیل پر سینئر ایڈوکیٹ راجا ٹھاکرے کی بحث کے اختتام کے بعد ملزمین کے دفاع میں سینئر ایڈوکیٹ یوگ موہت چودھری نے بحث کا آغاز کیا تھا اور تقریباً ایک ماہ تک بحث کی لیکن اسی درمیان سینئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا نتیا راما کرشنن نے ملزمین ڈاکٹر تنویر اور نوید حسین کے دفاع میں بحث کا آغاز کیا اور ایک ہفتہ تک بحث کی جس کے دوران عدالت کو بتا یا کہ اے ٹی ایس نے ملزمین سے جبراً اقبالیہ بیان حاصل کیا ہے جس کی بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے ملزمین کو پھانسی اور عمر قیدکی سزا سنائی ہے جو غیر قانونی ہے۔ ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن ہائی کورٹ میں بحث کررہی ہیں جو خصوصی طور پر دہلی سے تشریف لائی ہیں۔
آج دوران بحث سینئر نتیا راما کرشنن نے ملزمین ڈاکٹر تنویر اور نوید حسین سے جبراً لیئے گئے اقبالیہ بیانات کی قانونی حیثیت پر مدلل بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ ملزمین سے بالترتیب 74/ اور 25/ دنوں کے بعد لیا گیا جسے استغاثہ نے رضاکارانہ بتایا ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے پولس کے سامنے دیئے گئے اقبالیہ بیان کی قانونی حیثیت مشکوک بتائی ہے۔
بامبے ہائی کورٹ دو رکنی خصوصی بینچ جسٹس اے ایس کلور اور جسٹس شیام سی چانڈک کوسینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے مزید بتایا کہ ملزمین سے لیئے گئے جبراً اقبالیہ بیانات کو اگر ہٹا لیا جائے تو استغاثہ عدالت میں یہ ثابت کرنے میں ناکا م ثابت ہوئی ہے کہ ملزمین مجرمانہ سازش کا حصہ تھے۔
ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے ڈاکٹر تنویرکے حوالے سے بتایا کہ استغاثہ نے جس وقت ڈاکٹر تنویر کے سازشی میٹنگ میں موجود ہونے کا دعوی کیا ہے اس وقت ڈاکٹر تنویر صابو صدیق اسپتال میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے لیکن خصوصی مکوکا عدالت نے مشکوک اقبالیہ بیان کو بنیاد بناتے ہوئے ڈاکٹر تنویر کی بے گناہی کے تما م ثبوت کنار ے کردیئے۔
ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین کے خلاف گواہی دینے والے بیشتر پنچ گواہ اے ٹی ایس کے اسٹاک پنچ گواہ ہیں جن کی گواہی پر آنکھ بند کرکے بھروسہ نہیں کیاجاسکتا لیکن ٹرائل کورٹ نے ان کی گواہی کو باریک بینی سے جانچے بغیر انہیں مکمل سچ مان لیا۔
ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو مزید بتایا کہ تفتیشی افسران نے پولس تحویل میں ملزمین کو شدید زدوکوب کیا اور ان کی جعلی میڈیکل رپورٹ بناکر عدالت میں پیش کی حالانکہ پولس تحویل سے ڈاکٹروں کے پاس ملزمین کو بلا وجہ تو نہیں لیکر جایا گیا ہوگا، پولس تحویل میں ملزمین کے غیر انسانی سلوک کیا گیا اور انہیں اقبالیہ بیان دینے کے لیئے مجبور کیا گیا۔
ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے ملزم نوید حسین کے تعلق سے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر لوکل ٹرین میں بم نصب کرنے کا الزام ہے لیکن استغاثہ عدالت میں ایک بھی عینی گواہ پیش نہیں کرسکا، محض منحرف شدہ اقبالیہ بیان کی بنیاد پر نچلی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنا دی جو غیر قانونی ہے۔ نتیا راما کرشنن نے مزید بتایا ملزم نوید حسین نے اقبالیہ بیان دینے کے لیئے کبھی حامی نہیں بھری لیکن اے ٹی ایس نے عدالت میں یہ بتایا کہ ملزم نے از خود اقبال جرم کیا ہے۔
اسی درمیان سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کی ایک ہفتہ سے جاری بحث کا اختتام عمل میں آیا، بحث کے اختتام کے بعد بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ ملزمین نے نتیا راما کرشنن نے سے مخاطب ہوکر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ہمارے مقدمہ میں بحث کرنے کے لیئے خصوصی طور پر دہلی سے تشریف لائیں جس کے لیئے تمام ملزمین ان کے مشکور و ممنون ہیں۔
کرسمس کی تعطیلات کے بعد سینئر ایڈوکیٹ یوگ موہیت چودھری ان کی بقیہ بحث کا آغاز کریں گے
جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی نے ملزمین کے دفاع میں ملک کے نامور کریمنل وکلاء کی خدمات حاصل کی ہے جس میں سینئر ایڈوکیٹ ایس ناگا متھو (سبکدوش جسٹس مدراس ہائی کورٹ)، سینئر ایڈوکیٹ مرلی دھر (سبکدوش چیف جسٹس اڑیسہ ہائی کورٹ)، سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن(سپریم کورٹ آف انڈیا)، سینئر ایڈوکیٹ سدیپ پاسبولا (بامبے ہائی کورٹ)شامل ہیں، سینئر وکلاء کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ عبدالوہاب خان، ایڈوکیٹ شریف،ایڈوکیٹ انصار تنبولی، ایڈوکیٹ گورو بھوانی، ایڈوکیٹ ادتیہ مہتا، ایڈوکیٹ شاہد ندیم و دیگر کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہے جو آج دوران بحث عدالت میں موجود تھے۔
واضح رہے کہ خصوصی مکوکا عدالت کے جج وائی ڈی شندے نے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ملزمین احتشام قطب الدین صدیقی، کمال انصاری، فیصل عطاء الرحمن شیخ، آصف بشیر اور نوید حسین کو پھانسی اور 7/ ملزمین محمد علی شیخ، سہیل شیخ، ضمیر لطیف الرحمن، ڈاکٹر تنویر، مزمل عطاء الرحمن شیخ،ماجد شفیع، ساجد مرغوب انصاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ ایک ملزم عبدالواحد دین محمد کو باعزت بری کردیا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ ایک جانب جہاں ریاستی حکومت کی جانب سے داخل کنفرمیشن اپیلوں پر سماعت کررہی وہیں تمام ملزمین کی جانب سے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف داخل اپیلوں پر بھی سماعت کررہی۔ پھانسی کی سزا پانے والے کما ل انصاری کا کرونا کے دوران ناگپور سینٹرل جیل میں انتقال ہوگیا تھا۔