ڈاکٹر ایم رحمت اللہ، سینئر جرنلسٹ
ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں ایسی شخصیت کم دیکھنے کو ملتی ہیں جو اپنی علمی قابلیت، فکری پختگی، عزم مصمم اور اصولوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہوں۔ عارف محمد خان ایک ایسی ہی شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنے خیالات اور اعمال سے یہ ثابت کیا ہے کہ قیادت صرف عہدے اور اختیار کا نام نہیں بلکہ یہ اصولوں اور نظریات کا امتزاج ہے۔
کیرالہ سے بہار تک کا سفر
عارف محمد خان نے 5 ستمبر 2024 کو کیرالہ کے گورنر کی حیثیت سے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی۔ ان کی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں اور دانشمندانہ قیادت کے باعث مرکزی حکومت نے انہیں کیرالہ میں ہی برقرار رکھا۔ چار ماہ بعد، اب انہیں بہار کا گورنر مقرر کیا گیا ہے، جو ایک سیاسی طور پر پیچیدہ اور حساس ریاست ہے۔
بہار میں اسمبلی انتخابات آٹھ ماہ بعد ہونے ہیں، اور عارف محمد خان کا تقرر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں مسلم، یادو، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کے ووٹ بی جے پی کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہے ہیں۔ جہاں اتر پردیش میں بی جے پی نے مسلم اور یادو ووٹ کو تقسیم کر کے کامیابی حاصل کی، بہار میں یہ سمیکرن اب بھی بی جے پی کے حق میں نہیں ہے۔ اس تناظر میں، عارف محمد خان جیسے دور اندیش اور اصول پسند رہنما کی تقرری ایک اہم پیش رفت ہے۔
ایک نمایاں کیریئر
18نومبر 1951 کو اتر پردیش کے بلند شہر میں پیدا ہونے والے عارف محمد خان نے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ طالب علمی کے دوران انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری (1972-73) اور صدر (1973-74) کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
1977 میں محض 26 سال کی عمر میں وہ اتر پردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں، 1980 میں کانپور سے ساتویں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے اور پھر بہرائچ سے آٹھویں، نویں، اور بارہویں لوک سبھا میں رکن پارلیمنٹ رہے۔ مرکزی کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے انہوں نے توانائی اور شہری ہوا بازی کی وزارتیں سنبھالیں۔
کیرالہ میں خدمات
6 ستمبر 2019 کو کیرالہ کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، عارف محمد خان نے ایک غیر روایتی اور مؤثر حکمت عملی اپنائی۔ انہوں نے کیرالہ کی بائیں بازو کی حکومت کو آئینی اور قانونی دائرے میں رکھتے ہوئے کئی بار چیلنج کیا۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں نے بی جے پی کی ریاست میں سیاسی حیثیت مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بی جے پی نہ صرف کیرالہ میں پہلی بار ایک پارلیمانی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی بلکہ ووٹ شیئر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ششی تھرور جیسے کانگریس کے مضبوط رہنما کو بھی سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ کیرالہ میں بی جے پی کی بہتر کارکردگی کا کافی حد تک سہرا عارف محمد خان کی سیاسی بصیرت کو دیا جاتا ہے۔
فکری گہرائی اور بصیرت
عارف محمد خان کی شخصیت علم و دانش کا خزانہ ہے، جن کی مہارت سیاست، سماج، ادب، مذہب، آئین، اور قانون جیسے موضوعات پر گہری ہے۔ ان کا یقین ہے کہ مسلم سماج کو روایتی سوچ سے باہر نکل کر جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی کو اپنانا چاہیے۔ ان کے ان خیالات کی وجہ سے انہیں مسلم معاشرے کے قدامت پسند حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا ہے، لیکن تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ان کے نظریات کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔
شاہ بانو کیس اور اصول پسندی
عارف محمد خان کی زندگی کا ایک اہم موڑ شاہ بانو کیس تھا، جس میں انہوں نے تین طلاق کے معاملے پر حکومت کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے راجیو گاندھی کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا موقف تھا کہ قرآن میں تین طلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تو پھر اسے ہندوستان میں کیوں نافذ کیا جائے۔ ان کے اس فیصلے نے ثابت کیا کہ وہ اصولوں کے لیے اپنے سیاسی کیریئر کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔
مسلم سماج پر اثرات
عارف محمد خان مسلسل مسلم سماج کو جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی اپنانے کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو کسی بھی معاشرے کو پسماندگی اور دقیانوسی سوچ سے نکال سکتی ہے۔ وہ سر سید احمد خان کی طرح مسلم سماج میں جدید تعلیم اور سائنسی شعور کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
بہار میں نئی ذمہ داری
بہار ایک سیاسی طور پر باشعور اور حساس ریاست ہے، جہاں ذات پات اور مذہب پر مبنی سیاست کا گہرا اثر ہے۔ عارف محمد خان کی بہار میں تقرری بی جے پی کی مسلم برادری کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوششوں کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ آئینی عہدے پر رہتے ہوئے وہ ریاست میں سیاسی اور سماجی توازن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اسمبلی انتخابات سے پہلے ان کی تقرری سے یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ وہ مسلم برادری کے تعلیم یافتہ طبقے کو بی جے پی کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ ان کی دانشمندی اور تجربے کا فائدہ نہ صرف بی جے پی کو بلکہ بہار کی مجموعی سیاسی صورت حال کو بھی ہوگا۔
تعلیم اور سماجی اصلاحات کے داعی
عارف محمد خان کی زندگی اور خدمات یہ پیغام دیتی ہیں کہ تعلیم اور سماجی اصلاحات ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہیں۔ وہ مسلم سماج کی تعلیمی کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مسلم سماج تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھتا ہے تو وہ سماجی اور اقتصادی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے۔
کیرالہ اور بہار میں کردار کا موازنہ
کیرالہ میں اپنے دورِ گورنری کے دوران، عارف محمد خان نے آئینی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے بی جے پی کی سیاسی بنیاد کو مضبوط کیا۔ اب بہار میں بھی ان سے یہی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی دانشمندی اور اصولوں کی پاسداری کے ذریعے ریاست کی پیچیدگیوں کا حل تلاش کریں گے۔
ایک متاثر کن شخصیت
عارف محمد خان کی زندگی اور جدوجہد یہ ثابت کرتی ہے کہ ایک فرد اپنی سچائی، دانشمندی، اور اصولوں کی بنیاد پر معاشرے میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ ان کے خیالات اور خدمات نہ صرف مسلم سماج بلکہ پورے ہندوستان کے لیے تحریک کا ذریعہ ہیں۔
عارف محمد خان کی بہار کے گورنر کے طور پر تقرری نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک کے لیے اہم ہے۔ ان کی بصیرت، اصولوں سے وابستگی، اور سیاسی مہارت بہار کی سیاسی اور سماجی ساخت میں نئی روح پھونک سکتی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ اپنے دورِ گورنری میں بی جے پی کے لیے نئی راہیں کیسے ہموار کرتے ہیں اور ریاست کی پیچیدگیوں کا کیسے حل نکالتے ہیں۔
عارف محمد خان کی زندگی اس بات کی علامت ہے کہ اگر کسی میں حوصلہ، عزم، اور دور اندیشی ہو، تو وہ کسی بھی صورت حال میں معاشرے اور قوم کے لیے تبدیلی کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