उर्दू

پروین شاکر نے خوشبو کو مظلوم عورت کا استعارہ بنا کر پیش کیا : ڈاکٹر تقی عابدی


لوح و قلم کی دعوت پر جمع ہوئے لکھنؤ میں ملک و بیرون ملک کے اکابرین ادب


لکھنو: لوح و قلم کے زیر اہتمام نہرو یوا کیندر (نزدیک رومی گیٹ ) میں ایک عالمی سیمینار اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ادارۂ لوح و قلم کی دعوت پر ملک و بیرون ملک کے اکابرین اور دانشوروں نے پروین شاکر کی شاعری کے مختلف جہات و ابعاد پر روشنی ڈالتے ہوئے پروین شاکر کو عہد ساز شاعرہ قرار دیا۔ اس عظیم الشان سیمینار کے افتتاحی اجلاس کی مہمان خصوصی حکومت اترپردیش کی خواتین کمیشن کی نائب صدر چارو چوھری نے کہا کہ مجھے پروین شاکر کی شاعری کو پڑھنا اچھا لگتا ہے لیکن مجھے جب لوح و قلم کے چیئرمین ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے اس سیمینار کے لیے مدعو کیا تو میں نے اس کے بعد پروین شاکر کی شاعری کو سنجیدگی سے پڑھا اور محسوس کیا کہ وہ ہمارے عہد کی نہ صرف اہم شاعرہ ہیں بلکہ عظیم شاعرہ ہیں ۔


اتر پردیش کے سابق کارگزار وزیر اعلی ڈاکٹر عمار رضوی نے افتتاحی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کی شاعری نے اپنی خوشبو سے ساری دنیا کو اپنے حصار میں لے لیا ہے انہوں نے جس خوش اسلوبی سے خواتین کی نفسیات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے اس طرح ان کے معاصرین میں کسی نے نہیں کیا۔ برطانیہ سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ شاعر روزنامہ صحافت برمنگھم کے ایڈیٹر امیر مہدی نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پروین شاکر کی شاعری مشرقی اقدار سے ہم آہنگ ہے اور مشرقی تہذیب کی سچی ترجمانی کرتی ہے نسائی انا پروین شاکر کی شاعری کا اختصاص ہے نیز خواہش اور انکار کے جذبوں کی حسین آمیزش نے پروین شاکر کی شاعری کے حسن کو دوآتشہ کر دیا ہے پروین شاکر نے عورت کے رنج وغم کو لفظوں میں ڈھال کر خوبصورت شعری پیکر تراشے ہیں۔


کناڈا سے تشریف لائے مشہور زمانہ اردو اسکالر نامور محقق ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے کلیدی خطبے میں اردو شاعری میں استعارے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروین شاکر کے ماقبل اور ما بعد کے ان شعرا کا ذکر کیا جنہوں نے خوشبو کو اپنی شاعری میں استعارہ بناکر پیش کیا ہے نیز پروین شاکر کی شاعری میں خوشبو کی اہمیت و افادیت کو ان کے اشعار کے توسط سے روشن کرتے ہوئے ان کی شعری معنویت کو مترشح کیا ۔ دہلی سپریم کورٹ کے معروف وکیل خلیل الرحمن ایڈوکیٹ نے پروین شاکر کی شاعری کے ان مخفی پہلوؤں پر گفتگو کی جو اب تک پردہ خفا میں تھے ۔


لوح و قلم کے چیئرمین ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے سیمینار منعقد کرنے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ملک و بیرون ملک کے صاحبان قلم کو اس سیمینار کے ذریعے پروین شاکر کی شاعری پر مقالات لکھنے کی دعوت اس لیے دی ہے تاکہ پروین شاکر کی شاعری کے وہ اسرار و رموز جو ابھی تک پوشیدہ ہیں ان پر بھی سیر حاصل مکالمے ہو سکیں اور ان کی شاعری کی وہ جہات و ابعاد جو ابھی بھی تشنہ معنی ہیں ان کی معنویت کو روشن کیا جا سکے ۔


افتتاحی اجلاس کے علاوہ سیمینار کو تین اجلاس میں تقسیم کیا گیا تھا پہلا اجلاس ڈاکٹر تقی عابدی (کناڈا) کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پروفیسر ارتکاز افضل اورنگ آباد مہاراشٹر ،ڈاکٹر زیبا ناز مراد آباد ، ڈاکٹر شجاعت علی نانڈیر مہاراشٹر ، جلیل نظامی حیدراباد ،ڈاکٹر حناافشاں کانپور نے اپنے گراں قدر مقالات پیش کیے۔پہلے اجلاس کے نظامت کے فرائض ڈاکٹر ذیشان حیدر نے انجام دیئے ۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر انور پاشا دہلی پروفیسر محمد کاظم دہلی نے مشترکہ طور پر کی۔ جس میں خلیل الرحمن ایڈوکیٹ دہلی ، ڈاکٹر عشرت ناہید لکھنو ، ڈاکٹر آفتاب عالم علی گڑھ ، ڈاکٹر جانثار عالم لکھنو ، ڈاکٹر مجاہد الاسلام لکھنو ، مجاہد سید لکھنو نے اپنے فکر انگیز مقالات پیش کئے ۔
تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر ارتکاز افضل اورنگ آباد مہاراشٹر ، خلیل الرحمن ایڈوکیٹ دہلی اور پروفیسر صالحہ رشید الہ آباد نے مشترکہ طور پر کی ، جس میں ڈاکٹر تقی عابدی کناڈا ، امیر مہدی برطانیہ ، پروفیسر محمد کاظم دہلی ، ڈاکٹر سبط حسن نقوی لکھنؤ، ڈاکٹر منور حسین لکھنؤ نے بصیرت خیزمقالات پیش کیے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے انجام دئیے۔
سات بجے شب میں خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کو خراج قدرت پیش کرنے کے لیے لوح و قلم نے اسی سیمینار ہال میں عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا جس کی صدارت کناڈا سے تشریف لائے اردو کے نامور اسکالر ڈاکٹر تقی عابدی نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے بحسن و خوبی انجام دئیے۔ مشاعرے میں امیر مہدی برطانیہ ، عمر فاروق آسٹریلیا ، خلیل الرحمن دہلی ، پروفیسر ارتکاز افضل اورنگ آباد ، پروفیسر فخر عالم لکھنؤ، جلیل نظامی حیدراباد ، حسن کاظمی لکھنو ، ڈاکٹر طارق قمر لکھنو ، منیش شکلا لکھنو ، جگمیت نوربو خیال لداخ ، ڈاکٹر شیوا ترپارٹھی سرس بستی ، ڈاکٹر سرلا آسماں لکھنو ، روبینہ ایاز لکھنو نے اپنا خوبصورت کلام سنا کر سامعین کو مسحور کردیا۔ مشاعرے کے اختتام پر لوح و قلم کے چیئرمین ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ بہت جلد ہی لوح و قلم کی جانب سے خدائے سخن میرانیس کی وفات کے 150سال مکمل ہونے پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک عالمی سمینار اور مسالمہ کا انعقاد کیا جائے گا۔