شوذب منیز
(علی گڑھ )النیاز ایجوکیشن اینڈ ویل فیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ کے سرسید نگر میں واقع خانقاہے نیازیہ میں جشن مولود کعبہ کا انعقاد کیا گیا ۔بعد نمازعصر میلاد علی منعقد کیا ، جس میں مولا ئے کائنات کی بارگاہ میں منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حىدر على نىازى حافظ فرقان نىازى صفدر نىازى ،جعفر نىازى حىدر عباس نىازى روحان نىازى وغىره نے منقبتی کلام ڀاور سلام پیش کیا۔ پھر بعد نماز مغرب ذکر مولائے کائنات کا اہتمام کیا گیا۔محفل کے اختتام پر تبرک طعام کا اہتمام کیا گیا
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے النیاز ایجوکیشن اینڈ ویل فیئر سوسائٹی کے روح رواں پیر طریقت ڈاکٹر محمد عباس نیازی نے کہا کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کو دنیا میں مجموعہ اضداد شخصیت کے طور پر پہچانا اور لکھا جاتا ہے، یعنی آپ ہی وہ شخصیت ہیں، جن میں بیک وقت ایک دوسرے کی ضد صفات پائی جاتی ہیں، کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ مصلٰی عبادت پر محو رہنے والا علی میدان کارزار کا شہسوار بھی ہے، اسکی شجاعت و بہادری کا ڈنکا عالم عرب میں بجتا ہے اورانہیں یہ کمال بھی حاصل ہے کہ ان کے خطبات ،اقوال ایسے فصیح و بلیغ ہوں کہ آج تک شیدائے علم و ادب انہیں ادب و زبان کی گہرائیوں کے عنوان دیتے ہیں اور اہل علم ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپکی انہی بلند صفات و کمالات کی بدولت رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے، لوگوں نے دیکھا کہ کبھی اللہ کے پیارے نبی یہ فرما رہے ہیں کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔ کبھی یہ فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ کبھی یہ فرمایا کہ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ مژدہ سنایا کہ علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے، جو ہارون کو موسٰی سے تھی۔ کبھی یہ فرمایا کہ علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، مواخات مدینہ کے موقعہ پر جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو امیر المومنین علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں حاجیوں کے مجمع میں علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا مولا اور سرپرست ہوں، اسی طرح علی بھی تم سب کے مولا و سرپرست ہیں۔یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور تمام مسلمانوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو مبارک باد دیا۔
پیرطریقت ڈاکٹر محمد عباس نیازی نے مذید کہا کہ فرزند ابو طالب، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو ایسے شرف اور فضائل حاصل ہیں، جو کسی بھی اور شخصیت کو نصیب نہیں ہوئے۔ آپ پروردہ نبوت ہیں، اس لئے کہ ابھی بچے تھے کہ نبی کریمؐ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب ؑ سے آپ کو گود لے لیا، حضرت ابو طالب ؑ نے نبی آخر کی پرورش فرمائی تھی، اپنے پاس رکھنے کے بعد امام علی ؑ کی پرورش اور نشو ونما آنحضرتؐ ہی کے زیرسایہ ہوئی، یہی وجہ ہے کہ کسی اور انسان کو آنحضرتؐ کے زیرسایہ اتنی وقت گذارنا اور صحبت رکھنا نصیب نہیں ہوا، جتنا امیرالمومنین حضرت علیؑ کو موقعہ ملا۔ حضرت علی ؑ خود فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمؐ کے ساتھ یوں ہوتا تھا جیسے اونٹنی کے ساتھ اس کا بچہ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے آنحضرتؐ نے اس طرح سے علم دیا، جیسے فاختہ دانہ دانہ کرکے اپنے بچے کو دیتی ہے۔
پیرطریقت ڈاکٹر محمد عباس نیازی نے کہا کہ امیرالمومنین کے اتنے فضائل ہیں کہ گننا اور شمار کرنا نا ممکن ہے ، یہ علی ؑ ہی تھے، جن کا مسجد نبوی میں کھلنے والا دروازہ رسول خدا نے بند نہیں کیا تھا ، جبکہ دیگر صحابہ کے دروازے بند کر دیئے گئے تھے، آپ کی پاکدامنی اور عصمت کی گواہی قرآن نے دی تھی کہ رجس آپ ؐ اور آپ کے اہلبیت کے دیگر اراکین سے دور تھا، قرآن اس کا گواہ ہے کہ صرف علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے اعلان نبوت سے پہلے بھی کوئی نادانی یا معصیت کاری نہیں کی تھی، نجانے کیسے لوگ حضرت ابو طالب کہ جو محسن اسلام ہیں، ان کے اس فرزند کیساتھ بغض و کینہ رکھتے ہوئے ناقابل قبول اور من گھڑت ضعیف روایات کے سہارے آپ کے مقام و منزلت پر وار کرتے ہیں۔ دراصل ایسے لوگ اپنی اصلیت کو ظاہر کرتے ہیں، ان کا شمار ان منافقین میں ہی ہوتا ہے، جنہیں زمانہ نبوت میں مسلمان پہچاننے کیلئے علی ؑ کا نام لیا کر تے تھے، ہمارے ملک میں قومی میڈیا میں ایسے کئی ایک ناسور اپنی تحریروں سے حیدر کرار کے چاہنے والوں دل دکھاتے نظر آتے ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک دن وہ گرفت میں آجائیں گے، تب انہیں بچانے کوئی نہیں آئے گا۔
