उर्दू

معروف انشائیہ نگار تقدیس نقوی کے مضامین کے مجموعہ ”خراشیں“کی علی گڑھ میں رسم اجرا

بزمِ نویدِ سخن علی گڑھ کے زیرِ اہتمام معروف انشائیہ و طنزو مزاح نگار تقدیس نقوی کے مضامین کے مجموعہ ”خراشیں“ کی جامعہ اردو علی گڑھ علی گڑھ میں رسم اجرا کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو ادب کے ممتاز اساتذہ کرام، محققین، ناقدین، اسکالرس اور مقالہ نگاروں نے شرکت کی۔تقریب کا افتتاحی اجلاس ”خراشیں“پر مذاکرہ پر مشتمل تھا جب کہ اختتامی دور میں اک شعری نشست منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت نامورادیب،محقق، صدر شعبہ ماس کمینیکیشن اور ڈین فیکلٹی آف سائیسنز اے ایم یو پروفیسر شافع قدوائی صاحب نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر بصیر الحسن وفا نقوی نے انجام دئیے۔ کتاب کا اجرا غیر روایتی اور منفرد اختراعی انداز میں ہوا جس میں کتاب کو اک گھومتے ہوئے اسٹینڈ پر رکھ کر پھولوں سے سجے ربن سے بندھے اک باکس میں مخفی رکھا گیا تھا۔ ربن کو صاحب صدر کے منقطع کرنے پر کتاب کو گھومتے اسٹینڈ پر حاضرین کے روبرو پیش کیا گیا۔ساتھ ہی روایتی انداز میں بھی رسم اجرا ادا کی گئی۔مذاکرہ میں اردو کے نامور ادباء اور ناقدین نے تقدیس نقوی کے اسلوب نگارش اور خراشیں کے مختلف مضامین پر اپنی آراء کا اظہار کیا جن میں پروفیسر قدوائی، مشہور ادیب و محقق، اردوجریدہ سیماکے مدیر اور سابق صدر شعبہئ اردو اے ایم یوعلی گڑھ پروفیسر صغیر فراہیم، عالمی شہرت یافتہ فکشن نگار و محقق اور سابق صدر شعبہئ اردو اے ایم یو پروفیسر طارق چھتاری، معروف ادیب اور ناقد پروفیسر عارف حسن خاں سابق صدر شعبہئ اردو ہندو ڈگری کالج مراداباد، نامور محقق اور موجودہ صدر شعبہئ اردو اے ایم یو پروفیسر قمرالہدی، رثائی ادب کے عالمی شہرت یافتہ محقق اور صدر شعبہئ اردو ڈگری کالج سنبھل پروفیسر عابد حسین حیدری، نامور ادیب اور سینئر صحافی ڈاکٹر جناب شجاعت حسین اور کشمیر سے آئے ہوئے پروفیسر محمد آصف ملک نے تقدیس نقوی کے اسلوب نگارش اور ”خراشیں“کے مختلف مضامین پر ناقدانہ تبصرہ کیا اور سامعین کو مضامین کی خصوصیات اور تقدیس نقوی کے منفرد اور مخصوص انداز تحریر کی ادبی جہات، تہ داریوں اور باریکیوں سے روشناس کرایا۔ پروگرام کی ابتداء حافظ عبدالمنان صمدی نے تلاوتِ قرآنِ مجید سے کی۔مذاکرہ کا آغاز تقدیس نقوی کے فرزندان ڈاکٹر کامران تقدیس، انجینئر ظفر تقدیس اور ان کی خواہر محترمہ ہما نقوی کی مختصر جذباتی تقاریر سے ہوا۔ تقدیس نقوی نے علی گڑھ سے اپنے تعلیمی اور تدریسی دیرینہ تعلق اور اپنے مجموعے کے مختلف مضامین کے پس منظر سے سامعین کو متعارف کرایا۔ پروفیسر قدوائی نے تقدیس نقوی کو ان کی کتاب پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے ہوئے کہاکہ تقدیس نقوی کی تحریر میں طنزو مزاح کے پردے میں اصلاح کا پہلو روشن نظر آتا ہے۔ ان کی تحرہروں میں کہیں طنز بدیع ہے توکہیں طنز ملیح نظر آتا ہے۔تفریح کے ذریعہ اصلاح کرنا ان کی تحریروں کا خاصہ ہے جس میں تقدیس نقوی پوری طرح سے کامیاب ہیں۔خراشیں سماج میں ہرجگہ نظر آتی ہیں جن کی نشاندہی تقدیس نقوی نے کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کتاب شائع ہوجاتی ہے تو وہ عوام کی ملکیت ہوجاتی ہے۔ تقدیس نقوی کی طنزومزاح پر مکمل دسترس کا ثبوت ان کے دیباچہ سے ملتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اس سے بڑا اور کیا مزاح ہوگا کہ اس دیباچہ کاعنوان ”دولفظ“رکھتے ہوئے دو صفحے کالے کردیئے گئے ہیں۔ بس اگر کوئی دو لفظ لکھنے سے رہ گئے ہیں تو وہ ہیں ”آگے پڑھئے“۔انہوں نے خراشیں میں شامل کچھ مضامین جیسے اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے، میر رائے بہادر،آن لائن کاہلی کئیر سروس، سوشل میڈیا کی خودساختہ عدالتیں کا خاص طور سے ذکر کیا۔پروفیسر قدوائی نے بھی تقدیس نقوی کی مماثلت مشتاق یوسفی سے کی۔قدوائی صاحب نے کہا تقدیس نقوی کے انداز تحریر میں برجستگی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔پروفیسرصغیر فراہیم صاحب نے تقدیس نقوی کے فرزندان کے پیش کئے گئے تاثرات سے متاثر ہوکر فرمایا کہ تقدیس نقوی صاحب کے نصف صدی کے ادبی سفر میں جو خراشیں لگی تھیں ان پر ان کے بچوں نے مرہم کا کام کیا ہے۔پروفیسر فراہیم نے تقدیس نقوی کا بنکنگ کے شعبہ میں جہاں ادبی ماحول کا فقدان ہوتا ہے طویل عرصہ گزارنے کے باوجود طنزومزاح کی صنف اختیار کرنے کی مماثلت مشتاق یوسفی سے کی اور کہا کہ بنکنگ نے بھی اردو ادب کو دو بڑے طنزومزاح نگار دئے ہیں۔


