(80/83 ھ- 148ھ)
بنتے ہیں ان کے در سے غوث و قطب قلندر
ہیں ہر ولی کے رہبر حضرت امام جعفر
( شعر : جناب قاسم نیازی صاحب )
تصوف کے معنی :
- لفظی معنی : راہ طریقت، سلسلہ بیعت و سلوک, وہ مسلک جس کے وسیلے سے صفائی قلب حاصل ہو، علم معرفت۔
- تزکیۂ نفس کا طریقہ، اشیائے عالم کو صفات حق کا مظہر جاننا،
- پیروں، فقیروں، درویشوں اور قلندروں کا دنیاداری سے کنارہ کشی پر مبنی طرز زندگی
( فرہنگ آصفیہ اللسان العرب وغیرہ )
تصوف حدیث کی اصطلاح میں لفظ احسان کے ساتھ آیا ہے جیسے کہ ‘حدیث جبریل’ میں حضرت جبریل اسلام کیا ہے کہ بعد سوال کرتے ہیں احسان کیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے ہیں اس طرح عبادت کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت حاصل نہ کر سکو تو یہ تصور کرو کے اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے
( حیث نمبر : 50،صفحہ نمبر 108 ، جلد 1 صحیح بخاری )
اس حالت کو حاصل کرنے کے لئے جو طریقہ اور سلوک درکار ہے وہ تصوف ہے
صوفی کے معنی :
صوفی کے تعریف کر تے ہوئے حضرت شیخ جنید بغدادی فرماتے ہیں۔
صوفی وہ ہے جو پاک ،صاف اونی کپڑا پہنتاہو۔اور لوگوں کے ساتھ وفادار ہو ۔اور دنیا کو پس پشت چھوڑ دیا ہو ۔اور وہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر گامزن رہتا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے میں نے حضور کے لئے صوف کے کپڑے بنائے جو آپ نے پہنے۔
(سفر السعادہ :122)
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونی لباس زیب تن فرمایا
( سنن ابن ماجہ : حدیث نمبر 263)
امیر مومنین حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ کا موٹا اور اونی لباس پہننا بہت سی صحیح سند روایت سے ثابت ہے
صوفی وہ ہے جس کا دل ہر برائی سے پاک ہو نفرت، بغض، کینہ، عداوت، لالچ الغرض ہر دنیاوی خرابی سے پاک ہو۔صفائی دل ہی صوفی کی سب سے بڑی علامت ہے۔
حضرت ابو القاسم بنید بغدادی فرماتے ہی’ علم تصوف میں رسول اللہ کے بعد ہمارے مرشد حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ ہیں’
- فصل الخطاب
حضرت امام جعفر صادق علیہ حضرت امام علی مرتضٰی کے کامل جانشین اور وصی ہیں
خاندان اہل بیت میں علم روحانی کے کامل جانیشین پیرے اسوہ رسول ، سیرت نبوی کی کامل تصویر عالم فی الائمہ اہل بیت امام جعفر صادق جہاں شعریت میں تمام علماء کے استاد ہیں وہیں اپنے عہد میں صوفیہ کے شیخ المشائخ بھی ہیں ولادیت غوثیت کبراء کے مسند نشین ہیں دنیا میں کوئی ولی ان سے بڑ کر خدا کے قریب نہ تھا بلکہ تصوف میں آپ کی شخصیت حجت ہے مشعلہ راہ ہے
ہے بزمِ میکشاں میرِ نجف ہے میرِ میخانہ
مئے عرفاں سے ہے لبریز جامِ جعفرِ صادق
(-جناب ضیاء قادری بدایونی)
فضل خطاب میں خواجہ پارسانقشبندی لکھتے ہیں ” شیخ عبد الحمان سلمی فرماتے ہیں اس طبقہ کا یعنی مشائخ صوفیہ کا علم پہلی دوسری اور تیسری صدی ہجری کے ساتھ خاص تھا اور حضرت امام جعفر صادق تک رہا،اور ان کے بعد بھی جس نے فقراء کی صحبت اختیار کی وہ اپنے ہمعصر لوگوں پر فوقیت کے گیا”
اس کے یہ معنی نہیں بعد میں تصوف ختم ہو گیا بلکہ علم تصوف کے عروج کا زمانہ مراد ہے جیسے آج کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب تصوف کی ضرورت باقی نہیں یہ مستشرقین اور مغربی مفکرین کی تشریحات اور غلط فہمی کی وجہ سے ہے جو تصوف کو ایک سیاسی تحریک کی طرح دیکھتے ہیں ورنہ تصوف حدیث جبریل میں بیان کردہ اصطلاح ‘احسان’ کی عملی تفسیر کا نام ہے ۔ دنیا کی چکا چوند اور مادی آلودگی سے بچنے اور روح میں اللّٰہیت و اخلاص پیدا کرنا تصوف کا مقصود ہے امت مسلمہ تصوف پر عمل پیرا ہو کر ہی کمال حاصل کر سکتی ہے اسی لئے جب عباسی والئی حکومت نے امام جعفر صادق کو پیغام بھیجا کہ میں نے بات کو ظاہر کر دیا ہے اور لوگوں کو موالات اہل بیت کی دعوت دی ہے اگر آپ خواہش مند ہوں ،تو آپ کو مزید کچھ نہیں کرنا ہے ،تو آپ نے جواب دیا : تم میری امید نہیں ہو اور نہ ہی زمانہ میرا ہے چنانچہ ابو مسلم ابو عباس سفاح کی طرف مائل ہوگیا اور اسے خلافت سونب دی ۔ امام جعفر صادق چاہتے تو علم سیاست میں اور منسب خلافت میں کوئی ان سے زیادہ اہل نہ تھا ان کو اپنے اجداد سے یہ خبر مل چکی تھی اب حکومت کس کا حصہ ہونے والی ہے اور وہ نور ولایت سے یہ جانتے تھے اقتدار کے لئے جس طرح کی سیاست درکار ہے وہ شرافت خاندان نبوی اور قرآن کے حصولوں کے خلاف ہوگی اگر وقتی طور پر حکومت حاصل ہو بھی گئی تو دنیا انقلابات کی آماجگاہ ہے اسے پھر ظلم و جبر کی طرف ہی پلٹنا ہے خدا نے اس کے برعکس ان کو سلطنت روحانی سے سرفراز فرما ہوا تھا آپ نے تقوی، زہد و ورح ،پریزگاری۔ دنیا سے بے رغبتی۔ تزکیہ نفس کی تعلیم کو اپنا نسب عین بنایا، حاصل کلام یہ کہ امام جعفر صادق اور ائمہ اہل بیت کا سیاست سے دور ہونا مجبوری نہیں اختیاری تھا باض لوگ اہل تشعیہ میں کہتے ہیں امام جعفر صادق صوفیہ کو پسند نہیں فرناتے تھے اس کی مثال میں حضرت سفیان ثوری کا مکالمہ پیش کرتے ہیں جس میں امام کے لباس کے فاخرانہ ہونے پر سوال کیا تھا جو امام پر اعتراض نہیں بلکہ ایک شاگرد کا تجسوس تھا اور اسی لئے تھا کے حضرت سفیان ثوری جانتے تھے کے امام دنیا کے زیب و زینت کو پسند نہیں فرماتے پھر کیوں شاہانہ لباس پہنا ہوا ہے تو امام نے ریاکاری سے بچنے اور زہد کے ظاہر نہ کرنے کی تعلیم دی جسے تصوف میں اخفاء حال کہتے ہیں یہ بلند درجہ ہے حضرت ابوالقاسم جنید بغدادی حضرت غوث العظم حضرت بہاالدین نقشبندی بخاری حضرت نظام الدین اولیاء نے دولت کو مخلوق پر خرچ کیا ظاہراً فاخرانہ طرز زندگی اپنائی ان حضرات مقدس کو زرہ برار بھی دنیا سے محبت نہ تھی اہل تصوف کو بیچارہ مسکین تصور کرنے والوں کے لئے ایک مثال اور درسہ ہے
جیسے حضرت قبلاگاہی میکش اکبرآبادی نے فرماہے
خاکساری بھی ہے ریاکاری
ہستئی غیر کا نقاب اٹھا