پیرطریقت ڈاکٹر محمد عباس نیازی نے کہاکہ امام علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے زندگی کا ہر لمحہ و ساعت رسول خدا کی معیت و سرپرستی میں گذاری، اسی لئے رسول خدا ؐنے امام علی ؑ کو ہی اپنا بھائی قرار دیا، جب مواخات مدینہ ہوا تو آپ نے سب کے سامنے علی ؑ کو اپنا بھائی منتخب فرمایا، یہ علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے بستر رسول پر سو کر آیت قرآنی کی رو سے مرضی خدا خرید لی، ایسے وقت میں جب کفار و مشرکین مکہ جو ابوسفیان کی قیادت میں آپ ؐ کو شہید کرنا چاہتے تھے، امام علی ؑ نے بستر رسول پر سو کر آپ کو ہجرت کیلئے روانہ کیا اور جب کفار و مشرکین آپ تک پہنچے تو سامنے مولا علی کو پایا، یہ علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے سبھی جنگوں میں اپنی شجاعت و بہادری سے خود کو منوایا، جنگ بدر میں مشرکین کے ستر چنیدہ سردار مارے گئے، جن میں سے آدھے امام ؑ علی نے تہہ تیغ کئے، جنگ خیبر میں یہودیوں کے معروف قلعہ کو آپ نے ہی فتح کیا اور یہودی پہلوان مرحب کو ایک ہی وار سے ختم کر دیا، جنگ خندق میں جب ایک پہلوان خندق پھلانگ کر اندر داخل ہوگیا اور رسول ؐ کے خیمہ کے سامنے مد مقابل کو للکارنے لگا تو سب سہمے ہوئے تھے، تب رسول کو غصہ میں کہنا پڑا کہ کون اس کتے کی زبان خاموش کریگا، اسی وقت مولا علی سامنے آئے جبکہ آپ کی عمر بہت چھوٹی تھی، امر ابن عبدود مانا ہوا پہلوان تھا، جو ایک ہزار بندوں پہ بھاری تھا، آپ نے اسے للکارا اور پہلے وار کا موقعہ دیا اور پھر اسے اگلے جہاں رخصت کر دیا۔ پیرطریقت ڈاکٹر محمد عباس نیازی نے کہا کہ مولا علی ؑ کا عظیم کارنامہ تھا، اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مولا علی خشک روٹی پانی میں ڈبو کر کھاتے تھے، یہ ان کا تقویٰ اور للہیت تھی، ورنہ وہ سب کچھ رکھتے تھے اور اس بات کو ہر ایک تسلیم کرتا ہے کہ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ آپ کی شادی مرضی خدا سے
ہوئی، اگر علی نہ ہوتے تو سیدہ کا ہم کفو کوئی نہ ہوتا، اس سے بڑھ کے آپ کی کیا عظمت بیان ہو کہ رسول کی صاحبزادی کیلئے بڑے بڑے نامور صحابہ رشتہ لینے گئے مگر ناکام ہوئے جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ رشتہ آسمان پر طے ہوچکا تھا، نبی خدا نے مرضی خدا کے مطابق آپ کا نکاح سیدہ کائنات سے پڑھایا۔ دنیا نے پھر وہ وقت دیکھا، جب آپ امت کے خلیفہ اور وقت کے امام تھے اور کوفہ کو اپنا دار الخلافہ بنایا ہوا تھا، انیسویں ماہ مبارک رمضان کی شب تھی امیر المومنین حضرت علی ؑ ماہ رمضان کی انیس کو نماز صبح کی ادائیگی کے لئے مسجد کوفہ کی جانب گئے، جہاں اپنے وقت کا سب سے شقی ترین شخص ابن ملجم زہر میں بجھی تلوار لئے امام ؑ کی آمد کا منتظر تھا، تاکہ کائنات کی اس برترین شخصیت اور تاریخ انسانیت کے سب سے عظیم انسان کے فرق مبارک کو شگافتہ کرے۔ عبدالرحمان ابن ملجم ملعون نے انیسویں کی شب (فجر) میں آپ کے سر پر زہر میں بجھی تلوار سے ضربت لگائی اور دو روز تک موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد اکیس ماہ رمضان سن چالیس ہجری قمری کو آپ اپنی دیرینہ آرزو یعنی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ آپ کی زبان مبارک نے اس وقت یہی کلمات ادا کئےرب کعبہ کی قسم علی ؑ کامیاب ہوگیا۔آپ کی شہادت کے بعد دعویٰ سلونی کرنے والی شخصیت سے امت مسلمہ محروم ہو گئی ۔
اس موقع علی زمن نیازی ،علی حسنین نیازی، عباد نیازی، صفدر نیازی، فخرى على نىازى ، روحان نیازی ، سرور عظیم نیازی،حیدر علی نیازی، جعفر علی نیازی ، ،روحان نیازی، جنیدنیازی کریم نیازی اورمتعدد لوگ موجود تھے۔