انہوں نے مزید فرمایا کہ تقدیس نقوی کے فن پر ابھی بہت کچھ لکھا جانا ہے۔ تقدیس نقوی کے انداز بیان میں بلا کی شوخی ہے۔ آپ نے انشائیہ پردازی میں وہ پر لگائے ہیں کے اس کی پرواز امروہا سے علی گڑھ، عراق اور دبئی ہوتی ہوئی اک بار پھر علی گڑھ پہنچ گئی ہے۔پروفیسر قمرالہدی نے اپنی تقریر میں خراشیں کی اختراعی انداز رسم اجرا کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ نیا انداز اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ کتاب کی کوئی اک سمت نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد ہمہ جہت ہوتا ہے۔ تقدیس نقوی صاحب کا اندازتحریر بہت دلنشیں ہے اور وہ اپنے طنزومزاح سے زخم نہیں بس خراشیں ڈالتے ہیں۔پروفیسر عارف حسن خاں نے تقدیس نقوی کے اس جذبے کی قدردانی کی کہ انہوں نے اپنی کتاب کے اجرا کے لئے اپنی مادر درسگاہ علی گڑھ کا انتخاب کیا۔آپ نے اپنی تحریروں میں افسانوی انداز اپنایا ہے۔ طنز کو مزاح پر حاوی نہیں ہونے دیا جس سے ان کی تحریر میں شگفتگی پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے تقدیس نقوی کے مضمون ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔پروفیسر طارق چھتاری نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ تقدیس نقوی کی تحریر پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا لکھنے والا کوئی فکشن نگار ہے۔ ان کی تحریروں میں افسانوی رنگ جھلکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تقدیس نقوی نے اپنے مضامین میں اشیا،عمارتوں اور شہروں کو بھی کردار بناکر پیش کیا ہے۔ تقدیس نقوی نے جو خاکے پیش کئے ہیں ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کردار ہمارے درمیان موجود ہے۔عابد حسین حیدری صاحب نے تقدیس نقوی اور خراشیں پر ایک مکمل مقالہ پڑھا جس میں انہوں نے تقدیس نقوی کے ادبی خاندانی پس منظر اور ان کے اسلوب کی انفرادیت کا احاطہ کیا۔ڈاکٹر محمدآصف ملک نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے خراشیں میں شامل مضمون ”شیروانی“پر مفصل گفتگو کی۔ آصف صاحب نے تقدیس نقوی کے اسلوب نگارش کی مماثلت اردو ادب میں طنزومزاح کے قائدین رشید احمد صدیقی، مشتاق یوسفی اور مجتبیٰ حسین سے کرتے ہوئے فرمایا کہ تقدیس نقوی کے مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات یقینی طور سے کہی جاسکتی ہے کہ انشائیہ کا کارواں عصر حاضر میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔اختتام مذاکرہ پر وقفہ کے بعد شعری نشست منعقد کی گئی جس میں نامور شعرا کرام نے اپنا کلام پیش کیا جس کی سامعین میں بہت پذیرائی کی گئی۔ اختتام تقریب پر تقدیس نقوی کی بیٹی ڈاکٹر فرح تقدیس نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