उर्दू

آہ! علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری رحمۃ اللہ علیہ

محمد عارف عمری( ناظم نشر و اشاعت جمعیۃ علماء مہاراشٹر)

دار العلوم دیوبند کے استاد حدیث حضرت مولانا قمر الدین احمد صاحب گورکھپوری رحمۃ اللہ علیہ(پ 1938) کی وفات علمی دنیا کا ایک زبردست خسارہ ہے،مولانا موصوف حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے تلامذہ میں سے تھے اور نصف صدی سے زائد مدت سے دار العلوم دیوبند میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے،حضرت مولانا عبد الحق ؒ(شیخ ثانی) کے انتقال کے بعد الجامع الصحیح للبخاری کی جلد ثانی کے ابتدائی ابواب (کتاب المغازی و کتاب التفسیر) جو کہ غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ذمہ تھے، جس کو درازی عمر اور صحت کی خرابی کے باوجود وہ پابندی سے نبھاتے رہے،
علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ کا آبائی وطن قصبہ بڑھل گنج (ضلع گورکھپور) تھا، انھوں نے ابتدائی تعلیم وطن مالوف کے مدرسہ فیض العلوم میں مولوی صفی اللہ مرحوم سے حاصل کی، پچاس کے عشرے کی ابتدا میں وہ مشرقی یوپی کی ممتاز درسگاہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں عربی کے متوسطات کی تعلیم کے لئے داخل ہوئے ، ان دنوں بڑھل گنج سے مبارکپور کا سفر بہت مشکل تھا، گھاگھرا ندی کے ایک کنارے پر بڑھل گنج واقع ہے اور دوسرے کنارے پر دوہری گھاٹ ہے، اس زمانے میں دریا پر پل نہیں تھا، لوگ بڑی مشقت سے کشتی کے ذریعہ دریا پار کرکے دوہری گھاٹ آتے تھے اور میلوں پیدل سفر کرکے مباکپور پہونچتے تھے،
علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ کے دور طالب علمی میں جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں خاکسار کے نانا مولانا داؤد اکبر اصلاحی ؒبھی تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے، علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ نانا مرحوم سے بہت مانوس تھے،خاکسار نے نانا مرحوم کی زبان سے اپنے جن مخصوص تلامذہ کا ذکر سنا ہے، ان میں ایک نام علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہوا کرتا تھا،
تقریباً بیس بائیس سال پہلے مدرسہ بیت العلوم سرائے میر کے جلسے میں علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری ہوئی تھی، میں اپنے والد مرحوم مولانا مستقیم احسن اعظمی اور حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی ؒکے ہمراہ اس جلسے میں گیا تھا، علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ جس کمرے میں ٹھہرائے گئے تھے، ہم لوگ وہاں ان سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ “حضرت یہ مولانا داؤد اکبر اصلاحی ؒ کا نواسہ ہے”  مولانا نے نہایت شفقت آمیز نظر سے مجھکو دیکھا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ نانا مرحوم کے ذکر کو سن کر آبدیدہ ہوگئے تھے،
علامہ قمر الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ باوجودیکہ ایک مدت سے دیوبند میں مقیم تھے، لیکن اپنے وطن بڑھل گنج سے برابر ربط و تعلق رکھتے رہے، بڑھل گنج کا مدرسہ فیض العلوم جہاں انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، اس کی ہمیشہ خبر گیری کرتے رہے اور 1968 سے اس مدرسہ کے سرپرست مقرر کئے گئے تھے –
مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور ،اعظم گڑھ میں ان کے ہم وطن اور خاص شاگرد مولانا عبد السلام صاحب قاسمی تقریبا تیس برس سے زیادہ مدت سے تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں، علامہ کی وفات پر دار العلوم دیوبند اور ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ان کے ہزاروں شاگرد افسردہ خاطر ہیں، ہم ان تمام کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی
اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت مولانا کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین