उर्दू

سیرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ

معین بےکساں، عطائے رسول، ہند الولی، سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کی ذاتِ بابرکات ہند وپاک والوں کے لیے ایک نعمتِ الٰہیہ تھی ۔ آپ نے غیر منقسم ہندوستان میں اسلام کی ایسی آبیاری کی اور دلوں کو ایمان و ایقان کے نور سے اس طرح منور فرمایا کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آج تک اس کی چمک دمک باقی ہے۔
آپ ان نفوسِ قدسیہ میں سے ہیں جنھیں اللہ رب العزت نے گمراہوں، بے دینوں،شر پسندوں اور سرکشوں کی اصلاح اور حق وباطل کے درمیان خطِ امتیاز پیدا کرنے لیے بھیجا تھا، جنھوں نے اپنی حق گوئی ،راست بازی اور عدل و انصاف سے دلوں کو مسخر کیا اور اعلاء کلمۃ الحق میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہندوستان میں حضرت خواجہ نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں تکلیفیں جھیلیں ، مصیبتیں برداشت کیں ، کفارو مشرکین کے شیطانی ہتھکنڈوںکا ڈٹ کرسامنا کیا مگر پائے استقلال میں ذرہ برابر جنبش نہ آئی ، آپ کی انہی جانفشانیوں کا نتیجہ و ثمرہ ہوا کہ یہاں اسلام کے فروغ و ارتقا کوایک نئی جہت عطا ہوئی اوراسلام پھیلتا چلا گیا ۔

جائے پیدائش:

آپ رضی اللہ عنہ کی جائے پیدائش کے متعلق سیرت نگاروں کا شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک آپ کا مَولَد سجستان، بعض کے نزدیک سنجار جو موصل کے قریب ہے، بعض کے نزدیک اصفہان سے متصل سنجر اور بعض نے جنوبی ایران کے علاقے سیستان کا تذکرہ کیا ہے۔ البتہ سجز والی بات زیادہ معروف ہے۔
تاریخ وسنہ ولادت: آپ کی ولادت کے مختلف سنین ۵۲۳ھ اور ۵۳۷ھ کے درمیان لکھے گئے ہیں۔
علامہ فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ کے مطابق آپ کی پیدائش ۱۴؍ رجب المرجب ۵۳۷ھ ہے۔ لیکن بعض روایات میں ۵۲۳ھ، ۵۲۵ھ، بعض میں ۵۲۷ھ، ۵۳۰ھ، ۵۳۵ھ، اور ۵۳۷ھ وغیرہ بھی مذکورہے ۔

نام والقاب:

آپ کا اسمِ گرامی حسن ہے۔ سلطان الہند،وارث النبی،عطائے رسول،ہندالولی،سلطان العارفین ،سلطان السالکین قطب المشائخ، منہاج المتقین،معین الاولیاء سید العابدین اور غریب نواز وغیرہ ہے۔ چشتی کہلانے کی وجہ:

جب حضرت ابو اسحاق خواجہ شامی نے بغداد پہنچ کر حضرت خواجہ علو ممشاد وینوری کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی تو حضرت ممشاد دینوری نے نام دریافت کیا آپ نے عرض کیا بندہ کو ابو اسحاق شامی کہتے ہیں ۔ حضرت خواجہ دینوری نے فرمایا آج سے لوگ تمہیں ابواسحاق چشتی کہیں گے ۔ چشت کی مخلوق تم سے ہدایت پائے گی اور جو لوگ تمہارے سلسلہ میں داخل ہوں گے چشتی کہلائیں گے۔
📖(سوانح خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ص: ۲۸)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی بھی حضرت خواجہ اسحاق چشتی کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے چشتی کہلاتے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے آپ کےچشت میں قیام فرمانے سے آپ کو چشتی لکھا ہے لیکن یہ غلط ہے ۔
آپ والدِ محترم کی جانب سے حسینی اور والدہ محترمہ کی جانب سے حسنی سید ہیں۔

نسب نامہ پدری:

معین الدین بن خواجہ غیاث الدین بن خواجہ نجم الدین ظاہر بن سید عبد العزیز بن سید ابراہیم بن سید ادریس بن سید امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بن حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نسب نامہ مادری:

بی بی ام الورع المعروف بہ بی بی ماہِ نور و خاص الملکہ بنت سید داؤد بن حضرت عبداللہ الحنبلی بن سید زاہد بن سید مورث بن سید داؤد بن سیدنا موسیٰ جون بن سیدنا عبداللہ بن سیدنا حسن مثنیٰ بن سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ والدینِ کریمین:

