شوذب منیر

(علی گڑھ)اے ایم یو کی اعلیٰ ترین تعلیمی فیصلہ کرنے والی اکیڈمک کونسل کی ایک میٹنگ8 فروری2025 بروز ہفتہ ہو رہی ہے متعدد آئٹم اوردو کمیٹیوں کی سفارشات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے میٹنگ بلایا گیا ہے،خاص بات یہ ہے کہ دونوں کمیٹیوں کی صدارت ڈین فیکلٹی آف انجینئرنگ نے کیا اور وہیں دونوں کمیٹیوں کی تشکیل وائس چانسلر نے کی ہے۔ اتفاق سے، ایجنڈے میں شامل دو آئٹم ۲۶ ؍اور ۲۷؍ یونیورسٹی کے مراکز سے متعلق ہیں۔ یونیورسٹی میں مجموعی طور پر اکیس مراکز ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئٹم نمبر26 یونیورسٹی کے مختلف فیکلٹی سے منسلک مراکز کے انتظامی اور تعلیمی ڈھانچے کو ہم آہنگ کرنے کی تجویز دے رہا ہے، تاکہ انہیں یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق بنایا جا سکے۔لیکن کمیٹی کے منٹس میں ان مراکز کویونیورسٹی کے قوانین کے مطابق بنانے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے اسکی وضاحت نہیں بتائی گئی ہے، جس سے لوگوں میں یہ بات تشویش پیدا کررہی ہے کہ کیا ابھی تک یہ مراکز قانونی طور پر قائم نہیں ہوئے تھے، اگر نہیں تو پھر مزید، غیر قانونی ہونے کی وجہ غور کے لیے فراہم نہیں کی گئی ہے اور اگر ہیں تو ایسا کیوں کیا جا رہاہے، اسکی کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ، لوگوں کو کہنا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آئٹم میں صرف اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ مراکز کے پاس مناسب بنیادی ڈھانچہ اور اساتذہ نہیں ہیں۔کمیٹی کے منٹس میں غورکرنے کے لئے اس آئٹم کے تحت صرف پانچ مراکز ہیں اور اتفاق سے سبھی مراکز فیکلٹی آف انجینئرنگ کے تحت ہیں دیگر مرکز پر غور نہیں کیا جائے گا ۔ان پانچ مراکز میں مصنوعی ذہانت کو کمپیوٹر انجینئرنگ کے ساتھ ملایا جائے گا، نینو ٹیکنالوجی سینٹر کو اپلائیڈ فزکس، فوڈ سائنسز اور ٹکنالوجی کو کیمیکل انجینئرنگ کے ساتھ ضم کیا جائے گا، انٹیگریٹڈ گرین اینڈ رینیول انرجی کو الیکٹریکل انجینئرنگ کے ساتھ ضم کیا جائے گا اور بائیو میڈیکل انجینئرنگ کو مکینیکل انجینئرنگ کے ساتھ ضم کیا جائے گا۔ انجینئرنگ کالج کے سینئر فیکلٹی اس بات پر حیران ہیں کہ صرف انجینئرنگ فیکلٹی سنٹرزکو اس قدر کیوں اہمیت دی جا رہی ہے، اس حوالے سے منٹس کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنٹر فار فوڈ ٹیکنالوجی کو فیکلٹی آف ایگریکلچر سائنس کے تحت کیوں نہیں لایا جاتا جہاں شعبہ پوسٹ ہارویسٹ انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (پروسیسنگ اینڈ فوڈ انجینئرنگ) ایم ٹیک دے رہا ہے۔

دوسرا یہ کہ آئٹم نمبر27کے تحت پھر سے انتظامی سیٹ اپ کو متاثر کیے بغیر مراکز کو محکموں کے ساتھ ضم کرنے پر غور کررہا ہے،جس میں کمیٹی کو صرفNomenclature نام تجویز کرنا ہے۔ کمیٹی کی سفارش یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت میں بی ٹیک کانام تبدیل کرکے ، کمپیوٹر انجینئرنگ میں بی ٹیک ، ساتھ میں مصنوعی ذہانت میں اسپیشلائزیشن کیا جائے،فوڈ ٹیکنالوجی میں بی ٹیک کا نام تبدیل کرکے کیمیکل انجینئرنگ میں بی ٹیک ساتھ میںفوڈ ٹیکنالوجی میں اسپیشلائزیشن کیا جائے، آٹوموبائل انجینئرنگ (الیکٹرک اور ہائبرڈ انجینئرنگ)میں بی ٹیک کا نام تبدیل کر کے مکینیکل انجینئرنگ بی ٹیک، آٹو موبائل انجینئرنک یا الکٹرک اینڈ ہائی برڈ وہکلز میں بی ٹیک ساتھ میں اسپیشلائزیشن کیا جائے ۔ اسمیں لفظORکا استعمال یہ ثابت کرتا ہے کہ آٹوموبائل انجینئرنگ یا الیکٹرک اور ہائبرڈ وہیکلز میں حتمی نہیں ہے)، وہیں وی ایل ایس آئی میں بی ٹیک کوتبدیل کرکے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشن انجینئرنگ کے ساتھ وی ایل ایس آئی میں اسپیشلائزیشن کیا جائے گا اور پیٹرو کیمیکل انجینئرنگ میں بی ٹیک کو کیمیکل انجینئرنگ میںاسپیشلائزیشن کیمیکل انجینئرنگ میں تبدیل کیا جائے۔ فہرست میں ظاہر ہوتا ہے کہ کیمیکل انجینئرنگ واحد شعبہ ہے جسکے لیے دو مزید اسپیشلائزیشن کا ترجیحی سلوک کیا گیا ہے۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق انجینئرنگ کے اساتذہ اعتراض کر رہے ہیں کہ آئٹم نمبر 26 کے تحت انتظامی سیٹ اپ تبدیل کیا گیا ہے، لیکن آئٹم نمبر 27 میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انتظامی سیٹ اپ متاثر نہیںہو گا، ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ بائیں ہاتھ کویہ معلوم نہیں ہوگا کہ داہنا ہاتھ کیا کر رہا ہے۔
پیروی کیے جانے والے قواعد سے بخوبی واقف سینئر فیکلٹی کایہ ماننا ہے کہ اگر اسے اپنایا جاتا ہے تو اس سے آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کوتنقید کا موقع ملے گا۔ AICTE نے UG اور PG ڈگریوں کے ناموں کے لیے ضابطے جاری کیے، جنہیں گزٹ کیا گیا ہے۔ سینئر فیکلٹی کو یہ خوف ہے کہ ڈگریوں کے لیے تجویز کردہ نام کو اپنانے سے AICTE کی سفارش کے خلاف ہونے سے طلباء کا مستقبل اثرانداز ہو سکتا ہے۔
ایک سینئر ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ میٹنگ کا ایجنڈا وائس چانسلر نے منظور کیا ہے اسمیں حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ وہ ان واضح نتائج کو جاننے یا سمجھنےسے کیسے محروم رہ گئیں؟ یا پھر ترجاہل عارفانہ سے کام لیا جا رہا ہے ان کا الزام ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسمیں سب سے زیادہ مستفید ہونے والے محکمے سے تعلق رکھنے والے انتظامیہ کے قریبی فرد کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں ایم آئی سی پی آر او سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے بتایا کہ وہ اس مسئلے سے پوری طرح واقف نہیں ہیں اور اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے انہیں ایجنڈے کو دیکھنا ہوگا۔