حضرت سفیان ثوری کا امام سے وصیت کے لئے عرض کرنا ان کی عقیدت کو ظاہر کرتا ہے جس کا ذکر ان اس باب میں کیا جائیگا۔
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کو روہانی فیض بارگاہ امام سے
امام ابو حنیفہ نے وہ دو سال جس کے لئے فرمایا کے میں حلاک ہو جاتا اگر یہ دو سال ان کی صحبت میں نہ گزارے ہوتے وہ کوئی اور علم نہیں تھا ثوائے علم تصوف کے ورنہ وہ خود علم حدیث اور فقہ کے بڑے عالم تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس حضرت سلمان فارسی رضہ پر رکھا پھر فرمایا “اگر ایمان ثریا کی بلندیوں پر بھی ہوا تو اس کی قوم میں سے چند اشخاص یا فرمایا ایک شخص اسے حاصل کرلےگا “
(یہاں ایمان سے مراد قرآن اور حدیث کی بات سے ہے )
بخاری الصحیح.کتاب التفسیر 4 صفحہ 1858 رقم حدیث 4615
محدثین اور فقہاء کی راے ہے کے یہ حدیث امام ابو حنیفہ کے لئے بیان فرمائی
کوفہ جہاں سے ان کا تعلق تھا اس وقت علم حدیث کا سب سے بڑا مرکز تھا تو امام ابو حنیفہ نے مدینہ منورہ کا سفر امام سے علم حدیث حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ بلکہ علمِ باطن حاصل کرنے کے لئے کیا ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کے امام جعفر صادق علم حدیث میں بھی سب سے بڑے عالم تھے فرماتے ہیں “مجھ سے (علم الدیث کے متعلق ) سوال کیا کرو قبل اس سے کہ تم مجھے نہ پاؤ (یعنی میرا وصال ہوجائے ) کیونکہ میر بعد تمہیں میری طرح کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرے گا “
مزی تھذیب الکمال، 5. 79
امام ابو حنیفہ کا یہ فرمانا” اگر دو سال نہ ہوتے تو نعمان بن ہلاک ہوجاتا “
(محمود شکری الالوسی ، مختصر التحفۃ الاثنی عشریۃ 8 )
ان لفظوں کی نوعیت بتاتی ہے بتاتی ہے یہ محض چند روایتں نہیں بلکہ علم روحانی علم باطن اور معرفت الہی کا علمِ مع اللہ تھا
امام مالک کو شرف شاگردی حاصل ہے
حضرت امام جعفر صادق کا فقروں کو عزاز دینا :
‘ شیخ عبد الرحمان سلمی اپنی کتاب تاریخ مشائخ صوفیہ میں کہتے ہیں جعفر صادق کی کنیت ابو عبداللہ ہے آپ نہایت اعلی اخلاق پر فائیز تھے فتوت و شجاعت میں مثال تھے فہم قرآن میں دلیل تھے ،ان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ بیٹھے ہوئے تھے آپ کے دائیں بھی ایک فقیر تھا اور بائیں بھی ایک فقیر تھا ایک مالدار آیا تو آپ نے اسے اپنے سامنے بیٹھایا اس سلسلہ میں اس نے آپ پر طعن کیا تو آپ نے فرمایا اے فلاں ! یہ لوگ اللہ تعالی کے قائد ہیں اور رعایا کے لئے کوئی حرج نہیں کہ اپنے بادشاہ کے سامنے بیٹھے ‘
- فضل خطاب صفحہ نمبر 44
امام جعفر صادق کی عبادت :
قیام شب ذکر اور ریازت کا شوق آپکو اپنے دادا اور والد سے ملا زمانہ کے سب سے بڑے عابد و زاہد معرفت خدا میں کامل، مشاہدہ حق میں مشغول ذکر خدا میں رطب اللسان رہتے دن کا زیادہ تر حصہ عبادت میں گزرتا تھا
حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادقؓ کو تین کاموں میں مصروف پایا۔ نماز‘ روزہ اور تلاوت قرآن پاک۔
حضرت سیدنا علی ہجویری فرماتے ہیں ’’حضرت امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین اپنی عبادتوں کی وجہ سے ریاست سے بالکل الگ تھے (صفوۃ الصفوۃ جلد 2 صفحہ 94 )
ابو نعیم اصفہانی کہتے ہیں حضرت جعفر بن محمد امامِ ناطق اور افضلِ امت تھے ۔ آپ نے عبادت کو اپنا شعار بنایا گوشہ عافیت میں زندگی گزاری اور ریاست و اجتماعات سے علیحدہگی اختیار کی. (حلیۃ الاولیاء جلد 3 صفحہ 192 ) حافظ
ابو الفتح اربلی لکھتے ہیں حضرت صادق کے مناقب جلیل اور ان کے اوصاف کامل تھے وہ اپنے آبا اکرام کی سیرت پر قائم اور ان کے علوم کے حامل ہیں انھوں نے اپنے کو زہد و تقویٰٖ اطاعت و عبادت کے لیے وقف کر دیا تھا ان اور ادو وظائف کا یہ عالم تھا کہ جسے آسمان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی: جن کے لئے حضرر ابوالقاسم جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ اولیاء میں حضرت بایزید بسطامی کا وہی مقام ہے جو فرشتوں میں حضرت جبرائل علیہ کا ہے، دیگر سالکین کے مقام کی نہایت بایزید کے مقام کی بدایت ہے۔
وہ حضرت امام جعفر صادق کے مرید اور خلیفہ ہیں سلسلہ نقشبندیہ میں ان کے جانشین ہیں
اپنے پیرو مرشد امام ِجعفر صادق سے اتنی شدید محبت تھی کہ کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی دوسری طرف توجہ نہ کی ، ایک دن امامِ جعفر صادق نے فرمایا۔ بایزید ذرا طاق سے کتاب اُٹھالاؤ عرْض کی حضور : طاق کہاں ہے ؟حضرت امام جعفرصادق نے فرمایا ، تمہیں یہاں رہتے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیاابھی تک تمہیں طاق کا بھی پتہ نہیں ، عرْض کی ، حضور !مجھے تو آپ کی زیارت اورصحبتِ با بَرَکت ہی سے فرصت نہیں ، طاق کا خیال کیسے رکھوں ۔ آپ از روح ادب نظروں کو اٹھانہ بھی بے ادبی تصور کرتے تھے ۔
حضرت امام جعفرصادق یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا اگر تمہارا یہ حال ہے تو بس اب تم بسطام چلے جاؤ۔ تمہارا کام پورا ہوچکا ہے۔
(یعنی ولادت کبراء دے کر بسطام کا قطب بنا دیا )
حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں میں اپنی عمر اتنی ہی شمار کرتا ہوں جتنی امام صادق کی صحبت میں گزری ہے یعنی چار سال ۔
ابن رسول حضرت امام جعفر صادق کی حضرت داود طائی کو نصیحت :
حضرت داود طائی سلسلہ قادریہ کے مشائخ کی ایک شاخ کے شیخ ہیں ان کو حضرت حبیب عجمی سے خلافت تھی جو امام حسن بصری کے خلیفہ ہیں، امام ابو حنیفہ کے شاگرد بھی ہیں صوفی بزرگ اور فقیہ ہیں ان کے بہت سے واقعات تصوف کی قدیم کتابوں میں ملتے ہیں
ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے فرزند رسول صلی الله علیہ وسلم
مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ؟ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے – آپ نے فرمایا اے ابا سلیمان !