آپ کے والدِ محترم حضرت سیدنا خواجہ غیاث الدین کا شمار اپنے وقت کے ممتاز علماومشائخ میں ہوا کرتا تھا۔ خاندانی وجاہت ، علم و فضل، زہدو تقویٰ میں اپنی مثال آپ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ دولت وثروت بھی تھے۔
والدہ ماجدہ حضرت ام الورع بی بی ماہِ نور بڑی باحیا، بااخلاق ، باکردار،متقیہ، عابدہ، زاہدہ اور نیک سیرت خاتون تھیں۔

سلطا ن الہند کی شہنشاہِ بغداد سےملاقات اور رشتہ:
حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی سیرت کا تذکرہ ہو تو قارئین میں ایک تجسس پیدا ہوتا ہے کہ سرکار غریب نواز کی شہنشاہِ بغداد سے ملاقات ہوئی یا نہیں ؟ ان کا آپس میں کیا رشتہ تھا وغیرہ وغیرہ
تقریباً تمام سوانح نگار نے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ سرکار غریب نواز کی غوثِ پاک سے دو مرتبہ ملاقات ہے ۔ پہلی مرتبہ جب سلطان الہند کی عمرِ مبارک اکیس سال تھی آپ عراق ہوکر بغداد آئے اور سرکارِ غوثِ اعظم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ ملاقات کے موقع پر غوثِ رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا’’ یہ مرد مقتدائے روزگار ہوگا ، بہت لوگ اس سے منزلِ مقصود کو پہنچیں گے‘‘ اورد وسری جب حضور غوثِ اعظم جیلان میں مقیم تھے ۔
معین الارواح
اور صاحبِ معین الارواح نے ہی تحریر کیا ہے کہ ’’حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی المعروف غوثِ پاک حضرت عبد اللہ الحنبلی کے پوتے ہیں اور غریب نواز کی والدہ ماجدہ بی بی ماہِ نور حضرت عبد اللہ الحنبلی کی پوتی ہیں ، ان ہر دو کے والد آپس میں بھائی ہیں ۔ اس رشتہ سے غریب نواز کی والدہ غوث الاعظم کی چچا زاد بہن ہیں اورغوثِ پاک غریب نواز کے ماموں ہیں ، ایک دوسرے رشتہ سے غریب نواز اور اور غوثِ پاک آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں ۔ تیسرے رشتہ سے غریب نواز غوث الاعظم کے ماموں ہوتے ہیں ۔ ان رشتوں کی مطابقت اس طرح ہوجاتی ہے کہ غوثِ پاک کی والدہ غریب نواز کی ننہالی رشتہ میں خالہ اور دددھیالی رشتہ میں بہن ہیں ۔
📖 معین الارواح ص: ۳۰

سیدنا ابراہیم قندوزی سے ملاقات:

والدِ محترم کی جانب سے میراث میں ملنے والا باغ اور پن چکی آپ کا ذریعۂ معاش تھا ۔ ایک دن باغ کی آب پاشی کے دوران مجذوبِ کامل حضرت سیدنا ابراہیم قندوزی علیہ الرحمہ کی بابرکت آمدہوگئی۔خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے بیحد تعظیم و توقیر کی اور انتہائی ادب و احترام کےساتھ درخت کے سایے میں بٹھایا اور خدمتِ اقدس میں انگور کا خوشہ پیش کیا اور خود دوزانو باادب بیٹھ گئے ۔ مجذوبِ کامل کو آپ کا یہ اندازِ ادب پسند آیا اور خوش ہوکر اپنی بغل سے سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور دانت سے چبا کر حضرت خواجہ کو دے دیا۔ بظاہر ایک روٹی کا ٹکڑا ہی تھا مگر ولی اللہ کے لعابِ دہن نے اس میں کیمیائی اثر پیدا کردیا تھاجسے کھاتے ہی دل کی دنیا بدل گئی،دنیا و مافیھا اور اس کی دلفریبیوں اور رنگینیوں سے دل اچاٹ ہوگیا،کیف و سرور کے عالم میں باغ و پن چکی فروخت کرکے فقراو مساکین میں تقسیم کردیا اوردردِ دل کی دوا کو نکل گئے۔ تعلیم وتربیت:

چنانچہ پہلے آپ نے حصولِ علم کے لیے سفر اختیار فرمایا ۔ علامہ فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں’’ سب سے پہلےآپ خراسان تشریف لائے اور حضرت مولانا حسام الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں قرآن مجید حفظ کیا ۔ پھر عربی ، فارسی کے تمام مروجہ علوم و فنون پڑھے۔ بعد ازاں تفسیر، حدیث اور فقہ اسلامی کی تکمیل کے لیے کئی سال مختلف شہروں کی طرف پیدل چل کرمتعدد اساتذہ کی شاگردی اختیار فرمائی‘‘۔
سوانح و ارشادات خواجہ غریب نواز ص: ۲ بیعت وخلافت:

ـــــــ ظاہری علوم و فنون کی تکمیل کے بعد بھی دلی اضطراب ختم نہیں ہوا ،اب بھی ایک طرح کی دل میں خلش باقی تھی اس لیے روحانی علاج کے لیے کسی مرشد کی تلاش میں نکل پڑے ، پھر بغدا د کی’’ خواجہ جنید مسجد‘‘میں آپ کی تلاش و جستجو ختم ہوئی اور روحانی پیشوا حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سےملاقات ہوئی تو آپ ان کے دستِ حق پرست پر شرفِ بیعت سے مشرف ہوگئے اوربیس سالوں تک مرشدِ برحق کی صحبت بافیض میں رہ کر روحانی سفر کی تکمیل کی اس دوران شیخِ کامل نے آپ کو سلوک کی منزلیں طے کراتے ہوئے اس قدر کامل بنادیا کہ اب مریدِ صادق کی نگاہوں کے سامنے سے بہت سارے غیبی حجابات ہٹ گئے تحت الثریٰ تا حجابِ عظمت روشن ہوگئے۔خود حضرت خواجہ غریب نواز اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں۔
’’ مسلمانوں کا یہ دعا گو معین الدین حسن سنجری بمقام بغداد خواجہ جنید کی مسجد میں حضرت خواجہ عثمانی ہارونی کی دولتِ پا بوسی سے مشرف ہوا۔ اس وقت مشائخ کبار حاضر خدمت تھے ۔ جب اس عاجز نے سر نیاز زمین پر رکھا ، پیر و مرشد نے ارشاد فرمایا دو رکعت نماز ادا کر ،دعا گو نے ادا کی،پھر فرمایاقبلہ رو بیٹھ جا ، دعا گو بیٹھ گیا پھر فرمایا’’ سورۂ بقرہ پڑھ ‘‘ اس دعا گو نے پڑھی،پھر فرمان ہوا ’’ اکیس بار درود شریف پرھ‘‘ دعا گو نے پڑھا ۔ ازاں بعد آپ (حضرت خواجہ عثمان ہارونی) کھڑے ہوگئے اور دعا گو کا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف منہ کیا اور فرمایا’’ آ تاکہ تجھے خدا تک پہنچادوں‘‘ بعد ازاں مقراض(قینچی) لے کر دعا گو کے سر پر چلائی اور کلاہ چہار ترکی درویش کے سر پر رکھی،گلیم خاص عطا فرمائی،پھر ارشاد فرمایا ’’ بیٹھ‘‘دعا گو بیٹھ گیا۔ فرمایا خانوادہ میں ایک شبانہ روز مجاہدہ کا معمول ہے تو آج دن رات مشغول رہ ‘‘ درویش بحکمِ محترم مشغول رہادوسرے دن جب حاضرِ خدمت ہوا ۔ ارشاد ہوا ’’ بیٹھ جا اور چار ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ ‘‘دعا گو نے پڑھی پھر فرمایا‘‘ آسمان کی طرف دیکھ ’’ دعا گو نے دیکھا۔ دریافت فرمایا’’ کہاں تک دیکھتا ہے‘‘ عرض کیا ’’ عرش اعظم تک‘‘ پھر فرمایا زمین کی طرف دیکھ دعا گو نے دیکھا پوچھا’’ کہاں تک دیکھتا ہے‘‘عرض کیا ’’ تحت الثریٰ تک‘‘فرمایا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ ۔ دعا گو نے پڑھی ۔ فرمایا ’’ پھر آسمان کی طرف دیکھ ‘‘ دعا گو نے دیکھا ۔ پوچھا ’’ اب کہاں تک دیکھتا ہے‘‘ عرض کیا حجابِ عظمت تک‘‘ فرمایا ’’آنکھیں بند کر ‘‘ دعا گو نے بند کرلی فرمایا کھول پھر دعا گو کو اپنی انگلیاں دکھا کر پوچھا ’’کیا دیکھتا ہے ‘‘ عرض کیا ہژدہ(اٹھارہ) ہزار عالم دیکھتا ہوں ‘‘ بعد ازاں سامنے پڑی ہوئی ایک اینٹ کے اٹھانے کا حکم فرمایا۔ دعا گو نے اٹھائی تو مٹھی بھر دینار بر آمد ہوئے فرمایا ’’ان کو فقر ا میں تقسیم کر ‘‘ دعا گو نے حکم کی تعمیل کی بعد ازاں حاضرِ خدمت ہوئے ارشاد ہوا چند روز ہماری صحبت میں رہو عرض کیا تابع فرمان ہوں‘‘
📖 معین الارواح ص: ۴۵

