ُٓ
(علی گڑھ)شوزب منیر
کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مرکزی وزارت تعلیم کے حکم کی پابند ہے یا پھر مرکزی وزارت تعلیم اے ایم یو وی سی کے طریقہ کار کو قبول کرنے پر مجبور ہے؟ اے ایم یو انتظامیہ کےطریقہ کار پرہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ۔وہیںاے ایم یو انتظامیہ خوداحتسابی کے بجائے اپنے طریقہ کار کا دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کر تی رہی ہے۔ ساتھ ہی مسلم یونیورسٹی انتظامیہ اپنی ضد پر قائم، قانون کومسلسل نظر انداز کر رہی ہے اور اپنے طریقہ کار کو نافذ کر رہی ہے۔اب ایک نیا معاملہ سامنے آیا ہے ، جس میں وزارت تعلیم نے اے ایم یو انتظامیہ کو خط لکھ کر دو قانونی عہدوں پر اساتذہ کی تقرری کر تعلیمی ماحول کو خراب کرنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہےFinance Officer & Controller Exams ۔ وزارت نے ان آسامیوں پر دو ماہ میں مستقل بنیاد پر تقرری کی ضرورت پر زور دیا ہے ، تا کہ ان اسامیوں پرخدمات انجام دئے رہے اساتذہ اپنی باقاعدہ تعلیمی ذمہ داریوں کے علاوہ، تدریس کے اپنے بنیادی فرائض سے محروم نہ ہوں۔ تاہم دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی اے ایم یو انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سےکوئی ٹھوس کوشش نظرنہیں آرہی ہے۔ وہیں اسکے برعکس وزارت تعلیم سے خط کی وصولی کی تاریخ کے متعلق آر ٹی آئی کے جواب کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، وزارت تعلیم نے اے ایم یو انتظامیہ کو 11 نومبر 2024 کوبہ ذریعہ ای میل اورپھر 24 نومبر 2024 کو بہ ذریعہ ڈاک ایک خط بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو کنٹرولر کا عہدہ، جو 10 جنوری 2018 سے خالی ہے اور فنانس آفیسر کا عہدہ، جو 18 فروری 2021 سے خالی ہے، پر کیا جائے، وزارت نے ان آسامیوں پر اساتذہ کی کارکردگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ان آسامیوں پر اساتذہ کی تعیناتی کا عارضی انتظام پائیدار نہیں ہے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اساتذہ کو اوورلوڈ کیا جا رہا ہے جسکے نتیجے میں اساتذہ کو اپنے بنیادی فرائض یعنی تدریسی اور تعلیمی امور کی انجام دہی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں جسکے نتیجے میں یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول درہم برہم ہو رہا ہے۔ لہٰذا اسدوعاہے کہ کنٹرولر اور فنانس آفیسر کی آسامیاں پُر کی جائیں اور یونیورسٹی کی سالمیت کو برقرار رکھا جائے اور ان احکامات پر 60 دن کے اندر عمل درآمد کیا جائے۔ وہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اے ایم یو انتظامیہ وزارت تعلیم کے واضح احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے دونوں عہدوں پر تقرری کے بجائے حیلوں سے کام لے رہی ہے۔
