उर्दू

عدالتی احکامات کی وقت پرتعمیل کرنا مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کی کنجی ہے۔ایس ڈی پی آئی ۔ایم کے فیضی


نئی دہلی ۔ ۔ سوشیل ڈیموکریتک پارٹی آف انڈیاکے قومی صدر ایم کے فیضی نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ جب عدلیہ زیر التوا مقدمات سے جام ہو جاتی ہے تو انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو جاتی ہے اور یہ صورت حال تیز رفتار انصاف کو یقینی بنانے کا مقصد ہی کھو دیتی ہے۔ دیگر مختلف عوامل کے علاوہ، حکومت کی جانب سے سوٹ اور پٹیشنز میں حلف نامے یا جوابی حلف نامے داخل کرنے میں تاخیر جو کہ حکومت کی رائے اور آراء طلب کرتے ہیں، ملک میںاعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا سوٹس کے جمع ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
بدقسمتی سے، ہندوستانی ریاست، تمام ہندوستانی عدالتوں میں سب سے بڑی مدعی ہے، اس کا تمام زیر التواء مقدمات میں نصف سے زیادہ کا حصہ ہے۔ حکومت کی جانب سے حلف نامے داخل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے سیاسی طور پر حساس اور کئی اہم مقدمات برسوں سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ حلف نامے داخل کرنے کے لیے عدالتی احکامات کا جواب دینے میں سستی صرف حکومت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سرکاری ادارے بھی اس کھیل میں حکومت کی پیروی کرتے ہیں۔
ایسی ہی کچھ بڑی درخواستیں، جن کے فیصلوں میں تاخیر ہورہی ہے کیونکہ حکومت یا سرکاری ایجنسیاں حلف نامہ داخل نہیں کرتی ہیں یا عدالت کے حکم کے مطابق تحقیقات وقت پر نہیں کی جاتی ہیں، جس میں عبادت گاہوں کے ایکٹ۱۹۹۱ء کو چیلنج کرنے والی پٹیشن بھی شامل ہے۔ ہندوستانی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ ہندن برگ کے ذریعہ لگائے گئے الزامات میں اڈانی گروپ کے ذریعہ اسٹاک میں ہیرا پھیری کی تحقیق، تعمیل کے حلف نامے داخل کرنے میں ناکامی تارکین وطن مزدوروں کو راشن کارڈ فراہم کرنے سے متعلق قانونی چارہ جوئی میں ریاستی حکومتیں جسکا حکم۲۰۲۱ء میں معزز سپریم کورٹ دیا تھا، وغیرہ۔
ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ایسے مقدمات کے علاوہ مختلف ہائی کورٹس میں بھی اسی طرح کے کئی مقدمات زیر التوا ہیں۔ یہ افسوسناک ہے کہ جن حکومتوں کو شہریوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر کھڑا ہونا چاہیے، وہ عدالتی احکامات کو پامال کرنے میں سب سے آگے کھڑے ہیں، اور حکومتوں اور ان کے ایجنٹوں اور ایجنسیوں کے اس رویے کو فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے تاکہ عدالتی طریقہ کار کو بہتر کیا جا سکے۔