نئی دہلی ۔۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیاکے قومی نائب صدر ایڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ یوپی حکومت سنبھل میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ جب عدالت عظمیٰ نے سنبھل کی مسجد پر مزید کارروائی پر روک لگا دی تو انتظامیہ نے بجلی چوری کا الزام لگا کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا انتخاب کیا اور ان پر جرمانہ عائد کیا۔
انہوں نے ایک متروک مندر کو بھی دوبارہ کھولا اور اسے سخت پولیس سیکورٹی فراہم کی، جس سے یہ احساس پیدا ہوا کہ پولیس تحفظ کے بغیر مندر اس علاقے میں محفوظ نہیں ہے۔آدتیہ ناتھ، جو امن اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے پابند ہیں، آگ میں ایندھن ڈالنے کا موقف اختیار کر رہے ہیں۔ مندر کے غیر آباد ہونے کو فسادات سے جوڑتے ہوئے انہوں نے اسمبلی میں کہا کہ 1978 کے سنبھل فسادات میں 184 ہندوؤں کو زندہ جلا دیا گیا تھا، جب کہ فرقہ وارانہ تشدد کے ایک آزاد ڈیٹا سیٹ میں صرف 16 کی تعداد درج ہے۔ یہاں بھی جھوٹ اور پروپگنڈے کے ساتھ فسطائی ٹرمپ کارڈکا استعمال کیا جارہا ہے ۔ خاندان کے ایک فرد کے جس کے پاس مندر کی چابیاں ہیں، ایک ٹیلی ویژن چینل پر یہ انکشاف کرنے کے باوجود کہ، خاندان نے کھگو سرائے کو خوف سے نہیں چھوڑا، بلکہ اس لیے کہ اس محلے میں کوئی دوسرا ہندو خاندان نہیں رہتا تھا، اور نہ ہی مندر پر کسی نے قبضہ کیا تھا۔ حکام اور سنگھ پریوار سے وابستہ ‘بھکتوں’ نے یہ جھوٹا الزام پھیلایا کہ مسلمانوں کے خوف سے مندر کا استعمال نہیں کیا گیا۔حکمرانوں کی طرف سے خوف پیدا کرنے، ہم آہنگی کو بگاڑنے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے جھوٹ پھیلانے اور جھوٹے الزامات لگا کر علاقے میں مسلمانوں کو دبانے کی ایک سوچی سمجھی سازش دکھائی دیتی ہے۔
ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ حکام شہریوں کے ایک گروپ کو ان کے مذہب کے نام پر ہراساں کرنا بند کریں جو سنبھل میں پرامن ماحول کے لیے سخت درکار ہے۔