شوذب منیر
علی گڑھ ,گیان واپی مسجد اور سنبھل کی جامع مسجد کو تنازعہ کا شکار بنانے کے بعد معاملہ ابھی سلجھا نہیں ہے۔ اسی درمیان نام نہاد بھرشتھا چار وروھی سینا کے صدر پنڈت کیشو دیوگوتم نے سول جج علی گڑھ کے یہاں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ علیگڑھ کی شاہی جامع مسجد عوامی زمین پر بنی ہے اور اسکی تعمیر سے متعلق کوئی بھی دستاویز موجود نہیں ہے جسکا مالکانہ حق بھی کسی مخصوس شخص کے پاس نہیں ہے۔ مذکورہ مقدمہ کی سنوائی کے لئے مذکورہ عدالت نے 15 فروری2025 کی تاریخ مقرر کی ہے۔
واضح رہے پنڈت کیشو گوتم کے ذریعہ ماضی میں بھی نگر نگم سے لیکر ضلع انتظامیہ تک سے مذکورہ شاہی جامع مسجد سے متعلق معاملہ کو اٹھایا جا چکا ہے جس میں وہ مسلسل دعوی کرتے رہے ہیں کہ جامع مسجد عوامی زمین پر بنی ہے اور یہاں پہلے مندر تھاجسکی باقیات آج بھی بارہ دواری پر موجود ہیں۔پنڈت کیشو دیو گوتم کے ذریعہ جو پہلے معاملہ اٹھایا گیا تھا اس میں کہا گیا تھاکہ بالائے قلعہ جامع مسجد، اوپرکوٹ میں جو لوگ برسوں سے رہائش پذیر ہیں، گھروں اور دکانوں میں مقیم ہیں، انکی تحقیقات کی جائیں۔ ان لوگوں میں کون پیدائشی طور پر علیگڑھ کا رہنے والا ہے اوراگرنہیں ہے تو وہ کہاں سے آیا ہے کیونکہ یہ ایک قلعہ ہے، تاریخ کے مطابق، ہندوؤں کی جائیداد، ہندو بادشاہوں کی میراث اور موجودہ خسرہ کھتونی محکمہ ریونیو میں، قلعہ کی بالائی آبادی بھی ہے۔ کھیوت صرف ہندوؤں کی جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔لیکن گزشتہ برسوں میں ملکی تاریخ کو مٹاتے ہوئے قلعہ بالا کو جامع مسجد کا روپ دے کر کچھ انتشار پسند عناصر، چالاک لوگوں نے ایک مخصوص مذہب کے نام پر جامع مسجد کمیٹی بنا کر غریبوں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کر لیا۔جامع مسجد سے متعلق جائیداد سے کرایہ بھی وصول کیا جاتا ہے جو لاکھوں میں ہے بالا قلعہ جامع مسجد کمیٹی اس رقم کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے اور حکومت اور ملک کی املاک کو غبن کر رہی ہے۔یہ رقم کسی ترقیاتی کام میں استعمال نہیں ہوتی اور نہ ہی غریب مزدوروں کو کوئی فائدہ دیا جاتا ہے۔لہذا ضروری ہے کہ مذکورہ معاملہ کی باقاعدہ تحقیقات کی جائے۔
واضح رہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ علی گڑھ کی شاہی جامع مسجد کی تعمیر مغل دور میں محمد شاہ (1719-1728) کے دور حکومت میں کول کے گورنر ثابت خان نے 1724 میں شروع کی تھی۔ اس میں چار سال لگے اور مسجد 1728 میں مکمل ہوئی۔ مسجد کے کل 17 گنبد ہیں۔ مسجد کے تین دروازے ہیں۔ ان دروازوں پر دو گنبد ہیں۔ 17 گنبدوں والی یہ جامع مسجد شہر کے علاقے اپرکوٹ میں ہے، یہاں بیک وقت 5000 لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ خواتین کے لیے یہاں نماز پڑھنے کا الگ انتظام ہے۔ اسے شہداری (تین قالین) کہتے ہیں۔
وہیں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ شاید ملک کی پہلی مسجد ہوگی، جہاں شہداء کی قبریں بھی ہیں۔ اسے گنج شہداء (شہداء کا مسکن) بھی کہا جاتا ہے اس تین صدی پرانی مسجد میں کئی نسلوں نے نماز پڑھی ہے۔ اندازہ ہے کہ اس وقت آٹھویں نسل مسجد میں نماز پڑھ رہی ہے۔
290 سال قبل تعمیر ہونے والی اس جامع مسجد میں آٹھویں نسل نماز پڑھ رہی ہے۔ اسکے گنبد کئی کوئنٹل سونے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ یہاں کتنا سونا جمع ہے۔ اس جامع مسجد میں خاص بات یہ ہے کہ جامع مسجد میں 1857ء کے غدر کے 73 شہداء کی قبریں ہیں۔ ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ نے کئی سال قبل اس پر ایک سروے بھی کیا تھا یہ علی گڑھ کی قدیم ترین اور عظیم الشان مسجدوں میں سے ایک ہے۔ اسے بنانے میں 14 سال لگے۔ یہ مسجد بلائی قلعہ کی چوٹی پر واقع ہے اور شہر کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اپنی پوزیشن کی وجہ سے اسے شہر کے تمام مقامات سے دیکھا جا سکتا ہے۔
مسجد کے اندر چھ جگہیں ہیں جہاں لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ یہ مسجد تزئین و آرائش کے کئی ادوار سے گزری اور بہت سے تعمیراتی اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ سفید گنبد کا ڈھانچہ اور خوبصورت تراشے ہوئے ستون مسلم فن اور ثقافت کی خاص خصوصیات ہیں