اے ایم یو میں یہ بات چرچا کا موضوع ہے کہ انتظامیہ قواعد کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے، اے ایم یو پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور مخالفین کی تعدادمیں کمی لانے کے لئے مختلف عہدوں پر تقرریاں کی جارہی ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جن عہدوں پر وی سی کو صرف سفارش کرنے کا اختیار ہے، ان عہدوں پر ایگزیکٹو کونسل کے اختیارات کو غصب کرتے ہوئے مختلف عہدوں پروی سی کی جانب سےبراہ راست تقرری کی جارہی ہیں اور اساتذہ میں ان آسامیوں پر تقرری حاصل کرنے کے لئے اساتذہ کے لیے وی سی کے قریب جانے کی کشش پیدا کی جا رہی ہے، ان عہدوں تعینات کچھ افراد تنخواہ کے علاوہ stipend بھی لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر،قوانین کے مطابق ڈی ایس ڈبلیو، پراکٹر، پرووسٹ (انکی سفارش پر وارڈن ) کی تقرری کے لئے،وائس چانسلر کی سفارش پر ایگزیکٹو کونسل کی منظوری کے بعد ہو سکتی ہے۔ ان عہدوں پر تقرریاں کرنے کے لیے قواعد و ضوابط کو روندھ کر وائس چانسلر کے ذریعے ایگزیکٹو کونسل کے اختیارات غصب کیا جارہا ہے۔ڈی ایس ڈبلیو، پراکٹر کے لیے اساتذہ کی تقرری ضروری ہے، جسکے لیے وہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے سے کم کے نہ ہوں،وہیں قانون کے مطابق کسی استاد کو ہال کا پرووسٹ یا وارڈن کے طور پر تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن وائس چانسلر کی جانب سےای سی کے اختیارات غصب کیے جارہے ہیںاوران اسامیوں پر اساتذہ کی تقرری کی جا رہی ہے ۔ جن پوسٹوں کے لیے وی سی کو صرف نام تجویز کرنا چاہیے تھا اورای سی سے منظوری لینی چاہیے تھی، ان پوسٹوں پر براہ راست وی سی کی جانب سے تقروری کی جارہی ہے۔ جسکے نتیجے میں ای سی بے معنی ہو رہا ہے۔ مذکورہ بالا کے علاوہ تقریباًآٹھ اساتذہ بطور او ایس ڈی خدمات انجام دئے رہے ہیں(جبکہ او ایس ڈی کےلیے قواعد میں کوئی گنجائش نہیں ہے)، وہیں اساتذہ کو بطور ممبر انچارج (MIC) ان غیرموجودہ عہدوں پر تقرری کی رہی جا رہی ہے، حالانکہ یو جی دی( UGC )کی جانب سے ان منظور شدہ ان عہدوں پرFull Time انجینئر وغیرہ تعینات ہیں،دیگر لفظوں میں یہ تقرریاں دائرہ اختیار کے بغیر کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں، یونیورسٹی میںFull Time رابطہ عامہ کے افسر کے موجود ہونے کے باوجود بھی، ماضی کے طرز عمل کے مطابق،( MIC )پبلک ریلیشن آفس کی تقرری کے لیے ایک آفس میمو جاری کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آفس میمو میں اسprovision کاکوئی ذکر نہیں ہے جسکے تحت MIC کی تقرری کی گئی ہے۔

جہاں مرکزی وزارت تعلیم نے اے ایم یو میں صرف دو عہدوں پر اساتذہ کی تقرری کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں پر پڑنے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا،وہیں کیمپس میں اساتذہ کے درمیان یہ بحث جاری ہے کہ اے ایم یو کے۱۹؍ ہال اور۸۰؍ ہاسٹل ہیں، ہر ہال میں ایک پرووسٹ ہے، ہر ہاسٹل میں ایک وارڈن اور ایک جنرل وارڈن ہے اور اسکے لیے فی الحال تقریباً۱۱۴؍ اساتذہ خدمات انجام دئے رہے ہیں، جبکہprovision میں اساتذہ کی کوئی قید یاضرورت نہیں ہے، وہیں آٹھ مختلف او ایس ڈیز ہیں، جبکہ قانون میں او ایس ڈی کے عہدے کاکوئی provision نہیں ہے۔( ان عہدوں پر بھی استاتذہ تعینات ہیں)، جبکہ متعلقہ سیکشن میں پہلے سے ضروری عملہ موجود ہے۔ اس طرح مصروف اساتذہ کی کل تعدادتقریباً ۱۵۰؍ ہے،ان کے علاوہ ایم آئی سی کے طور پر خدمات انجام دئے رہے پانچ اساتذہ ہیں، کچھ کے ساتھ ایسوسی ایٹ ایم آئی سی بھی منسلک ہیں۔ مجموعی طور پر ان عہدوں پر کام کرنے والے اساتذہ کی تعداد تقریباً دو سوبنتی ہے، جن میں کنٹرولر امتحانات اور فنانس آفیسر بھی شامل ہیں، اساتذہ کی مجموعی تعداد تقریباً 208 ہے، جبکہ یہ آسامیاں یا تو موجود ہیں ہی نہیں یا پھراساتذہ کو ان پر کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے،کیوں نکہ ان عہدوں پر UGC کی طرف سے منظور شدہ عملہ پہلے سے ہی خدمات انجام دئے رہے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں اے ایم یو کا تعلیمی ماحول اور معیار درست سمت میں نہیں جا رہا ہے، یہ بات کافی تشویشناک ہے۔ وہیںیہ بات بھی چرچا میں ہے کہ جب اے ایم یو وی سی یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق بغیر ای سی کی منظوری کے پرووسٹ، پراکٹر، ڈی ایس ڈبلیو کی تقرری نہیں کر سکتے تو ان ای سی کی منظور کے بغیر کی گئیں تقرریوں کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا وہ سب غیر قانونی ہیں؟ واضح طور غیر قانونی ہونے کے باوجود انہیں اس طرح جاری کیوں رکھا جا رہا ہے؟
وہیں اے ایم یو انتظامیہ اپنے طریقہ کار کو پوشیدہ کر رہی ہے، اس سلسلے میں اگر ذرائع کی مانیں تو وزارت تعلیم کے خط کی وصولی سے متعلق آر ٹی آئی درخواست کے بھیجا گیا، تو اسکے جواب میں وزارت کے خط کی وصولی کی تاریخ کے متعلق بھی غلط بیانی کی گئی ہے اور جواب میں تاخیر دیا گیا ۔ بتایا جا رہا ہے کہ 25 نومبر 2024 کو اس سلسلے میں معلومات کے لیے ایک آر ٹی آئی سی پی آئی او/وائس چانسلر کو بھیجا گیا تھا جسکا جواب آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ۳۰؍ دنوں میں دینا لازمی ہے۔اس آر ٹی آئی کا جواب 26 دسمبر 2024 کو لازمی تاریخ کے دو دن بعد بھیجا گیا تھا۔ آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا گیا کہ وزارت کا خط 24 ستمبر2024 کو موصول ہوا تھا، جبکہ سچ یہ ہے کہ اے ایم یو کو۱۱؍ستمبر 2024کو ای میل کے ذریعے خط موصول ہوا تھا، یعنی ۱۳؍دن دن قبل۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اے ایم یو انتظامیہ حقائق کو کیوں چھپا رہی ہے اور کس کی ہدایت پر ایسا کر رہی ہے۔ ساتھ ہی جواب میں کہا گیا ہے کہ وزارت کو ایک خط بھیجا گیا ہے اور ان آسامیوں کی تشہیر کی اجازت مانگی گئی ہے، سی آر آر، کیڈر ریکروٹمنٹ رولز کے تحت یوسٹ ہیں اس لیے ان پوسٹوں کو اشتہار دینے کی اجازت کے لیے وزارت کو بھیجا گیا ہے، جبکہ وزارت کے خط میں واضح طور پر ہدایت دیا گیا ہے کہ ساٹھ دن کے اندر اسامیوں کی تشہیر کر کے پُر کریں۔وہیں جواب میں( وزارت کو بھیجے گیے مکتوب) ڈسپیچ نمبر کی جانکاری نہ دئے کراطلاع طلب کرنے والے سے معلومات چھپانا ثابت ہوتا ہے۔
ماہرین اے ایم یو انتظامیہ کے اس قدم کو وزارت تعلیم کے احکامات پر عمل آوری میں تاخیر سے تعبیر کر رہے ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی الزام ہے کہ اے ایم یو انتظامیہ نےاپنے خاص لوگوں کو ناراض نہ کر نے کی پالیسی اپنا رہی ہے،خاص طور پر جنکا تعلق یونیورسٹی پر غلبہ رکھنے والے علاقائی دھڑوں سے ہے ۔