تم تو اپنے زمانے کے مشہور عابد و زاہد ہو تمھیں میری نصیحت کی کیا حاجت ؟
انھوں نے عرض کیا اے فرزند رسول صلی الله علیہ وسلم ! آپ کو ساری مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے – اور آپ پر سب کو نصیحت فرمانا واجب ہے – آپ نے فرمایا ، اے ابا سلیمان
میں ہمیشہ اس بات سے خائف رہتا ہوں کہ کل روز قیامت میرے جد کریم علیہ التحیتہ والتسلیم اس پر میری گرفت نہ فرمائیں کہ تم نے کیوں میری اتباع کا حق ادا نہ کیا –
کیونکہ اتباع نبوی صلی الله علیہ وسلم کا تعلق نہ نسب صحیح سے ہے اور نہ نسبت قوی سے بلکہ پیروی کرنے سے ہے – یہ سن کر حضرت داؤد طائی رحمتہ الله علیہ رو کر عرض کرنے لگے خداوندا
جس شخص کا خمیر ہی نبوت کی خاک سے ہے اور جس کی طبع نشو نما اپنے جد کریم علیہ السلام کے برہان و حجت کے اصول سے ہے اور جس کی مادر معظمتہ بتول الزہرا ہیں جن کا نام نامی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا ہے – وہی جب بذات خود اس حیرانی و پریشانی میں ہیں تو داؤد کس گنتی و شمار میں ہے وہ زاہد و عابد ہونے پر کیسے بھروسہ کر سکتا ہے
- داتا گنج بخش: کشف المحجوب
حضرت داتا علی ہجویری فرماتے ہیں: حضرت داؤد طائی اہل تصوف میں رہبر و سردار تھے۔اپنے زمانے کےبےمثل صوفی اور امام اعظم کےشاگردتھے۔ آپ کو علوم ِ عقلیہ و نقلیہ سےوافر حصہ ملا،اورفن فقہ میں فقیہ الفقہاء مشہورتھے۔حکومت و ریاست چھوڑ کر آپ نے گوشہ نشینی اختیار فرمائی۔آپ کا زہد و ورع خصوصیت سے مشہور ہے۔آپ کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔
حضرت معروف کرخی فرماتے ہیں: کہ میں نے حضرت داؤد طائی جیسا مستغنی عن الدنیا نہیں دیکھا۔ان کی نظر میں تمام دنیا اور اہل دنیا کی کچھ حیثیت ہی نہیں تھی۔(کشف المحجوب: 241)۔
حضرت امام جعفر صادق کے وصائے حضرت سفیان ثوری کو :
آپ امام جعفر صادق کے جلیل القدر مرید اور شاگرد ہیں، سفیان ثوری فرماتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا مجھے کوئی وصیت کیجئے جسے میں یاد کر لوں تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مجھے نفع بخشے تو آپ نے کہا: اے سفیان! جھوٹے کے لیے کوئی مروّت نہیں ہوتی، حاسد کے لیے کوئی راحت نہیں ہوتی، بد اخلاق کو (حقیقی) سرداری نہیں ملتی اور بادشاہوں کو بھائی چارہ نصیب نہیں ہوتی۔میں نے کہا: اور نصیحت کیجئے تو فرمای:ا سفیان! اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے رُک جاؤ عابد بن جاؤوگے، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس پر راضی رہو غنی بن جاؤوگے، اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو مسلم بن جاؤوگے، فاجر کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس کا فسق و فجور تم پر غالب آ جائے گا اور اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لو جو اللہ کی بہترین اطاعت کرتے ہیں۔میں نے کہا: اور کیجئے تو فرمایا سفیان! جو کوئی بغیر خاندان کے عزت اور بغیر بادشاہت کے رعب حاصل کرنا چاہتا ہے اس چاہیے کہ معصیت کی ذلت سے نکل کر اطاعت کی عزت کی طرف آئے میں نے کہا: اور کیجئے فرمایا: سفیان! جو شخص برے کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ محفوظ نہیں رہتا، جو بری جگہ جاتا ہے وہ متہم ہو جاتا ہے اور جو اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا شرمندہ ہوتا ہے۔
