اب تلوار اٹھانے کا وقت نہیں ہے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے : سلیم پرویز
ہم عبدالقیوم انصاری کو تبھی سچی خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں جب ہر گھر میں ایک گریجویٹ ہوجائے : عبدالسلام انصاری

پٹنہ/ جالندھر، (مظہر عالم) ،بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے سیکریٹری و ڈپٹی ڈائریکٹر سیکنڈری ایجوکیشن بہار جناب عبدالسلام انصاری نے مدرسہ بورڈ کے ہال میں آج بابائے قوم و مجاہد آزادی عبدالقیوم انصاری کے حیات و خدمات کے عنوان سے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کی صدارت انہوں نے خود کی اور نظامت کے فرائض قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی کنوینر محمد رفیع نے ادا کئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی سابق چیئرمین بہار قانون ساز کونسل پٹنہ سلیم پرویز نے عبدالقیوم انصاری کے زندگی کا مختصر تعارف کراتے ہوئے ملک اور قوم کے لئے کئے گئے ان کے خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ عبدالقیوم انصاری اتنے ایماندار تھے کہ جب وہ وزیر کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تو یہ کہتے ہوئے قلم بھی واپس کر دی کہ یہ سرکار کا ہے۔ وہ ہر وقت عوام کی خدمت میں لگے رہتے اور ٹائپرائٹر مشین ساتھ لےکر چلتے۔ اب تلوار اٹھانے کا وقت نہیں ہے بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ میں عبدالسلام انصاری کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نہ تعلیم کے ادارہ سے عبدالقیوم انصاری کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بڑا کام کیا ہے۔ ماں کی گود کے بعد مدرسہ ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کردار سازی کا پیغام دیا اور کہا کہ آپ کا کردار اعلی ہوگا تو آپ کا جنازہ بھی شاندار نکلے گا۔ اس لئے اپنے کردار کو بلند رکھیں۔ یہ سب سے بڑی بات ہے کہ آپ کے لئے کسی کے آنکھ میں آنسو ہو۔
اپنے صدارتی خطبہ میں جناب عبدالسلام انصاری نے کہا کہ عبدالقیوم انصاری ملک سے محبت کرنے والے مجاہد آزادی تھے اور غریب مجبور، پسماندہ کی آواز تھے۔ انہوں نے خدمت کرنے سے کبھی بھی قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ عبدالقیوم انصاری قومی اتحاد، سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے زبردست پیروکار تھے۔ وہ ایسے لیڈروں میں شامل تھے جنھوں نے مسلم لیگ کے علیحدہ مسلم ملک کے قیام سے متعلق نظریہ کی سخت مخالفت کی۔ بچپن سے ہی وہ انگریزی حکومت مخالف تحریکوں میں سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ محض 16 سال کی عمر میں انھیں جیل جانا پڑا۔ دراصل وہ انگریزی حکومت کے ذریعہ چلائے جا رہے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جس سے انھوں نے علیحدگی اختیار کی اور خود نیشنل اسکول قائم کر ڈالا۔ جناب عبدالسلام انصاری نے یہ بھی کہا کہ عبدالقیوم انصاری نے مومن کانفرنس قائم کیا اور 1946 کے انتخاب میں 6 سیٹ حاصل ہوا اور کانگریس کو صرف ایک سیٹ حاصل ہوئے۔ جناب انصاری نے کہا کہ ہم ان کو تبھی سچی خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں جب ہر گھر میں ایک گریجویٹ ہو جائے۔ ڈاکٹر اے پی جی عبدالکلام ایک مچھووار کا بیٹا تعلیم کے بوتے ہی صدر جمہوریہ کے مقام کو حاصل کیا۔ ہم کسی کو اپنا رہنما نہیں مانتے ہیں اس لئے پہلے ہم متحد ہو جائیں اور اپنا امام اپنا رہنما بنا لیں تبھی ہم عبدالقیوم انصاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کو سچی خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں۔
جناب امتیاز احمد کریمی سابق چیئرمین بہار پبلک سروس کمیشن نے کہا کہ بابائے قوم و مجاہد آزادی عبدالقیوم انصاری نے قومی یکجہی اور تعلیمی بیداری کا ثبوت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عبدالقیوم انصاری کی ماں عالمہ تھیں۔ انہوں نے انگریزی حکومت کی تعلیمی اداروں کی مخالفت کی اور نیشنل اسکول قائم کیا اس میں تعلیم حاصل کی۔ ہم بھی اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا انتظام کریں اسکول کالج کھولیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ رہیں۔ علم ہی ہمیں منزل دلائے گا۔ ہم اس پیغام کو عام کریں۔ میں مدرسہ بورڈ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ یہ بہار اسکول اگزامینیش بورڈ کی طرح ترقی کرے۔
تنویر انصاری نے کہا کہ عبدالقیوم انصاری نے صحافتی خدمات بھی انجام دیا م، انہوں نے ڈہری اور روہتاس میں انگریزوں کے ذریعہ بنائے گئے تعلیمی اداروں کی مخالفت کیا جس کی وجہ سے انہیں جیل جانا پڑا، وہ گاندھی جی کے اسہیوگ آندولن میں شامل ہوگئے اور کولکاتہ میں سایمن کمیشن کی مخالفت کیا جس میں وہ گھائل ہو گئے تھے۔ گاندھی جی کے کہنے پر عبدالقیوم انصاری نے مومن کانفرنس کو ایک سماجی تنظیم بنا دیا اور کانگریس کی رکنیت اختیار کر اور تاحیات وہ کانگریس کے ممبر رہے۔
ڈاکٹر محمد نور اسلام علیگ نے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس قوم کا رہنما ہو۔ اگر کسی قوم کا رہنما نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں وہ قوم بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہم لوگوں کے لئے یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ بابائے قوم و مجاہد آزادی عبدالقیوم انصاری رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک ایسے فرزند تھے جن کے اندر حب الوطنی اور قائدانہ صلاحیت موجود تھی جس کی بنا پر وہ اپنے موجودہ دور میں اہم شخصیت میں شمار کئے جاتے تھے اور ان کی اسی کارکردگی کی بنیاد پر قوم و ملت کے لئے انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا اسکی وجہ کر وہ زندہ و تابندہ رہیں گے۔ آج یومِ وفات کے موقع پر میں انہیں دل کی گہرائی سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ تقریب کا آغاز رضوان احمد کے تلاوت قرآن سے ہوئی اور محمد جشیم الدین نے نعت شریف پیش کیا۔ نظامت کے فرائض محمد رفیع نے ادا کئے اور اظہار تشکر بھی جناب رفیع نے ہی پیش کیا۔
تقریب سے محمد تنویر انصاری، محمد شبیرعالم، محمد عظیم الدین انصاری، وغیرہ نے بھی خطاب کیا وہیں پروگرام میں منہاج ڈھاکوی، نسیم اختر، رضوان السلام، رفیع الھدیٰ، محمد حماد، محمد ربانی منہاج، محمد اسلام عرف منا، ڈاکٹر قیام الدین، محمد شاہد، جد یو رہنما محمد دانش، محمد سہیل عرف منا انصاری، محمد قمر الدین وغیرہ شامل تھے۔