پیر و مرشد کو اپنے مرید پر فخر:

حضرت خواجہ غریب نواز کو اپنے پیر ومرشد سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی ، جس کا صلہ ان کو یہ ملا کہ مرشد نے بھی ان کو اپنا بنالیا۔ چناں چہ آپ کے مرشدِ گرامی فرماتے ہیں ’’ معین الدین محبوبِ خدا است ، مرا فخر است برمریدی او‘‘ (معین الدین خدا کا محبوب کا محبوب ہے اور مجھ کو اس کی مریدی پر فخر ہے۔ )
📖 خواجہ غریب نواز و دروسِ ایمان و عمل ص: ۲ شجرۂ طریقت:

آپ کا شجرۂ طریقت کچھ اس طرح ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی مرید حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی مرید حضرت شریف ژندنی مرید حضرت خواجہ قطب الدین چشتی مرید حضرت خواجہ ناصرالدین ابو یوسف چشتی مرید حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی مرید حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی مرید حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری مرید حضرت شیخ امین الدین ہبرۃ البصری مرید حضرت سدید الدین حدیفۃ المرعشی مرید حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم بلخٰی مرید حضرت ابو فضیل بن عیاض مرید حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید مرید حضرت خواجہ حسن بصری مرید امام الاولیاء سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بارگاہِ خداوندی میں مقبولیت:

ــــــ ہشت بہشت میں انیس الاروا ح کے اندر حضرت خواجہ معین الدین حسن رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے کہ ’’ پھر ہمیں خانۂ کعبہ کی حاضری نصیب ہوئی وہاں حضرت خواجہ نے اس ناچیز کا ہاتھ پکڑ کر اللہ کے حوالے فرمایا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہوکر اس فقیر کے لیے دعا فرمائی اس وقت غیب سے ندا آئی ہم نے معین الدین کو قبول فرمایا‘‘
📖 ہشت بہشت ص: ۱۵
بارگاہِ خداوندی سےمقبولیت کی سند پاجانے کے بعد اپنے پیرومرشد کے ہمراہ روضۂ مصطفیٰ ﷺ پر حاضری کا شرف حاصل کیا، پیرومرشد نے بارگاہِ رسول میں سلام عرض کرنے کا حکم دیا تو ادب و احترام کے ساتھ سلام پیش کیا تو روضۂ انور سے آواز آئی وعلیک السلام یا قطب المشائخ‘‘ یہ آواز سن کر حضرت عثمان ہارونی نے فرمایا کہ آ تیرا کام ہوگیا ‘‘
اور پھر آقائے دوعالم ﷺ نے ابرِ کرم برساتے ہوئے خواجہ معین الدین چشتی سے ارشاد فرمایا ’’ اے معین الدین! تو میرے دین کا معین ہے ۔ میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی۔وہاں کفر و ظمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا‘‘
📖 سیر الاقطاب ص: ۱۲۴
خوشخبری ملنے پر آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہی مگر حیرت زدہ بھی رہے کہ اجمیر کون سی جگہ ہے اور ہندوستان میں کہاں واقع ہے اسی سوچ و فکراور حیرت و استعجاب کے عالم میں تھے کہ آنکھیں بند ہوئیں اور دل بیدار ہوا خواب میں پیارے آقا ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آقائے دوعالم ﷺ نے چشمِ زدن میںسارے عالم(دنیا) کو مشرق تا مغرب دکھادیایہاں تک کہ حضرت خواجہ غریب نواز کو اجمیر کا قلعہ اور پہاڑ ، اوراس کے محل وقوع تک کو دکھادیا، اور ایک جنتی انار عطا فرماکر ارشادفرمایا کہ میں نے تجھے خدا کے حوالے کیا۔
📖 ماخوذ از: مونس الارواح ص: ۳۰
خواب سے بیدار ہونے کے بعد اجمیر کے لیے رختِ سفر باندھا چالیس اولیاءاللہ کی معیت میں روانہ ہوئے۔اس سفر میں مختلف متبرک مقامات اور اکابر اولیاء و مشائخ کی زیارت کرتے ہوئے لاہور(پاکستان)پہنچے اور وہاں حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش لاہوری کے مزارِ مبارک پر حاضری دی ،یہاں کی روحانیت، فیوض و برکات اور داتا کا مقام ومرتبہ دیکھ کر اکتسابِ فیض کی غرض سے چند روز وہا ں قیام کا ارادہ فرمالیا ،باطنی فیض سے مستفیض ہونے کے بعد جب یہاں سے عازمِ سفر ہوئےتو حضرت داتا گنج بخش لاہوری علیہ الرحمہ کی عظمت و شان کا اعتراف اس انداز میں کیا ۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
یعنی گنج بخش داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ کا فیض سارے عالم پر جاری ہے اور آپ نورِ خدا کے مظہر ہیں ،آپ کا مقام یہ ہے کہ راہِ طریقت میں جو ناقص ہیں ان کے لیے پیر کامل اور جو خود پیر کامل ہیں ان کے لیے بھی رہنما ہیں۔
📖 فیضانِ خواجہ غریب نواز ص: ۱۲
یہاں سےعارفین کی جماعت کے ساتھ راجہ رائے پتھورا کے زمانے میں اجمیر تشریف لائے ، لیکن راجہ اور اس کے مقربین کو اہلِ حق کی آمد ناگوار محسوس ہوئی اور انھوں نے اپنے یہاں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو سخت ناپسند کیا ،طرح طرح سے تکلیفیں دینے کی کوشش شروع ہوگئی،جادو گروں کو مقابلہ پر لایا گیا تاکہ یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں مگر ان کو کامیابی نہ مل سکی ، ان مواقع پر حضور خواجہ غریب نواز کی چند کرامتیں بہت مشہور ہوئیں۔راجا کے اونٹ بیٹھے ہی رہ گئے

حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ مع ساتھیوں کے اجمیر پہنچے تو سایہ دار درختوں کے نیچے قیام فرمایا، کچھ ہی دیر بعد ساربان بھی آگئے اور آپ سے اس جگہ سے ہٹنے کو کہا آپ نے فرمایا ،اونٹوں کو دوسری جگہ بٹھادو مگر ساربان نہ مانا اور کہا کہ راجہ کے اونٹ یہاں بیٹھیں گے ۔ آپ نے فرمایا ’’ ہم تو اٹھتے ہیں ، تمھارے اونٹ بیٹھے رہیں گے‘‘ دوسرے دن جب ساربان نے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو نہ اٹھے،مجبور ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے گستاخانہ سلوک کی معافی چاہی ، آپ نے مسکرا کر فرمایا اللہ کے حکم سے تمہارے اونٹ اٹھ جائیں گے ساربان جب واپس آئے تو دیکھا کہ اونٹ کھڑے ہوگئے ہیں۔
📖 سوانحِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ص: ۱۳۰

انا ساگر کا سارا پانی ایک کاسہ میں :

حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کو جب اونٹوں کے ساربان نے وہاں سے اٹھایا تو انا ساگر پر آگئے جس کے ہر چہار جانب بڑے بڑے مندر اور بت موجود تھے ،انا ساگر پر آنے کے بعد اس کے پانی کو وضو اور غسل کے لیے استعمال کرنے لگے مگر چھوا چھوت جیسے خرافاتی ذہن رکھنے والوں کو یہ گوارا نہ ہوا اور راجا سے آکر کہا کہ غیر مذہب کے کچھ لوگ ہماری پرستش گاہ کے قریب آٹھہرے ہیں ۔ راجا نے حکم دیا کہ سب کو وہاں سے نکال دیا جائے چنانچہ ایک ہجوم کی صورت میں وہ حملہ آور ہوئے مگر تصرفاتِ خواجہ غریب نواز کے سامنے ان کی ایک نہ چلی ، سلطان الہند نے ایک مشت خاک لے کر ان کی پھینکی تو جس پر پڑی وہیں بے حس و حرکت اور منجمد ہوکر رہ گیا۔ پھر تیسرے روز راجا اور تمام اہلِ شہر تالاب پر پوجا کے لیے جمع ہوئے ، رام دیو مہنت ایک جماعت کے ساتھ آپ کو وہاں سے ہٹانے کو آیا مگر نگاہِ خواجہ جب اس پر پڑی تو جسم پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ اور قدموں میں گر کر مشرف باسلام ہوگیا ۔ اب حضرت خواجہ نے اپنے مرید کے ذریعے ایک کاسہ انا ساگر سے پانی بھروایا۔ کاسے میں انا ساگر کا پورا پانی اسی ایک کاسے میں جمع ہوگیا اور پورا انا ساگر خشک ہوگیا، اہلِ شہر اور جانور پیاس سے بے چین ہوئے اور معافی طلب کی تو آپ نے پانی واپس کردیا پھر حسبِ سابق انا ساگر لبالب بھرگیا۔
📖 ماخوذ از: سیر الاخیار، محفلِ اولیا ص: ۲۴۳ سلطان الہند کا کھڑاون :