امام موسٰی کاظم کے لئے فرمایا ‘یخرج اللہ منہ غوث ھذہ الامۃ و نورھا ‘:
حضرت امام جعفر صادق اپنے جانشین اور صاحب زادہ حضرت امام موسٰی کاظم کے لئے فرماتے ہیں ‘ یہ میری اولاد میں سردار ہے،اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ اللہ کا ایسادروازہ ہے، جس سے اللہ تعالٰی اس امت کے غوث اور اس کے نور کو پیدا کرے گا یہ سب سے اچھی اولاد ہے ‘
(صفحہ نمبر 50: فصل خطاب، از خواجہ پارسا نقشبنمدی)
علٰی ھذا القیاس اس سے مراد اول تو حضرت امام محمد تقی علیہ ہیں حضرت امام نقی اور حضرت امام حسن عسکری ہیں اس بعد اولیاء امت میں، خواجہ خواجہگان خواجہ سید حسن سنجری کاظمی اجمیری چشتی ہیں جن کے نور سے ایک عالم نے روشنی حاصل کی. وہ اپنے زمانے کے غوث اور نقیب الاشراف تھے سادات شیرازیہ جیسے صفوی وغیرہ اکثر اولیاء اللہ بھی کاظمی سادات میں سے ہیں
ملفوظات
کتب سیر و مناقب میں امام کے ملفوظ بے شمار ہیں اور ائیمہ اہل بیت میں امیر مومنین حضرت سیدنا علی مرتضٰی کے بعد سب سے زیادہ امام جعفر صادق سے اقوال مروی ہیں، ان کے ملفوظات کی یہ خصوصیت ہے کہ ایسے دانشورانہ و حکیمانہ اقوال کسی دوسرے سے منقول نہیں لیکن یہاں صرف وہی ملفوظ لکھے جا رہے ہیں جن کا تعلوق تصوف سے ہے صبر و رضا، اللہ کی محبت معرفت پر بے شمار اقوال اس کے علاوہ بھی بہت ہیں
زہد و ورح و تقدس:
امام جعفر صادق کی دوسری نمایاں صفت اور خصوصیت ان کا ورع تھا۔لیکن یہ ورع ایسا نہ تھا کہ وہ اس چیز کو حرام کر لیتے ہوں خدا نے حلال کر دیا ہے۔انھوں نے حلال چیز کبھی ترک نہیں کیا۔ وہ طلب حلال میں، بشرطے یہ کہ وہ اسراف و تکبر کے ذمرہ میں نہ آتا ہو، کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ صحیح معنی میں نبیﷺ کے اس ارشاد پر عامل تھے۔
“کھاؤ، پیو، پہنو، لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو!”
لیکن جزبئہ طلب حلال کے باوجود، ان کی خوش ذوقی اپنی جگہ قائم تھی۔وہ اچھے اور ستھرے کپڑے پہنتے تھے، وہ اسے پسند فرماتے تھے کہ لوگوں کے سامنے اچھے اور ستھرے لباس میں نمودار ہوں۔
وہ اپنے تقشّف اور زہد و عبادت کو پوشیدہ رکھتے تھے تاکہ نفس میں کسی طرح کا جزبئہ ریا نہ پیدا ہو سکے۔
وہ ان متقشفین میں نہیں تھے جو لوگوں کے سامنے اس طرح نمودار ہوتے ہیں کہ لباس زریں اور امیرانہ طمطراق کے ساتھ اپنے زہد و تقشّف کو ریا کاری کا زینہ بنا لیتے ہیں۔ اور لوگوں کو مبتلائے فریب کرتے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ ان سے ان باتوں کا بہت سخت محاسبہ ہوگا۔
ایک مرتبہ سفیان ثوری حضرت امام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے آپ کے جسم اطہر پر اچھا سا لباس دیکھا، جو بہت دلکش اور زیبا نظر آ رہا تھا۔سفیان ثوری کہتے ہیں۔
میں حیرت اور تعجب سے آپ کی طرف دیکھنے لگا!
حضرت امام نے مجھے اس طرح دیکھتے دیکھا تو فرمایا!
