حضرت شاہ اکبر داناپوری کا دو روزہ 119 واں سالانہ عرس اختتام پذیر
پٹنہ : خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور میں حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری کے دو روزہ 119 واں سالانہ عرس کی تقریبات بدھ کی صبح پہلے قل سے ہوئی، اس موقع پر مختلف اضلاع سے زائرین شریک عرس ہوئے، یہ عرس لوگوں کو اخوت و ہمدردی اور سالمیت و استحکام کے ساتھ اخلاص و اخلاق کی مکمل تعلیم دیتا ہے، لوگ کثرت کے ساتھ یہاں حاضر ہوتے ہیں اور اکتسابِ فیض کرتے ہیں، عرس کی ابتدا بدھ کی صبح فجر کی نماز کے بعد قرآن خوانی اور وقتِ چاشت پہلا قل حضرت مولانا شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی سے عمل میں آیا جس میں حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعلائی کی دعا ہوئی، قیام و طعام کے بعد خانقاہ میں لوگوں نے مغرب کی نماز ادا کی پھر محفلِ تذکیر کا آغاز تلاوت سے ہوا، حمد و نعت کے بعد مولانا شاہ حیات احمد ابوالعلائی نے کہا کہ حضرت اکبر کی علمی و روحانی کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں اپنے عہد کا معتبر صوفی و عالم قرار دیا، حضرت اکبر سے اپنی عقیدت کا اظہار والہانہ انداز میں کیا، انہوں نے حضرت اکبر کے توکل اور مجاہدانہ زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں اپنے عہد کا ممتاز صوفی قرار دیا، حضرت اکبر کی ولایت و معرفت اور ان کی صوفیانہ شاعری کے حوالے سے علمی گفتگو بھی کی، مولانا شاہ محمد ریان ابوالعلائی نے کہا کہ صوفیائے کرام ہی کے نقشِ قدم پر چل کر آج معاشرے میں روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوسکتا ہے، انہوں نے حضرت شاہ اکبر داناپوری کی سیرت و کتب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک خدمتِ خلق سب سے بڑی عبادت تھی، موجودہ عہد میں اصلاح معاشرہ کے لیے صوفیوں کی روش پر قائم رہنا وقت کی ضرورت ہے، محفل کا اختتام حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعلائی کی دعا پر ہوا اس طرح عشا کی نماز کے بعد خانقاہ سے عقیدت مند آستانہ عالیہ کی طرف چادر لے کر روانہ ہوئے جس میں عقیدت مندوں کی بڑی تعداد شامل رہی، آستانہ حضرت شاہ اکبر داناپوری پر سجادہ نشیں حضرت حاجی شاہ سیف اللہ ابوالعلائی کی اجتماعی دعا ہوئی جس میں ہندوستان اور پوری دنیا کے انسانوں کی تحفظ و بقا کے لیے دعائیں مانگی گئی۔
عرس کے دوسرے روز جمعرات کو وقتِ چاشت تک بزرگان دین کے تبرکات مقدسہ کی عام زیارت کرائی گئی جس میں لوگوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ زیارت کی، حسبِ معمول اس دوران حضرت شاہ محسن داناپوری کی لکھی فارسی زبان میں منقبت خوانی کا سلسلہ بھی جاری رہا، آخر میں شاہ نصر سجاد ابوالعلائی کی دعا ہوئی، تقریباً ۱۰ بجے دن میں حسبِ معمول محفل سماع کی ابتدا مشہور کلام ’’اے بے نیاز مالک، مالک ہے نام تیرا‘‘ سے ہوا، اس کے علاوہ مخدوم شاہ محمد سجاد پاک، حضرت شاہ اکبر داناپوری، حضرت شاہ محسن داناپوری اور بیدم شاہ وارثی کے دیگر مشہور کلام بھی پڑھے گئے جس سے محفل کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا، تقریباً ۱۲:۴۵ بجے سے حضرت شاہ اکبر داناپوری کی تصنیفات کی تقریب رونمائی شروع ہوئی، ریان ابوالعلائی نے بتایا کہ ’’مولدِ غریب‘‘ شاہ اکبر داناپوری کی نورِ محمدی، فضائلِ درود، ذکرِ مولد اور سفرِ معراج پر ایک تحقیقی و علمی تصنیف ہے، اور اصلاحِ امت کے لیے سبق آموز ۴۰؍احادیث کا مجموعہ ’’چہل حدیث‘‘ ہے اور خواجگانِ چشت کے احوال و مقامات پر ایک بہترین تذکرہ ’’تاریخِ خواجگان‘‘ ہے جو اپنے موضوع پر ایک قیمتی تصنیف ہے، ان تمام کتابوں کی رونمائی عمل میں آئی، کتاب کی رونمائی سجادہ نشیں حاجی شاہ سیف اللہ ابوالعلائی نے کی، اس موقع پر خانقاہ سلیمانیہ، پھلواری شریف کے سجادہ نشیں مولانا شاہ مشہود احمد قادری، نیشنل پرائیوٹ اسکول اینڈ چلڈرن ویلفیر سوسائیٹی کے صدر سید شمائل احمد، سید شاہجہاں احمد، سید شکیل احمد، شاہ الحاج الدین ابوالعلائی، شاہ عمران احمد، وسیم اختر، شہنواز احمد، سعدالدین احمد، سرفراز خرم، شاہ بلال نظامی انجمؔ، صفدر ہاشمی، جمالؔ کاکوی، سید ندیم، فیصل کلیم، سید فہد، سید ذیشان احمد، مولانا خورشید انور اور عمر احمد ناظم وغیرہ پیش پیش رہے، عرس اکبری کا اختتام آخری قل حضرت مولانا شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی پر ہوا، آخر میں شاہ نصر سجاد ابوالعُلائی نے ملک و ملت کی سلامتی کی دعائیں کئیں۔