یہ سب دیکھ کر راجہ پتھورا بہت گھبراگیاتھا کہ اب اس کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے گا ، کیونکہ اس کی ماں کاہنہ تھی اور بارہ سال قبل اس نے اپنے بیٹے کو خبردار کیا تھا ’’کہ ایک مردِ درویش فلاں حلیہ کا اس ملک میں آکر تیرے اور تیری سلطنت کے زوال کا باعث ہوگا‘‘گھبراہٹ کے عالم اس نے جادوگروں کو بلایا اور اس وقت کا سب بڑا نامور اور خوفناک جادو گر جوگی جیپال کو بطورِ خاص مدعو کیا ۔ وہ مرگ چھالا(ہرن کی بالوں سمیت کھال)پر ڈیڑھ ہزار چیلوں کو ساتھ لیے بہ سرعت اجمیر پہنچ گیا اور ایک خوفناک قوت کے ساتھ مقابلہ کے لیے بڑھا، اس طرح کے جادو کے شیر، اژدہے ساتھ ہیں اور سب آگ کے چکر(گولے) پھینکتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ مخلوقِ عظیم ساتھ تھی،سلطان الہند کے ساتھیوں نے جادو کا یہ خوفناک منظر دیکھا تو گھبرا گئے مگر آپ نے سب کےگرد حصار کھینچ دیا، اب ایک طرف سے سانپ بڑھنے شروع ہوئے ، دوسری طرف سے شیر چلے اوپر سے ، سامنے سےآگ برسنی شروع ہوئی ، دہشت ناک سماں تھا،اہلِ شہر تک لرز رہے تھے، مگر جادو کے اثرات حصار تک ختم ہوجاتے تھے ،سلطان الہند نماز میں تھے جس کے بعد آپ نے ایک مٹھی خاک جو پھونک کر پھینکی سارا طلسم فنا ہوکر رہ گیا۔ اب میدان صاف تھا اور جے پال شکست خوردہ کھڑا تھا مگر اب بھی شقاوتِ قلبی گئی نہ تھی ۔ جادو کے ذریعے پرواز کا ملکہ حاصل تھا اس نے اڑنا شروع کیاتو فضا کی بلندیوں میں جا گھسا مگر خواجہ غریب نواز نے اپنی کھڑاون کو اشارہ کیا ،کھڑاون اڑی اور جے پال کے سر پر مارتے ہوئے زمین پر لے آئی، اب کوئی چارہ نہ تھا قدموں میں گرا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا ۔ اس کا اسلامی نام عبد اللہ رکھا گیا۔
📖 ماخوذ از: محفلِ اولیا ص: ۳۴۴/ سیرتِ خواجہ غریب نواز ص: ۳۴