” کیا بات ہے کیوں میری طرف اس طرح تکے جا رہے ہو؟ شاید تمہیں میرے اس لباس پر تعجب ہے؟”
میں نے اس ارشاد کے جواب میں عرض کیا۔
اے ابن رسول اللہ یہ لباس نہ آپ کا ہے ۔ نہ آپ کے آبائے کرام کا تھا۔یہ سنکر حضرت امام نے اپنے نطق گوہر بار کو جنبش دی اور فرمایا:
وہ زمانہ اور تھا، یہ اور ہے، وہ زمانہ تھا غربت اور افلاس کا، وہ اپنی غربت اور تنگی کے مطابق بسر کرتے تھے۔اور اس زمانے میں کون سی چیز ہے جو میسر نہ ہو۔
پھر آپ نے جبہ کا دامن کھولا، تو میں دیکھتا کیا ہوں کہ اس کے نیچے سفید اون کا کھر دراجبہ زیب جسم تھا، جس کے دامن اور آستین بالکل بالائی جبہ سے ملی ہوئی تھی۔یہ دکھا کر آپ نے فرمایا:
” یہ (اونی جبہ) ہم نے خدا کے لیے پہنا ہے اور یہ (اچھا) تمہارے لیے، نہ تم پر ہم اسے ظاہر کر سکتے ہیں، نہ خدا سے اسے چھپا سکتے ہیں۔”(حلیتہ الاولیا ج۳ ص۱۹۳)
اخلاص
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اخلاص تمام اعمال فاضلہ کا جامع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا آغاز قبولیت سے ہوتا ہے اور اس پر رضائے الہٰی کی مہر لگتی ہے۔ اللہ جس کے عمل کو قبول فرما لے اور جس سے راضی ہو جائے تو سمجھ لو کہ وہی مخلص ہے خواہ اس کا عمل کتنا ہی کم کیوں نہ ہو لیکن اس کے برعکس جس کا عمل شرف قبولیت نہ پا سکے، وہ مخلص نہیں ہے خواہ اس کا عمل کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ آدم علیہ السلام اور ملعون ابلیس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ قبولیت اعمال کی علامت یہ ہے کہ ہر محبوب چیز کو راہ خدا میں خرچ کر کے استقامت دکھائی جائے۔ ایک مخلص شخص اپنی روح کو تپاتا ہے، اپنی کوشش صرف کرتا ہے اور علم کو عمل اور عمل کو علم سے استوار کرتا ہے کیوں کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو سب کچھ اس کے ہاتھ آ جاتا ہے لیکن اگر اسی کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو سب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔ توحید میں تنزیہہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ جیسا کہ پہلے ایک شخص نے کہا ہے: عمل کرنے والے ہلاک ہوئےمگر عبادت کرنے والے نہیں، عبادت کرنے والے ہلاک ہوئے مگر علم رکھنے والے نہیں، علم رکھنے والے ہلاک ہوئے مگرصادق حضرات نہیں، صادق حضرات ہلاک ہوئے مگر مخلص لوگ نہیں، مخلص ہلاک ہوئے لیکن متقی نہیں، متقی ہلاک ہوئے لیکن یقین کرنے والے نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ یقین کرنے والے ہی بلند مقام پر فائز ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: واعد ربک حتی یأتیک الیقین۔یقین (موت) آنے تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہو)-
اخلاص کا کم تر درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی پوری طاقت صرف کرے پھر بھی اپنے عمل کو اللہ کی نظر میں بہت بڑی چیز نہ سمجھے کہ یہ امید کر بیٹھے کہ اللہ اس کا اسے بھر پور بدلہ لازمی طور پر دےگا کیوں کہ اگر اللہ اس سے حق عبودیت ادا کرنے کا مطالبہ کرے تو وہ اس سے عاجز رہ جائے گا۔ ایک مخلص آدمی کا کم تر مقام یہ ہے کہ وہ دنیا میں تمام گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور آخرت میں جہنم سے نجات پاتا ہے اور جنت سے ہم کنار ہوتا ہے۔
تقویٰ:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تقویٰ کے تین درجے ہیں: اللہ کا تقویٰ، شبہات ہی نہیں بلکہ ادنیٰ اختلاف کا ترک کر دینا۔ یہ خاص الخواص کا تقویٰ ہے۔ اللہ سے تقویٰ، حرام ہی نہیں بلکہ شبہات تک کو ترک کر دینا اللہ سے تقویٰ کہلاتا ہے۔ خاص کا تقویٰ خوف نار اور عقاب کا تقویٰ، اس میں حرام اشیاء کا ترک ہوتا ہے۔یہ عام لوگوں کا تقویٰ ہے۔
