उर्दू

جہاں مورتی ہو وہاں نماز نہیں ہوتی، متنازع عبادت گاہوں کا حل بات چیت سے نکلنا چاہیے: مسلم راشٹریہ منچ

فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی طرف تاریخی قدم: مسلم راشٹریہ منچ کی پہل


نئی دہلی: مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کی ایک پریس ریلیز کے مطابق منچ نے ہندوستانی سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے مقصد سے ایک تاریخی پہل کی ہے۔ منچ نے ملک کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے قومی مفاد میں 142 کروڑ عوام کے لیے دیے گئے بیان کا احترام کرتے ہوئے مسلمان بھی بڑے دل کا مظاہرہ کریں اور ہندوستان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کا عہد کریں۔

مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینر اور میڈیا انچارج شاہد سعید نے کہا کہ عدالتیں سب سے اہم ہیں لیکن متنازعہ مذہبی مقامات پر بات چیت کے ذریعے حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ جس کی وجہ سے ملک کا اتحاد، سالمیت، ہم آہنگی، بھائی چارہ اور ہم آہنگی برقرار رہتی ہے اور آپسی دشمنی نہیں ہوتی۔ لہٰذا منچ کا مطالبہ ہے کہ جہاں بھی فریقین کے درمیان عدالت میں کوئی تنازعہ چل رہا ہو، یہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے بہتر ہو گا اگر دونوں فریق باہم بات چیت کریں اور ’’عدالت سے باہر تصفیہ‘‘ تک پہنچ جائیں۔

منچ کے قومی کنوینر بورڈ نے اعلان کیا کہ بات چیت کے ذریعے کاشی، متھرا اور سنبھل جیسے مقامات پر بنائے گئے متنازعہ ڈھانچے کو ہندو برادری کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی تاریخی عبادت گاہوں کو بحال کرنے کی حمایت کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی منچ نے کہا کہ ایسی مساجد جہاں کسی وجہ سے نماز ادا نہیں ہو رہی یا جو ویران پڑی ہوئی ہیں، انہیں مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ انہیں دوبارہ آباد کر سکیں۔

اسلامی اصولوں کی بنیاد پر منچ نے واضح کیا کہ اسلام میں بت پرستی کی اجازت نہیں ہے۔ ایسی مساجد میں نماز پڑھنا جہاں ٹوٹے ہوئے بت ملے ہوں یا جہاں مندروں کی موجودگی کا تاریخی، سماجی یا براہ راست ثبوت موجود ہو اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور نماز کے لیے ناپاک جگہ ہے۔ ایسی جگہ پر نماز قبول نہیں ہوتی۔ منچ نے قرآن و حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زبردستی قبضہ کی گئی زمین پر مسجد بنانا اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ 4 جنوری کو لکھنؤ میں منچ کا بڑا پروگرام ہے۔

اس سے ٹھیک پہلے جمعہ کی صبح منچ کی ایک آن لائن میٹنگ ہوئی جس میں لکھنؤ میٹنگ پر تبادلہ خیال اور ایجنڈا طے کیا گیا۔ جس میں 20 ریاستوں اور 6 مرکز کے زیر انتظام علاقوں سمیت 70 مقامات کے لوگوں نے منچ کی میٹنگ میں شرکت کی۔ اس میٹنگ میں ملک بھر سے کئی چھوٹی بڑی مسلم تنظیموں اور ان کے قائدین نے شرکت کی۔

اس تاریخی اجلاس میں وومن انٹلیکچولز گروپ، صوفی شاہ ملنگ آرگنائزیشن، یوتھ ایجوکیشن اینڈ مدرسہ انسٹی ٹیوٹ، ورلڈ پیس کونسل، انڈیا فرسٹ، ہندوستان فرسٹ ہندوستانی بیسٹ، گاؤ سیوا سمیتی، انوائرنمنٹ اینڈ لائف سیفٹی انسٹی ٹیوٹ، جمعیت حمایت الاسلام، کشمیری تحفظ تنظیم اور دیگر نے شرکت کی۔ کشمیر سیوا سنگھ کے نمائندے موجود تھے۔ منچ کے تمام قومی کنوینر، ریاستی کنوینر اور شریک کنوینر نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور تجاویز کی حمایت کی۔

تمام مقررین نے اسلامی تعلیمات اور بھائی چارے کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے متنازعہ عبادت گاہوں کو ہندو برادری کے حوالے کرنے کی تجویز دی۔ اجلاس میں منچ کے اہم عہدیداروں نے شرکت کی۔ قومی کنوینر محمد افضل کی قیادت میں منعقد ہونے والی اس میٹنگ میں ڈاکٹر شاہد اختر، پدم شری انور خان، گریش جویال، ویراگ پچپور، سید رضا حسین رضوی، ڈاکٹر شالینی علی، ابوبکر نقوی، ایس کی معدن، شاہد سعید، حبیب چوہدری، عرفان علی پیرزادہ، شیراز قریشی، مولانا عرفان کچھوچی، الیاس احمد، فیض خان، عمران چوہدری، بلال الرحمان، حافظ صابرین، ٹھاکر راجہ رئیس، طاہر شاہ، ریشما حسین، آصف علی، عمران حسین۔ منصور عالم، طاہر حسین، محمد نعیم، محمد حسن نوری، عبدالنعیم سلوات، عبدالرحمان، عبدالرؤف، عابد شیخ، تنویر عباس، نصرت جہاں، عامر خان، کلو انصاری، انجم انصاری، چاندنی بانو، میر نذیر، نصیب چودھری، علی ظفر اور تسنیم پٹیل سمیت 200 سے زائد افراد۔ حصہ لیا۔

مسلم راشٹریہ منچ کی اس تاریخی کال پر کئی سرکردہ رہنماؤں اور سماجی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ محمد افضل نے کہا کہ ہمارا مقصد معاشرے میں ہم آہنگی لانا ہے۔ ہندوستان کو آگے بڑھنے کے لیے اجتماعی اتحاد اور ترقی کی سمت کام کرنا چاہیے۔ اس کال کے ساتھ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا نعرہ بھائی چارہ ہے۔

ابوبکر نقوی نے کہا کہ ہمارا مقصد ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرنا ہے۔ یہ اقدام اس حقیقت کی علامت ہے کہ ہندوستان کی مسلم کمیونٹی ملک کی ترقی کے راستے پر پوری طرح وقف ہے۔ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہمیں ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔

سید رضا حسین رضوی نے کہا کہ ہمارے معاشرے کو ہمیشہ اپنی جڑوں سے جڑے رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ عرفان کچھوچھوی نے کہا کہ سچائی اور صحیح راستے پر آگے بڑھنا ہمارا عزم ہے، ٹکراؤ نہیں بلکہ ساتھ چلنا ہے۔ ہم اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے معاشرے میں خیر سگالی اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔ اگر ہم اسے قبول کرتے ہیں تو ہم ہندوستانی اتحاد کی طرف بڑھتے ہیں