उर्दू

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی میں ماحولیاتی تبدیلی پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا


شوذب منیر
علیگڑھ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےچیف آرگنائزر ڈاکٹر ایم. صلاح الدین سابق ڈائریکٹر وزارت ماحولیات، جنگلات و آب و ہوا کی تبدیلی نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد ماحولیاتی بحران کے اہم پہلوؤں پر سائنسدانوں کی اہم تحقیق پر توجہ مرکوز کرنا ہے، جو ہماری زمین کو درپیش ہے۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ اے ایم یو ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں دہائیوں سے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے اور اس ضمن میں سید ظہور قاسم کی مثال دی، جن کی قیادت میں پہلی ہندوستانی ٹیم انٹارکٹیکا پہنچی تاکہ اہم تحقیق کی جا سکے۔ بعد میں وہ وزارت ماحولیات و جنگلات، حکومت ہند کے پہلے سیکریٹری بنے۔

انہوں نے پرندوں پر تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر سالم علی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق آج بھی دنیا بھر کے سائنسدانوں کے لیے رہنما اصول ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ماحولیاتی تبدیلی انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے اور اس بحران سے نمٹنے میں قائدکا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ ماحولیاتی بحران صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پوری دنیا کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی ہمیشہ قومی بحرانوں میں رہنمائی کرتی رہی ہے اور ہمارے سائنسدان آئندہ بھی اپنی تحقیق کے ذریعے دنیا بھر کے علمی حلقوں کو اپنی خدمات پیش کرتے رہیں گے۔
پروفیسر رضا ءاللہ خان، پروفیسر اظہار فاروقی اور پروفیسر عفیف اللہ خان نے اے ایم یو میں اعلیٰ معیار کی تحقیق کے خیال کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹی میں سائنسدانوں کی ایک بہترین ٹیم موجود ہے جو ماحولیاتی بحران کے چیلنجوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ حکومت کی طرف سے آلات، لاجسٹکس اور ماہرین کے لیے ضروری فنڈز فراہم کیے جائیں۔ پروفیسر عفیف اللہ خان نے مزید بتایا کہ ماحولیات پر خصوصی تحقیق کے لیے ایک مرکز قائم کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، جس کی منظوری حکومت ہند کے متعلقہ ادارے سے زیر التوا ہے۔

مہمان خصوصی، پروفیسر طارق نے ماحولیاتی تبدیلی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کو درپیش ایک سنگین مسئلہ ہے۔ انہوں نے فضائی آلودگی، حیاتیاتی تنوع اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب سمندری سطح کے بلند ہونے کے خطرات پر بات کی۔ انہوں نے ملک کے مختلف شراکت داروں کے ساتھ ماحولیات پر مشترکہ تحقیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اے ایم یو میں ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔

وہیں ڈاکٹر اجے راگھوا، ڈائریکٹر وزارت ماحولیات و جنگلات نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے موجودہ بحران کے اصل ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں جو سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں اور دنیا کے قدرتی وسائل کا زیادہ حصہ استعمال کرتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں اور ترقی پذیر ممالک پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ بوجھ برداشت کریں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک پیرس معاہدہ 2015 میں کیے گئے وعدوں کے مطابق مالی امداد اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
جے این یو کے پروفیسر اتل کمار نے زور دیا کہ جب تک دنیا پائیدار توانائی پیدا کرنے کو ترجیح نہیں دیتی، کاربن کے اخراج پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کوئلے پر مبنی توانائی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ خارج کرتی رہے گی، اس لیے متبادل اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع دریافت کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

ماہرسماجیات ڈاکٹر احرار احمد لون نے ماحولیاتی تبدیلی کے انسانوں پر منفی اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر زراعت، صحت اور زندگی کے ہر شعبے پر ہوگا اور ماحولیاتی آفات سے ہر شعبہ متاثر ہوگا۔