وہیں کنٹرولر مجیب اللہ زبیری کا کہنا ہے کہ انہیں وزارت تعلیم کے خط کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے جبکہ فنانس آفیسر پروفیسر محسن خان کو متعدد بار فون کرنے کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا ۔ اسکے بعد انہیں میسج بھی بھیجا گیا لیکن اس خبر کے لکھے جانے تک انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس سلسلے میں جب حال ہی میں تعینات ہونے والے ایم آئی سی پی آر او سے پوچھا گیا کہ ایم آئی سی کی تقرری کس provision کے تحت کی گئی ہے تو انکا جواب تھا کہ جس نے تقرری کی ہے وہ جانتا ہے کہ یہ کس provisionکے تحت تقروری کی ہے اور وہیں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسے عہدوں پر صرف اساتذہ کی تقرری کی جا سکتی ہے ۔
وہیں اے ایم یوکے شعبہ رابطہ عامہ کی ایم آئی سی نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں مرکزی وزارت تعلیم کی جانب سے ایف او اور کنٹرولر کے حوالے سے کیسی مکتوب کے آنے کی جانکاری نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا یونیورسٹی کےفنانس افسر اور کنٹرولرکے عہدے پر اساتذہ کی ہی تقروری ہوتی ہے جسکو وائس چانسلر اپنی مرضی سے کرتا ہے ساتھ ہی ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کے اے ایم یووائس چانسلر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے، پراکٹر، ڈی ایس ڈبلیو، پروسٹ، مقرر کر کرسکتا ہے، اس سلسلہ میں وائس چانسلر کوای سی یا کسی کی منظوری کی ضرورت وی نہیں ہے ۔
قارئیں واضح رہے یونیورسٹی میں اس طرح کے عہدے کا کوئیprovision نہیں ہے۔ اے ایم یو انتظامیہ پر او ایس ڈی کی تقرری میں اپنے ایکٹ، قانون، آرڈیننس اور ضوابط کے عمل آوری نہ کرنا، وزارت تعلیم کے اظہار تشویش کے باوجود فنانس آفیسر اور کنٹرولر کی تقرری کے لیے ٹھوس قدم نہ کرنا اوروزارت تعلیم کی ہدایت کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات کا مسلسل سامنا ہے۔ اے ایم یو میں تعلیمی ماحول کی ترقی کے متعلق مرکزی وزارت تعلیم کے اظہار تشویش کو نظر انداز کر ان عہدوں پر اساتذہ کو برقرار رکھنا اورجہاں اساتذہ ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے وہاں بھی اساتذہ کو تعینات کرنا، EC کی منظوری کے بغیر VC کی طرف سے مختلف عہدوں پر تقرر ی جو کہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، ایک خطرناک اشارہ دے رہا ہے اور وزارت کی طرف سے کارروائی کی کھلی مداخلت کی دعوت ثابت ہوسکتی ہے۔ اے ایم یو کے موجودہ وائس چانسلر کی تقرری الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے ہے جس نے اے ایم یو انتظامیہ کے اس معاملے میں تاخیر کی کوشش کرنے والے رویہ پر سخت اعتراض ظاہر کیا ہے اور حتمی سماعت کے لیے 11 فروری 2025 کی تاریخ مقررکی ہے۔
ایسی صورتحال میں اے ایم یو کی کچھ سرکردہ شخصیات اے ایم یو کے وزیٹر، صدر جمہوریہ ہند کو ایک خط بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس میں اے ایم یو ایکٹ کی دفعات کے نفاذ اور وزارت کے خط پر عمل درآمد نہ کرنے کے سلسلے میں مداخلت کی اپیل کی جائے گی ہے۔