تقویٰ کی مثال نہر میں بہنے والے پانی کی طرح ہے۔تقویٰ کے ان تینوں درجات کی مثال ان درختوں جیسی ہے جو اس نہر کے کنارے لگے ہوئے ہوں۔ اس میں ہر طرح کے درخت ہوں۔ ہر درخت اپنی خاصیت، خوراک، لطافت اور کثافت کے بقدر اس نہر سے سیرابی حاصل کرتا ہے۔ پھر اپنے پھلوں اور پھولوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: صنوان و غیر صنوان یسقی بماء واحد و نفضل بعضھا علی بعض فی الاکل(اطاعت کے کاموں کے لیے تقویٰ کی وہی حیثیت ہے جو درختوں کے لیے پانی کی حیثیت ہے۔درختوں کی خصوصیات اور اس کے پھلوں کے رنگ اور مزہ کی مثال ایمان کے درجات سے دی جا سکتی ہے۔ جو شخص ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہے اور اس کی روح کا جوہر مصفی ہے، وہی سب سے زیادہ متقی ہے۔ایک متقی کی عبادت مخلصانہ ہوگی اور پاکیزہ بھی۔ جو شخص اس طرح سے ہوگا وہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔ اس کے برعکس جو عبادت غیر تقویٰ پر ہوگی وہ ہوا میں اڑنے والے ریت کے ذرّات کی طرح ہوگا۔ اللہ کا ارشاد ہے: أفمن أسس بنیانہ تقویٰ من اللہ و رضوان ان خیرا من أسس بنیانہ علی شفا جرف ھار فانھار بہ نار جھنم(تقویٰ کی تفسیر یہ ہے کہ اس چیز کو بھی ترک کردے جس کو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں کہ اندیشہ اس کا ہے کہ کہیں اس کے ذریعے اس کی گرفت نہ ہو جائے۔یہ حقیقت میں اطاعت ہے جس کوئی نافرمانی نہیں ہے، ذکرِ الہٰی ہے جس میں کوئی نسیان نہیں ہے اور علم ہے جس میں کسی طرح کی جہالت نہیں ہے اور اس کا یہ عمل مقبول ہے، مردود نہیں ہے۔
دنیا کی صفت:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: دنیا کی ایک شکل ہے۔ اس کا سر کبر ہے، اس کی آنکھیں حرص ہیں۔ اس کے کان لالچ ہیں۔ اس کی زبان ریا ہے۔ اس کے ہاتھ شہوت ہیں۔ اس کے پیر خود پسندی ہیں۔ اس کا دل غفلت ہے۔اس کا وجود فنا ہے۔ اس کا حاصل زوال ہے۔ جو اس سے محبت کرےگا اس کے اندر تکبر پیدا ہوگا، جو اسے اچھا سمجھےگا اس کے اندر حرص پیدا ہوگی، جو اسے طلب کرےگا اس میں طمع پیدا ہوگی، جو اس کی تعریف کرےگا اسے وہ ذلت کا لباس پہنائےگی، جو اس کا ارادہ کرےگا، اس کے اندر عجب پیدا ہوگا، جو اس پر بھروسہ کرےگا اس میں غفلت پیدا ہوگی، جو اس کے سامان کو محبوب رکھےگا، اسے فتنہ میں ڈال دےگی، دنیا کسی کے لیے باقی نہیں رہےگی، جو اسے جمع کرےگا اور اس میں بخل سے کام لے گا، اس کو وہ اپنے مستقر میں پہنچا دے گی اور وہ جہنم ہے۔
امام جعفر صادق علیہ اسلام علماء ربانین بنی اسرائل کا درجہ و کرامت رکھنے والے مرشد کامل روحانی طبیب عرفانی حکیم اہل تقٰوی کے سردار از ازل تہ ابد انسان کامل کا اکمل شہکار، اللہ کے رسّی ہیں جن کو تھام نا بائث نجات ہے حدیث سقلین (قرآن اور میری عترت) کا مظہر ہیں 22 رجب کو سارے عالم میں امام کی فاتح دلائی جاتی ہے
ماخذ و مصادر:
- صحیح بخاری
حیث نمبر : 50،صفحہ نمبر 108 ، جلد 1 - ( سنن ابن ماجہ : حدیث نمبر 263)
- (سفر السعادہ :122)
- فضل خطاب
صفحہ نمبر 50 : فصل خطاب، از خواجہ پارسا نقشبنمدی
صفحہ نمبر 44 : فصل خطاب، از خواجہ پارسا نقشبنمدی - فرہنگ آصفیہ جلد اول صفحہ نمبر 617
- کتاب : امام جعفر صادق رضہ اور ان کے علوم و معارف ، صفحہ 117 ،118، 119، 127
–سید فیض علی شاہ
خانقاہ قادریہ نیازیہ،
آستانہ حضرت میکش، میوہ کٹرہ، آگرہ