پتھورا را زندہ گرفتہ بدست لشکر اسلام دادم

رائے پتھورا ان تمام معاملات کے بعد بھی اپنی ناپاک حرکتوں سے باز نہیں آیا اور ہمیشہ کسی نہ کسی طرح سے آپ کو اور آپ کے مریدوں کو ستانے میں لگا رہتا تھا ،صاحبِ مرأۃ الاسرار نےسیر الاولیا کے حوالے لکھا ہے کہ خواجہ غریب نواز کا ایک مرید تھا جسے رائے پتھورا بہت تنگ کرتا تھا اس نے آپ سے مدد کی التجا کی ۔ آپ نے راجہ پتھورا سے کہلا بھیجا کہ اس کو مت ستاؤ ۔ لیکن رائے پتھورا کا سر غرور و تکبر سے بھرا ہوا تھا ۔ باز نہ آیااور خواجہ بزرگ کی شان میں بھی ناشائستہ کلمات منہ سے نکالے، جب یہ بات آپ تک پہنچائی گئی ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ’’ پتھورا را زندہ گرفتہ بدست لشکر اسلام دادم‘‘ یعنی پتھورا کو زندہ گرفتار کرکے میں نے لشکرِ اسلام کے ہاتھ میں دے دیا، انہی ایام میں سلطان فخر الدین سام عرف شہاب الدین غوری لشکر لے کر غزنی سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ پتھورا نے مقابلہ کیا لیکن اللہ کے حکم سے وہ زندہ گرفتار ہوگیا اور مسلمانوں نے اسے قتل کرڈالا‘‘
اس کے بعد پھر حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیا جو رہتی دنیا تک تاریخ کے دامن محفوظ رہیں گے اور ان کی تعلیمات اور ارشادات پرعمل پیراں ہوکر اہلِ حق مستفیض و مستنیر ہوتے رہیں گے۔
آپ کے اسفار اور اولیاء اللہ سے ملاقات:
جن مقامات کی آپ نے سیر و سیاحت فرمائی ان میں سے چند حسبِ ذیل ہیں ۔
خراسان،سمرقند، بخارا،عراق ، عرب ، ہارون،بغداد ، کرمان ، ہمدان ، تبریز، استرآباد، خرقان،میمنہ، ہرات، سبزہ وار، افغانستان، غزنی، رے، فالوجہ، مکہ معظمہ،مدینہ طیبہ، بدخشاں، دمشق ، جیلان، اصفہان، چشت،ہندوستان براہِ ملتان،سمانہ، دہلی ، اجمیر وغیرہ
📖 خواجہ غریب نواز ص: ۲۱

ان اسفار میں درجِ ذیل اولیاء اللہ سے ملاقات حاصل ہوئی۔

حضور سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی سرکارِ بغدار رضی اللہ عنہ ، حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ،
حضرت شیخ ضیاء الدین ،
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی،
حضرت شیخ ابو سعید تبریزی،
شیخ محمود اصفہانی،
حضرت شیخ احمد خضرویہ،
حضرت شیخ عبد الواحد غزنوی رحمھم اللہ آپ کی تصانیف:

(۱) انیس الارواح(پیرو مرشدخواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات)
(۲) کشف الاستار (تصوف کے مدنی پھولوں کا گلدستہ)
(۳) گنج الاسرار(سلطان شمس الدین التمش کی تعلیم و تلقین کے لیے لکھی)
(۴) رسالہ آفاق وانفس(تصوف کے نکات پر مشتمل)
(۵) رسالہ تصوف منظوم
(۶) حدیث المعارف
(۷) رسالہ موجودیہ
📖فیضانِ خواجہ غریب نواز ص: ۱۸

نکاح اور اولاد :

ایک رات خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کی خواب میں زیارت کی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اے معین الدین! تم ہمارے دین کے معین ہو اور میری سنتوں میں سے ایک سنت کے تارک ہو‘‘
بیدار ہونے کے بعد آپ نے نکاح کا ارادہ فرمایا اور پہلی شادی بی بی امۃ اللہ سے کی جن کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جن کا نام حافظہ جمال رکھا گیا ۔ چند ایام کے بعد سید حسین مشہدی کے چچا سید وجہ الدین کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے خواب میں فرمایا کہ اپنی لڑکی کا خواجہ معین الدین سے نکاح کردو۔جب یہ معاملہ حضرت خواجہ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے دوسری شادی بی بی عصمت سے کیا ان سے دو فرزند ہوئے ۔ حضرت شیخ فخر الدین ، حضرت شیخ حسام الدین
📖 مرأۃ الاسرار ص: ۵۹۹ آپ کے خلفاء

(۱) حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ (دہلی)
(۲) حضرت شیخ حمید الدین ناگوری علیہ الرحمہ (ناگور شریف)
(۳) حضرت خواجہ فخر الدین فرزند ارجمند حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ (سروار شریف)
(۴) حضرت خواجہ برہان الدین عرف بدر علیہ الرحمہ (بدر شریف)
(۵) حضرت شیخ وجیہ الدین علیہ الرحمہ (ہرات)
(۶) حضرت خواجہ برہان الدین عرب بدر علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)
(۷) حضرت شیخ احمد علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)
(۸) حضرت شیخ محسن علیہ الرحمہ
(۹) حضرت خواجہ سلیمان غازی علیہ الرحمہ
(۱۰) حضرت شیخ شمس الدین علیہ الرحمہ
(۱۱) حضرت خواجہ حسن خیاط علیہ الرحمہ
(۱۲) حضرت عبد اللہ (جن کا نام جے پال تھا ) علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)
(۱۳) حضرت شیخ صدر الدین کرمانی علیہ الرحمہ
(۱۴) حضرت بی بی حافظہ جمال صبیہ سعیدہ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)
(۱۵) حضرت شیخ محمد ترک نار نونی علیہ الرحمہ (دہلی)
(۱۶) حضرت شیخ علی سنجری علیہ الرحمہ
(۱۷) حضرت خواجہ یادگار علی سبزداری علیہ الرحمہ
(۱۸) حضرت خواجہ عبد اللہ بیابانی علیہ الرحمہ
(۱۹) حضرت شیخ متا علیہ الرحمہ
(۲۰) حضرت شیخ وحید علیہ الرحمہ
(۲۱) حضرت شیخ مسعود غازی علیہ الرحمہ
📖 حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز ص: ۳۷

