شوذب منیر
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات نے بھارتیہ بھاشا سمیتی، وزارت تعلیم، حکومت ہند کے اشتراک سے یک روزہ سیمینار بعنوان ’’قوم کی ترقی میں زبانوں کا کردار‘‘ کا اہتمام کیا۔ آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں افتتاحی اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے شعبہ لسانیات کو اس کی تعلیمی حصولیابیوںکے لئے مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے ذہنی افق کی توسیع، ذاتی شناخت اور قومی ترقی میں زبانوں کے اہم کردار پر گفتگو کرتے ہوئے جدت و ترقی کے لیے زبان کو ایک محرک قرار دیا۔ انہوں نے قومی ترقی کے لیے اجتماعی علم کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
مہمان اعزازی، شعبہ انگریزی کے استاد پروفیسر رضوان خان نے تقریب کے انعقاد میں بھارتیہ بھاشا سمیتی کے تعاون کو بطور خاص سراہا۔ انہوں نے پروفیسر وارثی اور ان کی ٹیم کی جانب سے سیمینار کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیا اور حکمرانی، سماجی شناخت اور تعلیمی ترقی میں زبان کو ایک متحد کرنے والی طاقت بتایا۔
اپنے ویڈیو خطاب میں بھارتیہ بھاشا سمیتی کے چیئرمین پدم شری چامو کرشنا شاستری نے اتحاد کو فروغ دینے میں مادری زبانوں کے بلند کردار کے سلسلہ میں وزیر اعظم کے وِژن پر زور دیا۔ انہوں نے تعلیم میں ہندوستانی زبانوں پر قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے فوکس اور سبھی 22 سرکاری زبانوں میں تعلیمی مواد کو قابل رسائی بنانے کے سلسلہ میں حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ 2011 کی مردم شماری کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کے بھرپور لسانی تنوع کا ذکر کیا جس میں کلاسیکی، علاقائی اور قبائلی زبانیں شامل ہیں۔
اپنے خطبہ استقبالیہ میں شعبہ لسانیات کے چیئرمین پروفیسر ایم جے وارثی نے وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کا بطور خاص شکریہ ادا کیا اور معزز مندوبین اور اسکالرز کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینے میں قومی تعلیمی پالیسی کے اہم کردار کا ذکر کیا۔
ایمیٹی انسٹی ٹیوٹ آف انگلش اینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر پروفیسر شانتنو گھوش نے اپنے کلیدی خطاب میں زبان اور قومی شناخت کے گہرے تعلق پر روشنی ڈالی۔ ہندوستان میں انگریزی کے وسیع پیمانے پر استعمال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ کی زبان کے سلسلہ میں ترجیح میں لچک پیدا کرنے کی وکالت کی۔ دہلی یونیورسٹی کے سابق استاد پروفیسر آر سی شرما نے ہندوستانی زبانوں کا رتبہ بلند کرنے کے سلسلہ میں بھارتیہ بھاشا سمیتی کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ یہ زبانیں خواندگی کو فروغ دینے اور عوام کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر ٹی این ستھیسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ زبان ترسیل و ابلاغ سے آگے بڑھ کر ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتی ہے۔مہمان اعزازی جناب مسعود علی بیگ نے زبان کو کلیدی شعبوں خصوصاً تعلیم سے ضم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس کے ثقافتی جوہر کو محفوظ رکھا جا سکے۔سیمینار کی نظامت ڈاکٹر مہوش محسن نے کی جب کہ ڈاکٹر پلّو وشنو نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