ملفوظاتِ سلطان الہند :
(۱) جو بندہ رات کو باطہارت سوتا ہے، تو فرشتے گواہ رہتے ہیں اور صبح اللہ عزوجل سے عرض کرتے ہیں ، اے اللہ عزوجل! اسے بخش دے یہ باطہارت سویاتھا۔
(۲) نماز ایک راز کی بات ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے ، چنانچہ حدیث پاک میں آیا ہے۔’’ ان المصلی یناجی ربہ‘‘ یعنی نماز پڑھنے والا اپنے پروردگار سے راز کی بات کہتا ہے۔
(۳) جو شخص جھوٹی قسم کھاتا ہے وہ اپنے گھر کو ویران کرتا ہے اور اس کے گھر سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے۔
(۴) مصیبت زدہ لوگوں کی فریاد سننا اور ان کا ساتھ دینا ، حاجتمندوں کی حاجت روائی کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اسیروں کو قید سے چھڑانا یہ باتیں اللہ عزوجل کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتی ہے۔
(۵) نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر اور برے لوگوں کی صحبت بدی کرنے سے بھی بدتر ہے۔
(۶) بدبختی کی علامت یہ ہے کہ انسان گناہ کرنے کے باوجود بھی اللہ عزوجل کی بارگاہ میں خود کو مقبول سمجھے۔
(۷) خدا کا دوست وہ ہے جس میں یہ تین خوبیاں ہوں: سخاوت دریا جیسی،شفقت آفتاب کی طرح، تواضع زمین کی مانند
(۸) حدیث میں آیا ہے کہ الصحبۃ تاثر‘‘ یعنی صحبت اثرانداز ہوتی ہے لہٰذا نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا چاہیے۔
(۹) حاجت برآری کے لیے سورۂ فاتحہ بکثرت پڑھنا چاہیے۔
📖 فیضانِ خواجہ غریب نواز ص:۱۸/ حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز ص: ۴۱ وصالِ پرملال:

جس رات خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا چند اولیاء اللہ نے حضور رحمت عالم ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرمارہے ہیں کہ اللہ ے دوست معین الدین سنجری آرہے ہیں ہم ان کے استقبال کو آئے ہیں ۔
۶؍ رجب المرجب ۶۳۷ھ مطابق ۲۱؍مئی بروز دو شنبہ ۱۲۳۰ء بعد نماز ِ عشاء آپ نے حجرہ کا دروازہ بند کرلیا اور خدام کو اندر آنے کی ممانعت فرمادی۔ خدام حجرہ کے باہر موجود رہے ۔ ان کے کانوں میں تمام شب صدائے وجد آتی رہی ۔ آخر شب میں وہ صدا بند ہوگئی۔ جب نماز صبح کا وقت آیا اور حجرہ کا دروازہ حسبِ معمول نہیں کھلا تو دروازہ توڑ کر دیکھا گیا کپہ آپ واصل بحق ہوچکے ہیں اور جبینِ مبارک پر بخط قدرت ’’ ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ ‘‘ منقوش ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
📖 معین الارواح ص:۷۷
حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی ذاتِ ستودہ صفات بے شک مظہرِ شانِ مصطفیٰ ﷺ تھی ۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خدمتِ دین متین کے لیے وقف کردی تھی اور دنیا کے کثیر خطہ میں سفر فرماکر لاکھوں بے راہوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن فرمادیا ،اعلیٰ اخلاق و کردار اور غریب پروری کی لاجواب مثال قائم فرمائی۔ آج بھی اجمیرِ معلیٰ میں آپ کے فیوض وبرکات سے خلقِ خدا مستفیض ہورہی ہے۔
برادرِ اعلیٰ حضرت ،استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
٭٭٭

از قلم: محمد عامر حسین مصباحی رسول گنج عرف کوئلی